انٹرنیٹ پر آزادیٔ اظہارِ رائے کا گلہ گھونٹنے کی سازش

مرزا یاسر رمضان  اتوار 26 دسمبر 2021
بھارت نے 20 پاکستانی یوٹیوپ چینلز اور دو ویب سائٹس کو الزام لگا کر بلاک کردیا۔ (فوٹو: فائل)

بھارت نے 20 پاکستانی یوٹیوپ چینلز اور دو ویب سائٹس کو الزام لگا کر بلاک کردیا۔ (فوٹو: فائل)

سنسرشپ کے اس دور میں دنیا سوشل میڈیا کو مسیحا کے روپ میں دیکھتی ہے اور عمومی تاثر یہی ہے کہ سماجی روابط کی ویب سائٹس پر اپنی رائے کو بلا روک ٹوک لوگوں تک آزادی سے پہنچایا جاسکتا ہے۔ اس عمومی تاثر کے برعکس میرا ماننا ہے کہ ہم سوشل میڈیا پر بھی برق رفتاری کے ساتھ آزادیٔ اظہارِ رائے سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کے آرٹیکل 19 کے مطابق دنیا میں بسنے والے ہر ایک فرد کو آزادی رائے اور اظہار رائے کا حق حاصل ہے۔ اس حق میں بغیر کسی مداخلت کے رائے رکھنے کی آزادی اور کسی بھی میڈیا کے ذریعے اور سرحدوں سے قطع نظر معلومات اور خیالات حاصل کرنے اور فراہم کرنے کی آزادی شامل ہے۔

اقوام متحدہ میں شامل ممالک پر لاگو ہوتا ہے کہ وہ انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کے آرٹیکل 19 کا احترام کریں، لیکن المیہ یہ ہے کہ ایسا نہیں ہورہا۔ ہر ملک دوسرے ملک میں آزادی اظہار رائے کی پابندیوں کو لے کر پریشان نظر آتا ہے لیکن اپنے گریبان میں کوئی بھی جھانکنے کو تیار نہیں۔ دنیا بھر میں سیکڑوں تنظیمیں آزادی اظہار رائے کے تحفظ کےلیے کام کررہی ہیں لیکن ان کے پیمانے بھی دہرے معیار کا شکار ہیں۔ چاہے ملک ہوں، ادارے ہوں، کوئی تنظیم ہو یا پھر کوئی ایک فرد، ہر کسی نے آزادی اظہار رائے کے الگ پیمانے بنا رکھے ہیں۔ کہاں آزادی اظہار رائے کا سبق پڑھانا ہے اور کہاں پراسرار خاموشی اختیار کرنی ہے، اس بات کا فیصلہ منہ دیکھ کر کیا جاتا ہے۔

ملک ’’نیشنل سیکیورٹی‘‘ کی آڑ میں آزادی اظہار رائے کا گلہ گھونٹتے ہیں، ادارے معاشی مفادات کو آزادی اظہار رائے سے افضل جانتے ہیں، تنظیمیں آزادی اظہار رائے کی اپنی ذاتی ’’تعریف‘‘ فنڈز فراہم کرنے والوں کے زیر سایہ تیار کرتی ہیں۔

اب حال ہی میں پیش آنے والے ایک واقعے کو دیکھ لیجئے۔ ہوا یوں کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی، جو کہ آزادی اظہارِ رائے پر قدغن لگانے والے 37 ممالک کے سربراہان میں سے ایک ہیں، انہوں نے پاکستان سے چلائے جانے والے 20 یوٹیوب چینلز اور دو ویب سائٹس پر یہ الزام لگا کر بھارت میں بند کردیا کہ ان پر بھارت مخالف مواد اپ لوڈ کیا جارہا ہے۔

بھارتی حکومت کی جانب سے بتایا گیا کہ پاکستان سے چلنے والے ان چینلز کے مجموعی فالورز 3.5 ملین ہیں اور انہیں مجموعی طور پر 500 ملین بار دیکھا گیا۔

اب ذرا اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کے آرٹیکل 19 کو ایک بار پھر پڑھیے اور دیکھئے کہ کیا اسے آزادی اظہار رائے کا گلہ گھونٹنا نہیں کہیں گے؟ ایسے چینلز جنہیں بھارت کے لاکھوں لوگ (بھارتی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق) سنتے ہیں اور معلومات حاصل کرتے ہیں، ان کو بند کرکے لاکھوں لوگوں کو معلومات حاصل کرنے سے محروم کردیا گیا ہے، جو کہ اقوام متحدہ کے آرٹیکل 19 کی خلاف ورزی ہے۔ اب بھارت ’’نیشنل سیکیورٹی‘‘ کا منجن بیچ کر اپنے عوام کو آزادی اظہار رائے سے محروم کرنے کا جواز پیدا کررہا ہے۔

خیر ایک ایسا ملک جس کا سربراہ پہلے ہی ان 37 ممالک میں شامل ہے جو آزادی اظہار رائے پر پابندیاں لگانے کے حوالے سے سرفہرست ہیں، ان کی جانب سے یہ اقدام کو نئی بات نہیں۔ المیہ یہ ہے کہ یوٹیوب جیسا بڑا ادارہ بھی اپنے مفادات کو آزادی اظہار رائے کے حق پر ترجیح دے رہا ہے۔ واضح رہے کہ یوٹیوب کی ایک پالیسی ہے کہ وہ حکومتوں کی درخواست پر ایسے مواد کو ان کے ملک میں بند کردیتا ہے جسے وہ اپنے عوام کو نہیں دکھانا چاہتے۔ ہر ملک کا خصوصی انٹرنیٹ پروٹوکول (IP) ہوتا ہے اور یوٹیوب انتظامیہ اس ملک کی آئی پی پر مطلوبہ مواد کی ترسیل روک دیتی ہے۔

پاکستان کے 20 یوٹیوب چینلز کی بندش کے معاملے کو دیکھا جائے تو ایسا نہیں ہوا۔ ادھر بھارت میں ان چینلز کو بند کیا گیا تو دوسری طرف یوٹیوب نے بھی پھرتی دکھائی اور بھارتی حکومت کے پروپیگنڈے کو سچ مانتے ہوئے ان 20 چینلز کو یوٹیوب سے ہی ہٹا دیا، جنہیں لاکھوں لوگ پسند کرتے ہیں۔ یوٹیوب نے ایسا صرف پاکستانیوں کے ساتھ نہیں کیا، روس والے بھی یوٹیوب کے اس دہرے معیار کا شکار ہوچکے ہیں۔ روسی حکومت کے ماتحت چلنے والے نیوز چینل آر ٹی (RT) نے جرمن زبان میں اپنی نشریات کا آغاز کیا تو یورپ نے اسے اپنے لیے خطرہ قرار دیا۔ آر ٹی نے جرمن زبان میں یوٹیوب پر اپنا چینل بنایا تو یوٹیوب نے اسے اعتراضات لگا کر ہٹا دیا اور بطور ادارہ اقوام متحدہ کے آرٹیکل 19 کی خلاف ورزی کی۔ اب روسی حکومت نے یوٹیوب کو چینل بحال کرنے کی آخری وارننگ جاری کرتے ہوئے دھمکی دی ہے کہ اگر چینل بحال نہ کیا گیا تو قانونی کارروائی کی جائے گی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ قانونی کارروائی کی صورت میں یوٹیوب کو بھاری جرمانے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستانی یوٹیوبرز کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر ہر طرف ایک پراسرار خاموشی ہے۔ حال ہی میں، پاکستان میں میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے نام سے ایک آرڈیننس کے نفاذ کا ذکر چلا تو آزادی اظہار رائے کےلیے کام کرنے والی تنظیموں نے ایسے ایسے بین کیے کہ یہاں لکھوں تو آپ کہ آنکھیں بھر آئیں۔

ترقی یافتہ ممالک جو جرمن زبان میں ایک یوٹیوب چینل برداشت نہیں کرسکے ان کے اخبارات نے آرٹیکل چھاپ چھاپ کر بتایا کہ اگر میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی نامی آرڈیننس آگیا تو سب ختم ہوجائے گا، یوٹیوب چینلز تک بند ہو جائیں گے، سوشل میڈیا پر آزادی اظہار رائے کا گلہ گھونٹ دیا جائے گا۔

دوسری جانب پاکستان میں ایک خاص طبقہ جو آزادی اظہار رائے کا چیمپئن ہے، ان کی جانب سے بھی اندھا دھند تنقید کی گئی اور بتایا گیا کہ سوشل میڈیا پر پابندی لگانے سے آزادی اظہار رائے کا قتل ہوجائے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ پاکستان کے 20 یوٹیوب چینل جو بھارتی حکومت کی سازش اور یوٹیوب کے دہرے معیار کی بھینٹ چڑھے، کیا ان کی بندش آزادی اظہار رائے پر حملہ نہیں؟ اگر ایسا ہے تو پھر سب زبانیں خاموش کیوں ہیں؟ 20 پاکستانی یوٹیوبرز حکومت سے اور آزادی اظہار رائے کےلیے کام کرنے والی تنظیموں سے اور آزادی اظہار رائے کے چیمپئنز سے ایک ہی سوال پوچھتے ہیں:
بولتے کیوں نہیں مرے حق میں
آبلے پڑ گئے زبان میں کیا

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مرزا یاسر رمضان

مرزا یاسر رمضان

بلاگر نے جامعہ گجرات سے میڈیا اسٹڈیز میں تعلیم حاصل کی ہے اور شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ان سے ٹویٹر ہینڈل @MirzaYasir17 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔