یادوں کی دنیا

شبیر احمد ارمان  جمعـء 24 دسمبر 2021
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

عبدالعزیز آسکانی 1955 میں کراچی کے قدیمی علاقے لیاری میں پیدا ہوئے ، ان کے آباؤاجداد نے 19ویں صدی کے آخر میں لیاری میں سکونت اختیار کی اور اپنا تجارتی پیشہ برقرار رکھا ، وہ کراچی سے بمبئی ، ابادان ، بصرہ اور افریقی بندرگاہوں تک جاکر تجارت کرتے تھے۔

عبدالعزیز آسکانی نے ابتدائی تعلیم ابراہا ملر پرائمری اسکول سے حاصل کی اور ایس ایم لیاری سیکنڈری اسکول سے میٹرک کیا۔ دوران تعلیم اور اسکول سے فارغ ہونے کے بعد بھی وہ اپنے والد کے پرچون کی دکان میں ان کا ہاتھ بٹاتے تھے ، پھر اچانک حالات نے پلٹا کھایا عبدالعزیز آسکانی کے آٹھ سالہ بھائی کی علاج و معالجہ پر اخراجات کی وجہ سے ان کے والد کی پرچون کی دکان بند ہوگئی بعد ازاں بڑی جدوجہد کے بعد ایک کمپنی میں اسٹور کیپر کی حیثیت سے ملازمت اختیار کی اور پھر سے زندگی ہنسی خوشی سے رواں دواں ہوئی لیکن گھر کے حالات ایسے نہیں تھے کہ عبدالعزیز آسکانی آگے کی تعلیم جاری رکھتا۔

اس لیے انھوں نے بھی فشریز کی ایک فرم انٹرنیشنل کمپنی میں کولڈ اسٹوریج مشین کی اپرنٹس شپ کی نوکری اختیار کی۔ جون 1978میں عبدالعزیز آسکانی کے ایک قریبی رشتہ دار نے ان کے لیے ابوظہبی سے ویزا بھیجا اس طرح وہ دیار وطن پہنچ گئے اور وہاں ایک پاکستانی بینک میں ملازمت اختیار کی اور ساتھ ہی مزید حصول علم کے لیے کوشاں ہوگئے اور اپنی محنت و لگن سے اپریل 1981 میں بینک آفیسر بن گئے۔

یادیں انسان کا قیمتی سرمایہ ہوتی ہیں ، یادیں ہی انسان کو اس کے بیتے ہوئے کل کی یاد دلاتی ہیں جن میں پر مسرت واقعات اور تلخ لمحات کی ملی جلی کیفیات شامل ہوتی ہیں۔ یادوں کی دنیا ، عبدالعزیز آسکانی کی ایک ایسی کتاب ہے جس میں ان کے بچپن سے لے کر تاحال 66 سالہ سنہری اور درد ناک یادوں کا مجموعہ ہے۔ انھوں نے اپنی اس خود نوشت میں نسل نو کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی کے مراحل کن کھٹن حالات میں طے کیے تاکہ ان کی زندگی میں گزرے تلخ و شیریں تجربات سے واقفیت حاصل کرکے نسل نو رہنمائی حاصل کرسکے۔

عبدالعزیز آسکانی بنیادی طور پر ایک ریٹائرڈ بینکار ۔ عرب امارت میں ملازمت کے بعد وطن واپسی کے کچھ عرصے بعد انھوں نے اپنے دو جوان بیٹوں کی مدد سے اپنے ذاتی کاروبار کا آغاز کیا جس میں انھیں کسی حد تک کامیابی حاصل ہوئی لیکن لیاری کی بدامنی نے اس کی پوری کائنات کو اجاڑ کر رکھ دیا۔ ایک طرف لیاری میں جاری دہشت گردی و بھتہ خوری نے ان کے کاروبار کو تباہ و برباد کر دیا تو دوسری طرف ان کا جواں سال فرزند عبدالحفیظ آسکانی لیاری میں جاری دہشت گردی کا شکار ہوگیا۔

اس کرب ناک واقعے نے عبدالعزیز آسکانی کو زندگی کی اس دوراہے پر لاکھڑا کردیا کہ اگر وہ ہمت و صبر سے کام نہ لیتے تو شاید کچھ بھی ہوسکتا تھا۔ انھوں نے ہمت سے کام لیتے ہوئے ایک ایسے راستے کا انتخاب کیا جو نہ صرف ان کے لیے جینے کا سہارا بن گیا بلکہ لیاری کی نسل نو کے لیے بھی رہنمائی کا ذریعہ بن گیا۔ عبدالعزیز آسکانی نے ایک سماجی کارکن کی حیثیت سے نئی زندگی کی شروعات کی اور لیاری کے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اپنا مثبت کردار ادا کرنا شروع کردیا اور قلیل عرصے میں لیاری کے نوجوان نسل کی کردار سازی میں اپنے حصے کے خدمات سرانجام دیں، آج وہ ایک کامیاب منفرد مقام رکھتے ہیں ۔

عبدالعزیز آسکانی کی کتاب ’’یادوں کی دنیا‘‘ 224 صفحات پر مشتمل، ان کی آپ بیتی ہے۔ ان کی والدین نے ان کی تعلیم و تربیت پر توجہ دی ، ان کی شریک حیات نے ان کی زندگی کا آسودہ حال اور منظم بنایا اور غم ناک صورتحال میں بھی انھیں زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھایا۔ کتاب کے پیش لفظ میں رمضان بلوچ لکھتے ہیں کہ ’’ مصنف نے بڑی بے باکی اور صاف و شفاف اور سیدھے سادے الفاظ میں وہ ہمیں ایک ایسی کہانی سنا رہے ہیں جس میں جستجو ہے ، آگے بڑھنے کا عزم ہے ، خوشیوں کے ہلکے سے اشارے ہیں ، درد ہے ، تڑپ ہے ، حساسیت ہے لیکن کہیں بھی یاسیت اور نا امیدی کے اندھیرے سائے منڈلاتے نظر نہیں آتے۔

یادوں کی دنیا صرف آپ بیتی تک محدود نہیں ہے بلکہ پاکستان ، ایران اور عرب امارات کا مشترکہ سفر نامہ بھی ہے جس میں معلومات ، تینوں ممالک کی تجارتی صورتحال ، طرز زندگی اور ثقافتی رنگوں کی جھلکیاں دلچسپ انداز میں بیان کی گئی ہے۔

کتاب کے اظہاریے میں شبیر حسین بلوچ لکھتے ہیں کہ ’’ رب العالمین نے آسکانی صاحب کو بڑے ہمدرد قلب سے نوازا ہے ، ان کی نصحیتوں میں خلوص نظر آتا ہے ، وہ نہیں چاہتے کہ جن مشکلات کا انھیں سامنا تھا نسل نو بھی ان سے دوچار ہو۔ عبدالعزیز آسکانی اپنی آپ بیتی میں لیاری کی خراب حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’ خراب حالات میں بھی لیاری کی دکانیں کھلی رہتی تھیں جب تک دہشت گرد آکر بند نہ کرنے کا کہتے تھے۔ خراب حالات کے ساتھ تجارت کا حجم بھی گر رہا تھا۔ عبدالحفیظ ( آسکانی کا بیٹا) دکان سے آنے کے بعد ناشتہ کے لیے ڈبل روٹی ، انڈا اور بچوں کے لیے چیزیں لینے موٹر سائیکل پر جاتا تھا۔

یہ مئی دوہزار آٹھ کی وہ تاریک شام تھی کہ وہ لوٹ کر واپس نہ آیا بلکہ خبر آئی کہ دوطرفہ فائرنگ کی زد میں آگیا ہے ، اچانک اس بری خبر نے پوری فیملی کو صدمے اور سکتے میں ڈال دیا، میں ٹوٹ کر بکھرگیا۔‘‘ قارئین کو یاد ہوگا ، لیاری کے ان خراب حالات میں جسے بد نام زمانہ لیاری گینگ وارکے نام سے یاد کیا جاتا ہے کہ دوران سیکڑوں بے گناہ انسان جن میں مرد ، خواتین ، بوڑھے اور بچے شامل تھے راہ چلتے ہوئے ، بازار میں خریداری کرتے ہوئے ، اپنے گھر بیٹھے ہوئے، فٹبال کھیل کھیلتے ہوئے نامعلوم سمت سے آنے والی گولیوں اور منصوبہ بند بم دھماکوں کا نشانہ بن کر ہلاک ہوئے تھے۔

ان میں ان نوجوانوں کی تعداد الگ ہے جو اس تاریک راہ میں اپنی زندگی کا چراغ خود اپنے ہاتھوں سے گل کرچکے تھے ۔ سچ پوچھیں تو ان گزرے ہوئے پندرہ سالوں پر محیط شب و روز اہل لیاری کے لیے بھیانک خواب کے مانند تھے جب آنکھ کھلی تو لیاری کی قدیمی سنہری تہذیب ملیا میٹ ہوچکی تھی ، جب کہ مفاد پرستوں اور ان کے حواریوں نے اس دور کو امن سے تعبیر کرکے اہل لیاری کے زخموں پر نمک پاشی کی تھی ، اب جب کہ لیاری پھر سے جی اٹھا ہے لیکن گزرے ہوئے دل خراش واقعات کمان سے نکلتا ہوئے تیر کی طرح اہل لیاری کے سینوں کو چیرتا ہوا آج بھی محسوس ہوتا ہے۔ اہل لیاری کے دل و دماغ اس قدر زخمی کر دیے گئے ہیں کہ رستہ ہوئے لہو کے قطروں کا ذکر نسل در نسل سینہ بہ سینہ منتقل ہوتا رہے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔