کروڑوں روپے کمانے والے استاد

سید عاصم محمود  اتوار 26 دسمبر 2021
جنوبی کوریا میں ٹیوشن اکیڈمیوں کے اربوں ڈالر پہ محیط کاروبار کی حیرت انگیز داستان

جنوبی کوریا میں ٹیوشن اکیڈمیوں کے اربوں ڈالر پہ محیط کاروبار کی حیرت انگیز داستان

چاکل یونگ (Cha Kil-yong) نے سر پر ہیڈفون جمایا، آنکھیں بند کیں اور اسٹوڈیو میں گانا گانے لگا۔ چاکل مگر جنوبی کوریا کا مشہور گلوکار یا اداکار نہیں، گو عوامی شہرت رکھنے والا نوجوان ضرور بن چکا… وہ ریاضی پڑھانے والا مقبول ترین استاد ہے!دراصل چاکل یونگ ریاضی پڑھانے کا اپنا انداز رکھتا ہے۔

کبھی وہ ڈرامے کی مدد لیتا ہے، تو کبھی گانے کی! طلبہ و طالبات اس کے انداز تعلیم کو بہت پسند کرتے اور جوق در جوق چاکل کے لیکچروں میں شریک ہوتے ہیں۔لیکن چاکل کسی کالج یا اسکول میں نہیں پڑھاتا، وہ ’’ہاگ وون‘‘ (Hagwon) کا استاد ہے۔یہ ہمارے  ملک کے ٹیوشن سینٹر کی طرح کا ادارہ ہے۔ اس کے سینٹر میں طلبہ و طالبات کو ریاضی میں بھرپور تیاری کرائی جاتی ہے تاکہ وہ  امتحان میں زیادہ نمبر لے سکیں۔ چاکل  ہر سال ہزارہا طالبان علم کو پڑھا کر آٹھ لاکھ  ڈالر (تقریباً اٹھارہ کروڑ روپے) کماتا ہے۔یہ اکلوتا استاد نہیں،ٹیوشن سینٹروں میں اس جیسے کئی استاد طلبہ کو پڑھا کر سالانہ کروڑوں روپے کماتے ہیں۔

ٹیوشن سینٹروں کی تاریخ

جنوبی کوریا میں پہلا ٹیوشن سینٹر ایک امریکی مشنری، ہنری اپنزلر نے 1885ء میں کھولا تھا۔وہ اس کی آڑ میں مشنری سرگرمیاں انجام دینا چاہتا تھا۔تب مملکت میں پابندی تھی کہ مشنری تبلیغ ِعیسائیت نہیں کر سکتے۔رفتہ رفتہ اس کی دیکھا دیکھی دیگر سینٹر کھل گئے جہاں انگریزی سکھائی جانے لگی۔

ان ٹیوشن سینٹروں کو 1910ء تا1945ء کے دوران مقبولیت ملی جب کوریا پہ جاپانیوں کا قبضہ رہا۔تب کورین قوم نے فیصلہ کیا کہ آزادی،خودمختاری اور خودانحصاری پانے کا بہترین راستہ یہ ہے کہ جدید تعلیم حاصل کی جائے۔چناں چہ 1945ء تک جنوبی کوریا میں تین ہزار ٹیوشن سینٹر کھل چکے تھے۔ان میں انگریزی، ریاضی اور سائنسی مضامین پڑھائے جاتے۔

1950ء کی کوریائی جنگ کے بعد جنوبی کوریا کا شمار اگلے دس پندرہ برس تک غریب ترین ممالک میں ہوتا رہا۔ 1960ء میں جنوبی کوریا کی فی کس آمدن صرف 79ڈالر تھی، یعنی کسی قحط زدہ افریقی ملک جتنی! لیکن اس کے بعد جاپان اور ملائیشیا کی طرح جنوبی کورین حکومت بھی تعلیم پر خصوصی توجہ دینے لگی۔ ملک کے طول و عرض میں جا بجا اسکول کالج کھولے گئے اور حکومت نے باقاعدہ یہ تحریک چلائی کہ ہر بچہ تعلیم ضرور حاصل کر سکے۔شعبہ تعلیم کی بھرپور سرکاری سرپرستی کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج جنوبی کوریا میں ’’ 98 فیصد‘‘ آبادی خواندہ ہے۔

یہی نہیں، ملک کے طلبہ و طالبات سائنس، ریاضی اور انگریزی جیسے اہم ترین موضوعات میں عالمی سطح پہ بہترین کارکردگی دکھاتے ہیں۔ جنوبی کورین طالبان علم کو امریکی و برطانوی طلبہ و طالبات سے زیادہ ذہین سمجھا جاتا ہے۔

جنوبی کورین حکومت آج بھی اپنے بجٹ کا ’’20فیصد‘‘ حصہ شعبہ تعلیم پر خرچ کرتی ہے۔ یہ رقم  اربوںڈالر  بنتی ہے۔ گویا جنوبی کورین حکومت ہمارے قومی بجٹ سے کئی گنا زیادہ رقم شعبہ تعلیم کو دیتی ہے۔ ظاہر ہے، اس ملک نے تعلیمی میدان میں آگے ہونا ہی تھا۔جنوبی کوریا میں قدرتی وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں۔ لہٰذا  قوم نے تعلیم کو ترقی و خوشحالی کی سیڑھی بنا لیا اور اس کوشش میں وہ خوب کامیاب رہی۔

وہاں تعلیم عام کرنے میں ’’ہاگ وون‘‘ نے بھی اپنا کردار ادا کیا اور لاکھوں طلبہ و طالبات کو امتحانات میں پاس ہونے اور ترقی کرنے میں مدد دی۔آج جنوبی کوریا میں ٹیوشن سنٹر کھولنا بہت منافع بخش بن چکا۔ ماہرین کے مطابق وہاں ہر سال یہ ٹیوشن اکیڈمیاں ’’25ارب ڈالر‘‘ کی کمائی کرتی ہیں۔ یہ پاکستانی کرنسی میں سوا چار ہزار ارب  روپے سے زیادہ رقم بنتی ہے۔ ان ٹیوشن سینٹروں میں پہلی جماعت سے پی ایچ ڈی تک کے طلبہ و طالبات کو پڑھایا جاتا ہے۔ ایک اچھے ٹیوشن سینٹر میں فی مضمون ماہانہ20 تا 25ہزار روپے لیے جاتے ہیں۔

خوبیاں اور خامیاں بھی

لیکن ہر شے کی طرح یہ ٹیوشن سینٹر خوبیاں اور خامیاں، دونوں رکھتے ہیں۔ ایک طرف ان سینٹروں نے تعلیم کو عام کیا اور یوں جنوبی کوریا کو اس قابل بنانے میں مدد دی کہ وہ ترقی یافتہ و خوشحال ملک بن سکے۔ دوسری جانب ٹیوشن مراکز کی خامیاں بھی رفتہ رفتہ سامنے آ رہی ہیں۔ اور عوام کو احساس ہو رہا ہے کہ ان کے نقصانات فوائد سے زیادہ ہیں۔ٹیوشن سینٹروں میں پڑھنے والے بچے اچھے نمبر لیتے تھے۔

اس لیے بیشتر سرکاری ونجی ملازمتیں انہی کو ملنے لگیں۔رفتہ رفتہ ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔والدین اپنے بچوں کو ٹیوشن سینٹروں میں ڈالنے لگے تاکہ وہ زیادہ نمبر لے کر عمدہ ملازمت حاصل کر سکیں۔ترقی کی تمنا کرنا ہر کسی کا حق ہے۔بدقسمتی سے ٹیوشن سینٹروں کے مالکان نے والدین و طلبہ کی اس تمنا کو کمائی کا ذریعہ بنا لیا۔

ہوا یہ کہ ٹیوشن سینٹر اپنی فیس بڑھانے لگے۔پھر ان کے مابین زیادہ طلبہ پانے کی خاطر مقابلہ شروع ہو گیا۔ہر سینٹر کوشش کرنے لگا کہ وہ بھاری معاوضے پر اچھے استاد لے آئے۔بتدریج فیسیں اتنی زیادہ بڑھ گئیں کہ صرف امرا کے بچے ہی سینٹروں میں پڑھ سکتے تھے۔یہ دیکھ کر نچلے ومتوسط طبقوں سے تعلق رکھنے والے والدین دو ملازمتیں کرن لگے تاکہ آمدن بڑھا کر اپنے بچوں کو ’’ہاگ وون‘‘میں پڑھا سکیں۔

لیکن اس عمل سے کم آمدنی والے باشندوں پہ بوجھ بڑھ گیا۔وہ کئی گھنٹے کام کر کے ٹینشن وڈپریشن میں مبتلا رہنے لگے۔زیادہ سے زیادہ نمبر پانے کی اس دوڑ نے بچوں کو بھی متاثر کیا۔ وہ دن میں عام اسکول میں پڑھتے پھر انھیں ٹیوشن سینٹر میں پڑھنا پڑھتا۔گویا ان کی زندگی میں غیر نصابی سرگرمیوں اور کھیلوں کی جگہ بہت کم رہ گئی۔حالانکہ بچوں کی ذہنی وجسمانی نشوونما ان کی بھی اہم کردار ہے۔چناں چہ ہر وقت پڑھنے سے ان کی ذہنی وجسمانی حالت پہ منفی اثرات مرتب ہوئے۔

مثال کے طور پر کئی جنوبی کورین بچے عینکیں لگائے نظر آنے لگے۔ مسلسل پڑھ کر ان کی نظر کمزور ہو گئی۔ پھرکھیل کے لیے وقت نہ ملنے کے باعث ان کی جسمانی نشوونما متاثر ہوتی ۔ ان میں خودکشی کرنے کا رجحان بھی بڑھ گیا کہ بہت سے بچے بارہ گھنٹے کا دباؤ برداشت نہیں کر پاتے۔ والدین بھی ان پر دباؤ ڈالتے کہ ہر صورت کامیاب ہونا ہے تاکہ خاندان یا معاشرے میں ان کی ’’ٹور‘‘ بندھی رہے۔حال یہ ہو گیا کہ جیسے ہی کسی جنوبی کورین کے ہاں بچہ جنم لے، اسے اعلیٰ تعلیم دلانے کی تیاری شروع ہو جاتی ۔ والدین پیسوں کی بچت کرنے لگتے تاکہ اعلیٰ تعلیم کا خرچ اٹھا سکیں۔

دوسری طرف بچے پہ یہ دباؤ پڑتا کہ وہ جماعت میں عمدہ کارکردگی دکھائے اورزیادہ نمبر لے۔ ا س خاطر ہی بچے ٹیوشن سینٹروں میں بھیجے جاتے ۔کئی والدین اپنا پیٹ کاٹ یا اپنی ضرورتیں کم کر کے ٹیوشن فیس دیتے ۔ بچے وہاں اسکول کے بعد رات گئے تک پڑھائی میں مشغول رہتے ۔ حتی کہ جنوبی کوریا میں مقابلے کا ایسا ماحول بن گیا جس میں کامیابی پانے کی خاطر ہر جائز وناجائز حربہ اختیار کیا جاتا ہے۔

خرابیاں ختم کرنے کی کوششیں

جنرل چون دو ہوان جنوبی کوریا کا فوجی آمر گذرا ہے۔1979ء تا1988ء برسراقتدار رہا۔اس کا دور حکومت اچھا نہ تھا مگر اس نے کچھ عوام دوست اقدام ضرور کیے۔جنرل چون سمجھتا تھا کہ ٹیوشن سینٹر امرا کے آلہ کار بن چکے۔وہ وہاں بھاری فیس دے کر اپنے بچوںکو پڑھاتے ہیں جنھیں پھر بیشتر ملازمتیں اور اعلی عہدے ملتے ہیں۔جنرل کی نظر میں یہ طریق کار غلط تھا کیونکہ معاشرے میں ہر کسی کو موقع ملنا چاہیے کہ وہ مساوات وبرابری سے تعلیم پا سکے۔اور یہ کہ بچوں کو پڑھانے کے لیے والدین پر نامناسب تعلیمی بوجھ ڈالنا غیر منصفانہ بات ہے۔اسی لیے جنرل چون نے تمام ٹیوشن سینٹروں پہ پابندی لگا دی۔

امیر و غریب کے مابین امتیاز ختم کرنے کی خاطر سرکاری ونجی اسکولوں میں ایک جیسا یونیفارم متعارف کرایا۔ان اقدامات کا عوام نے خیرمقدم کیا۔وہ سمجھتے تھے کہ امرا کو یہ حق حاصل نہیں کہ اپنے بچوں کو مہنگی ٹیوشن دلاکر معاشرے میں آگے پہنچا دیں۔جبکہ ناقدین کا کہنا تھا کہ جنرل چون نے والدین کو اس حق سے محروم کر دیا کہ اپنے بچوں کو بہتر تعلیم دلوا سکیں۔بہرحال امرا چوری چھپے اپنے بچوں کو اساتذہ سے ٹیوشن پڑھاتے رہے جنھیں بھاری معاوضہ دیا جاتا۔

2001ء میں جنوبی کورین سپریم کورٹ نے ٹیوشن سینٹروں پہ عائد پابندی ہٹا دی۔اس کا استدلدل تھا کہ ہر انسان کسی بھی طریقے سے تعلیم پانے کا حق رکھتا ہے۔پابندی ہٹتے ہی جنوبی کوریا میں کھمبیوں کی طرح ٹیوشن سینٹر کھلنے لگے۔2015ء تک ان کی تعداد سوا ایک لاکھ تک پہنچ گئی۔نتیجتہً پھر ان میں پڑھتے طلبہ وطالبات زیادہ نمبر لے کر بیشتر ملازمتیں پانے لگے۔نچلے ومتوسط طبقوں کے والدین نے اس روش کو زیادتی قرار دیا۔ان کا کہنا تھا کہ امرا پیسے کی طاقت سے تعلیم ’’خرید‘‘ لیتے ہیں۔ تعلیم پانا کاروبار بن چکا۔

2017ء میں لیفٹسٹ نظریات رکھنے والے موجودہ صدر،مون جے نے حکومت سنبھال لی تو وہ ٹیوشن سینٹروں کے خلاف سرگرم عمل ہوئے۔انھوں نے زیادہ فیس لینے والے سینٹروں پہ پابندی لگا دی۔نیز حکم دیا کہ سبھی سینٹر رات دس بجے بند ہو جائیںتاکہ طلبہ سکون سے سو سکیں۔مون حکومت نے مذید سخت قوانین بنائے تاکہ ٹیوشن سینٹر زائد فیسیں نہ لے سکیں۔تاہم سینٹروں کا کام کرنے کی آزادی ہے۔

او ای سی ڈی (آرگنائزیشن فار اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈویلپمنٹ) دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی مشہور تنظیم ہے۔ یہ ہر سال رکن ممالک میں تعلیمی صورت حال پر تحقیقی رپورٹ مرتب کرتی ہے۔ تازہ رپورٹ کے مطابق جنوبی کوریا کے طلبہ و طالبات انگریزی پڑھائی (Reading) ،ریاضی اور سائنس میں بہترین کارکردگی دکھاتے ہیں۔سّکے کا دوسرا رخ یہ  کہ جب جنوبی کورین بچوں سے پوچھا جائے کہ وہ اپنے نظام تعلیم سے کتنے خوش رہتے ہیں تو ان کی اکثریت بیزاری اور ناخوشی کا اظہار کرتی ہے۔جنوبی کورین ٹیوشن سینٹروں کی ایک اور بڑی خامی یہ ہے کہ وہاں ’’رٹا سسٹم‘‘ مروج ہے۔ چناںچہ بچوں سے نصاب سے باہر کوئی سوال پوچھا جائے، تو وہ بغلیں جھانکتے  ہیں۔ رٹے کے باعث ہی وہ انگریزی بھی صحیح طرح بول نہیں پاتے، البتہ درسی کتب فرفر پڑھتے ہیں۔

اُدھر چین کی حکومت نے حال ہی میں ’’فار پرافٹ‘‘یعنی کمائی کے لیے کام کرنے والے سب ٹیوشن سینٹروں پہ پابندی لگا دی ۔ اب صرف غیر منافع بخش سینٹر ہی کا کر سکتے ہیں۔ اس پابندی کے پیچھے بھی یہی نظریہ کارفرما ہے کہ تعلیم پانے کے عمل کوسستا کیا جائے تاکہ نچلے ومتوسط طبقے بھی اس تک رسائی پا سکیں۔نیز والدین اور بچوں،دونوں پہ زیادہ بوجھ نہ پڑے۔چین وجنوبی کوریا میں یہ خیال عام ہے کہ ہزارہا ٹیوشن سنٹروں نے اس لیے جنم لیا کہ سرکاری اسکولوں میں تعلیم کا معیار اچھا نہیں… اور اس کی وجہ اساتذہ کی تنخواہیں کم ہونا ہے۔لہٰذا ٹیوشن سنٹر نظام سے عاجز آئے عوام حکومتوں پر زور دے رہے ہیں کہ وہ سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کو اچھی تنخواہیں دیں۔ یوں انھیں ٹیوشن سینٹروں یا دیگر اداروں میں ملازمت کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ وہ معاشی طور پر آسودہ حال ہو کر طلبہ و طالبات کو عمدہ تعلیم دے سکیںگے۔

پاکستان میں بھی ٹیوشن سینٹر جابجا موجود ہیں اور یہاں بھی اکیڈمی کھولنا کمائی والا ’’کاروبار‘‘ بن چکا۔ نامور اسکولوں کے اساتذہ بھی ٹیوشن سینٹر چلاتے ہیں یا ان سے وابستہ ہو چکے۔ اسی باعث اب وہ بچوں کو پوری توجہ سے نہیں پڑھاتے اور خصوصاً نویں دسویں جماعت کے طلبہ و طالبات کی مجبوری بن چکی کہ وہ امتحانات کی تیّاری کے لیے ٹیوشن سینٹر سے بھی رجوع کریں۔تاریخ انسان سے عیاں ہے کہ سیکڑوں عظیم دانشور، فلسفی، موجد حتیٰ کہ سائنس دان (مثلاً تھامس ایڈیسن) باقاعدہ طور پر اسکول میں نہیں پڑھے‘ لیکن انسانیت کو بہت کچھ دے گئے۔ خصوصاً وہ ٹیوشن سینٹر کے نام سے بھی ناآشنا تھے۔ لیکن دور جدید میں مقابلے کی غیرانسانی ’’چوہا دوڑ‘‘ سے ان سینٹروں نے مقبولیت اور اہمیت حاصل کر لی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔