پاک، افغان سرحدی باڑ کا معاملہ

ایڈیٹوریل  اتوار 26 دسمبر 2021
2600 کلو میٹر طویل اور ناہموار سرحد پر باڑ لگانا پاکستان اور افغانستان کے درمیان متنازع مسائل میں سے ایک ہے

2600 کلو میٹر طویل اور ناہموار سرحد پر باڑ لگانا پاکستان اور افغانستان کے درمیان متنازع مسائل میں سے ایک ہے

پاکستان اور افغانستان کی طالبان کی عبوری حکومت کے درمیان سرحد پر باڑ لگانے کے معاملے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر اتفاق ہو گیا ہے، طالبان فوجیوں نے گزشتہ ہفتے مشرقی صوبے ننگرہار کی سرحد پر باڑ لگانے کی کوشش میں خلل ڈالنے کی کوشش کی تھی، سننے میں آرہا ہے کہ طالبان کے ایک مقامی انٹیلی جنس سربراہ نے باڑ ہٹانے کی کوشش کی تھی اور یہ طالبان قیادت کی طرف سے منظور شدہ فیصلہ نہیں تھا۔

بہرحال باڑ ہٹانے کا مذکورہ واقعہ پاکستان کی میزبانی میں افغانستان پر او آئی سی کے وزرائے خارجہ کے غیر معمولی اجلاس سے ایک روز قبل پیش آیا، اور طالبان کی اس حرکت کی سوشل میڈیا وڈیو وائرل ہوئی ، اس وڈیومیں باڑ ہٹانے والوں کے چہرے اور ان کی آواز سنی جاسکتی ہے۔ افغان وزارت دفاع کے ترجمان نے کہا کہ اب سب کچھ معمول پر آ گیا ہے، پاکستان نے اس پیش رفت پر سرکاری طور پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا۔

2600 کلو میٹر طویل اور ناہموار سرحد پر باڑ لگانا پاکستان اور افغانستان کے درمیان متنازع مسائل میں سے ایک ہے، کابل کی سابقہ انتظامیہ نے بھی سرحد پر باڑ لگانے پر اعتراض کیا تھا اور اس عمل میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوشش کی تھی تاہم پاکستان نے باڑ لگانے کا کام آگے بڑھایا اور کہا جاتا ہے کہ 90 فیصد سرحد پر باڑ لگا دی گئی ہے، باڑ لگانا اس سرحدی میکنزم کا حصہ ہے جس پر پاکستان برسوں سے کام کر رہا ہے تاکہ نہ صرف عام لوگوں کی نقل و حرکت کو منظم کیا جا سکے بلکہ دہشت گردوں کا بآسانی سرحد پار آنا جانا روکا جا سکے۔

واضح رہے پاکستان کی جانب سے دہشت گردی کی کارروائیوں کے سدباب کے لیے باڑ کی تنصیب کا کام افغان حکومت اور پاک بارڈر حکام کے ساتھ بات چیت کے بعد ایک طے شدہ میکنزم کے ساتھ جاری رکھا گیا، دونوں جانب سے باڑ کی تنصیب کو ملکی سلامتی اور پاک افغان بارڈر کی تزویراتی اہمیت کے حوالے سے ایک اہم حساس معاملہ سمجھا گیا تھا، دوسری جانب دہشت گردوں کے وہ عناصر جو فاٹا اور دہشت گردی کے لیے پاک سرحدی پٹی کو بے دریغ مداخلت کا نشانہ بناتے تھے۔

ان سے بچانا بھی تھا، پاک فوج نے افغانستان کی سلامتی کو پیش نظر رکھتے ہوئے باڑ لگانے کی تکمیل کے لیے تمام ضروری انتظامات کیے اور افغان حکومت نے بھی باڑ کی تنصیب میں کسی نوعیت کی امتناعی کارروائی نہیں کی اور باڑ کا کام نئی افغان حکومت کے اقتدار میں آنے تک کبھی تنازع کا سبب نہیں بنا، اب یہ تنازع کیوں سامنے آیا، بتایا جاتا ہے کہ حالیہ او آئی سی وزرائے خارجہ اجلاس کے بعد باڑ پر طالبان کی طرف سے مداخلت کا عندیہ دیا گیا اور باڑ کی تاریخی حیثیت اور تکمیلی کام میں خلل ڈالا گیا جب کہ یہ ناخوشگوار فریضہ طالبان کے بعض نامعلوم عہدیداران کی جانب سے اٹھایا گیا۔

میڈیا نے دکھایا کہ کس طرح باڑ کے کام میں مداخلت کی گئی، سرحدی باڑ کا مقصد دہشت گردوں کے بے ہنگم دوطرفہ انخلا اور پناہ گزینوں کی آمدورفت پر مانیٹرنگ کے میکنزم کو دہشت گردی کے خطرے سے محفوظ کرنا ہے، یہ باڑ ایران، افغانستان اور پاکستان کے حوالے سے بھی مستقبل کے خطرات کی روک تھام میں مددگار ثابت ہوگی، اسے افغانستان کی حکومت اور طالبان کو دو طرفہ خیر سگالی کے طور پر دیکھنا چاہیے جب کہ پاکستان کو پاک افغان بارڈر کی معنویت کو داخلی سلامتی اور دہشت گردی کو روکنے کے میکنزم کے حوالے سے مکمل کرنا چاہیے۔

کیونکہ پاکستان کے لیے اسمگلنگ، ٹیرر فنانسنگ اور دہشت گردی کی روک تھام کے لیے باڑ کی ضرورت ناگزیر ہے۔ طالبان کو باڑ کے معاملے میں غیر ضروری شکایت اور مداخلت میں نہیں پڑنا چاہیے کیونکہ یہ پاکستان کی سلامتی کا معاملہ ہے اور پاکستان کو اپنی سرحد پر باڑ اور مورچے وغیرہ کا حق حاصل ہے۔باڑ کو جن لوگوں نے ہٹایا ہے، طالبان کی حکومت کو ان کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے ، محض یہ کہہ دینا کا کافی ہے کہ اب معاملہ طے ہوگیا ہے۔

اس ضمن میں سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے سوال اٹھایا ہے کہ اگر طالبان نے پاکستان کو افغان سرحد پر باڑ لگانے سے روک دیا ہے، وہ سرحد کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں تو ہم آگے کیوں بڑھ رہے ہیں، پارلیمنٹ جب تک صحیح جڑ کو پکڑ کر اس کے حل کے لیے کوشاں نہیںہوگی ایسے واقعات مستقبل میں بھی سامنے آتے رہیں گے، انھوں نے مزید کہا کہ ریاست کو بتانا ہوگا کہ کن شرائط پر کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ سیز فائر ہوا۔

چیئرمین صادق سنجرانی کی زیر صدارت سینیٹ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے رضا ربانی نے کہا کہ جب ریاست کو ضرورت ہو تو پارلیمان کو استعمال کیا جاتا ہے، ہم طالبان حکومت کی حمایت توکر رہے ہیں لیکن کوئی اس پر بات نہیں کرتا کہ افغانستان میں طالبان کی موجودگی میںریاست کی پالیسی درست ہے یا نہیں۔ وزیراعظم عمران خان اور ان کے ساتھیوں کوسابق چیئر مین رضا ربانی کے خدشات کو سنجیدگی سے زیر غور لانا چاہیے۔ سیاست دانوں کاکہناہے کہ حکومت باڑ اور افغان تعلقات پر بنیادی معاملات کو پارلیمنٹ کے علم میں لائے بغیرطے کرنے کی کوئی کارروائی نہ کرے۔

دوسری طرف سفارتی سطح پر پاکستان نے اصولی طور پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ حالات خواہ کچھ بھی ہوں، انھیں مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے گا اور پاک افغان بارڈرز آیندہ کسی صورت میں بھی بند نہیں کیے جائیں گے۔ افغان شہریوں کی بڑی تعداد عدم تحفظ اور معاشی بدحالی کے باعث اپنے ملک سے نقل مکانی کرنے کی خواہش مند ہے اور پاکستان آنے کو ترجیح دیتی ہے جسے وہ اپنے لیے آسان سمجھتی ہے۔

کابل میں موجود ابلاغ کے بعض ادارے غیر فعال ہو چکے ہیں جس کی بڑی وجہ کارکنوں کو معاوضوں اور تنخواہوں کی عدم ادائیگی ہے، ملک میں بیروزگاری اور کاروبار میں جمود کا سلسلہ کچھ ماہ تک مزید جاری رہا تو افغانستان میں حالات مزید خراب ہوسکتے ہیں اور وہاں منشیات کی کاشت، فروغ اور اسمگلنگ کا سلسلہ بھی شروع ہو سکتا ہے تاہم فی الوقت اس حوالے سے صورتحال پر گرفت ہے۔ ان خیالات کا اظہار کابل میں متعین پاکستانی سفیر منصور خان نے جو او آئی سی کے انعقاد کے حوالے سے اسلام آباد میں موجود تھے، کابل روانگی سے قبل جمعہ کو وفاقی دارالحکومت میں میڈیا کے سینئر نمایندوں، اینکرز اور ایڈیٹرز سے ایک غیر رسمی گفتگو میں کیا۔

لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ سلامتی، دہشت گردی کے سدباب اور افغان مہاجرین کی آمد و رفت کے تناظر میں اس باڑ اور راہ داری کو احتیاط کے ساتھ برتا جائے، جہاں تک پاک افغان بارڈر کی اہمیت کی بات ہے، اس پر کوئی دو رائے نہیں کہ اس راستے کو دہشت گردی، اسمگلنگ اور غیر قانونی اقتصادی کاموں میں بہت استعمال کیا گیا، جس کا پاکستان کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے ۔کسٹم ڈیوٹی کی ادائیگی کے بغیر اور چوری شدہ لگژری گاڑیوں کے وسیع تر غیر قانونی بزنس نے فروغ پایا۔ اس غیرقانونی کاروبار نے ملک میں ایک نیاکاروباری طبقہ پیدا کردیا ہے۔

یہ ایسا طبقہ جس کی خوشحالی اور بقا کا دارومدار ہی پاک افغان سرحد کو کھلا رکھنا ہے، یہ طبقہ ریاست کو کسی قسم کا کوئی ٹیکس ادا نہیں کرتا لیکن ریاست کی مہیا کردہ سہولیات سے پورا فائدہ لے رہا ، یہ پاکستان کے ان شہریوں سے زیادتی ہے جو ریاست کو باقاعدہ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔پاکستان کے اب حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ گوادر کے عوام کے حالیہ احتجاج کے بعد لا قانونیت اور قتل وغارت سمیت دہشت گردی کے سدباب کے لیے اس بارڈر پر سخت چیک اینڈ بیلنس نافذ کرنا وقت کا تقاضہ بھی ہے اور دہشت گردی کے امکانی خطرات سے نمٹنے میں باڑ کی اہمیت پر پاکستان، افغانستان اور ایران کے حکام سے کافی مراسلت اور گفت وشنید ہو چکی ہے۔

حکام اس بارڈر کے کمرشل استعمال میں بھی اقتصادی پوٹینشل پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں، لہٰذا بارڈر اور باڑ میں مضمر افادیت تمام ہمسایہ ملکوں کے مشترکہ اقتصادی مفاد میں بھی ہے۔ تاہم باڑ سلامتی اور خطرات سے بچاؤ کا ایک تکنیکی وسیلہ بھی ہے۔ ماہرین کے مطابق خطے میں پاک افغان بارڈر کو عقل مندی سے استعمال کرتے ہوئے ممالک بے پناہ اقتصادی فوائد بھی حاصل کرسکتے ہیں اور مالیاتی گٹھ جوڑ کا راستہ بند کرکے اس سرحدی پٹی کی افادیت کو دو چند بھی کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔