ننانوے کے پھیر میں

قمر عباس نقوی  اتوار 26 دسمبر 2021
فوٹوفائل

فوٹوفائل

’’ننانوے کے پھیر میں ‘‘ اردو میں محاورۃ استعمال ہوتا ہے یعنی ایک کم سو روپے اور سو پیسے کا ایک روپیہ ، نوے اور نو برابر ہیں ننانوے کے جس کے عام فہم میں معنی دولت جمع کرنے کی ہوس، دولت کو دوام بخشنا۔ مادیت پرستی کے اس پرآشوب دور میں یہاں ہر شخص ننانوے کے پھیر میں شب و روز اس نیک عمل میں مصروف ہے۔ اسی ننانوے کے پھیر نے ہمیں کہیں کا نہ چھوڑا۔ سمجھ سے بالا تر ہے یہ امر کہ یہ کونساعلم ریاضی ہے۔

اس کو علم ریاضی سمجھوں یا علم شماریات کا مجموعہ ۔اکثر دوکاندار حضرات اپنی مصنوعات کی قیمت روپوں کے ساتھ ننانوے پیسے ضرور شامل کرتے ہیں۔ ہم پچاس سال سے معروف جوتا ساز کمپنیوں کے سیلز سینٹر پر سجے جوتوں پر روپوں کے ساتھ آج بھی ننانوے پیسے لکھے ہوئے دیکھ رہے ہیں ، ادھر انسانی جانوں کو بچانے والی مہنگی ترین ادویات پر بھی قیمتیں اس انداز میں لکھی ہوئی دیکھ رہے ہیں۔آج تک یہ بات سمجھ میں نہ آ سکی کہ آخر کل قیمت میں ایک پیسے کی بچت کیوں دی جا رہی ہے۔

شنید ہے کہ ایسا سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس سے بچنے کا طریقہ ہے۔ اسی طرح یوٹیلیٹی بلوں میں بھی یہی طریقہ رائج ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اب روپے کی قدرکروڑ کے پرکشش ہندسہ اور ڈالر کے مقابلہ میں ملکی کرنسی ریزگاری کا رخ اختیار کر چکی ہے اور دوسری طرف پیسوں کے ماحول میں کروڑ کا ہندسہ سے ہمیں افراط زر کا گمان ہونے لگا ہے۔

ننانوے کے پھیر کے موضوع کو آگے بڑھاتے ہوئے پیسوں کا معاملہ میرے ذہن میں ایک عرصہ سے گردش کر رہا تھا۔ اتفاق سے سوشل میڈیا پر میرے کسی حساب دان بھائی نے پیسوں میں ہونے والی اس دھاندلی کی نقاب کشائی کی جس سے اس خاکسار نے اس تحریک کو قلم بند کرنے کا بیڑا اٹھایا اور اس نقطہ کو اپنے قارئین کی عدالت میں پیش کرنے کی جسارت کی۔قصہ مختصرکچھ یوں ہے کہ 1961میں صدر پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے ملک میں اعشاریہ نظام رائج کر دیا جس کے بعد روپیہ سو پیسوں کا ہو گیا جب کہ اٹھنی (آٹھ آنے) ، چونی(چار آنے)، دوانی (دو آنے) اور اکننی یعنی پائی (ایک آنہ) ختم ہو گئی اور اس کی جگہ پچاس پیسے، پچیس پیسے، دس پیسے، پانچ پیسے اور ایک پیسے کے سکے رائج ہو گئے۔

یہ سکے جنرل ضیاا لحق کے دور اقتدار تک چلتے رہے لیکن بعد ازاں آہستہ آہستہ ختم ہوتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ آج سب سے زیادہ پست قیمت دھاتی سکہ ایک روپے کا ہے اور ہم نے گزشتہ تین عشروں سے ایک پیسے، پانچ پیسے ، دس پیسے اور پچیس پیسے کا کوئی سکہ دیکھا ہی نہیں ۔ کیوں ؟ کیونکہ مرکزی مالیاتی ادارہ ’’اسٹیٹ بینک آف پاکستان ‘‘کاغذی کرنسی کے علاوہ یہ سکے جاری ہی نہیں کرتا بلکہ یہ سکے وفاقی حکومت جاری کرتی ہے اور جہاں یہ سکے تیار ہوتے ہیں اس عرف عام میں ’’ٹیکساس ‘‘ کہتے ہیں۔ لیکن اب حکومت کا کمال دیکیھے کہ حکومت جب بھی پٹرول ، گیس، بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کرتی ہے تو اس میں روپوں کے ساتھ پیسے ضرور شامل کرتی ہے۔

مثال کے طور پر پٹرول کے تازہ ترین اضافہ ہی کو لے لیں مثلا‘‘ حکومت نے پٹرول کی قیمت میں پانچ روپے بانوے پیسے کا اضافہ کیا جس کے بعد پٹرول کی قیمت 62روپے 13پیسے۔ ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت 62روپے 65پیسے اور اسی طرح لائٹ ڈیزل کی قیمت 54روپے94پیسے ہو گئی۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں پیسے کا سکہ ہی موجود نہیں ہے لہٰذا جب کوئی شخص ایک لیٹر پٹرول ڈلوائے گا تو کیا پمپ کا کیشیر اسے 87پیسے واپس کرے گا۔ہر گز نہیں۔ چنانچہ اسے لازما‘‘ 62کی جگہ 63 روپے ادا کرنے پڑ یں گے۔ عوام کے ساتھ ایسی گھناونی زیادتی کیوں ہے ؟

اب آپ مزید دلچسپ صورتحال ملا حظہ فرمائیں۔ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں روزانہ تین لاکھ بیس ہزار بیرل پٹرول فروخت ہوتا ہے۔اگر آپ اسی مقدار کو لیٹرز میں کیلکولیٹ کریں تو یہ پانچ کروڑ آٹھ لاکھ اسی ہزار لیٹرز بنتا ہے۔ اب آپ اندازہ کیجیے اگر سپلائی کرنے والی کمپنیاں ہر لیٹر پر 87 پیسے کا فائدہ اٹھاتی ہیں تو یہ کتنی رقم بنے گی ؟ یہ چار کروڑ بیالیس لاکھ پینسٹھ ہزار روپے روزانہ بنتے ہیں۔

جناب یہ رقم حتمی نہیں کیونکہ تمام لوگ پٹرول نہیں ڈلواتے۔ کچھ صارفین ڈیزل اور مٹی کا تیل بھی خریدتے ہیں اور زیادہ تر لوگ پانچ سے چالیس لیٹر پٹرول خریدتے ہیں یا پیسوں کو نظر انداز کرتے ہوئے پانچ سو یا اس زائد رقم کے عوض پٹرول حاصل کرتے ہیں مگر ہوتا یہ ہے کہ بڑی حد تک یہ پیسے روپوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود پیسوںکی ہیرا پھیری موجود رہتی ہے جب کہ صارفین کی کثیر تعداد پٹرول پمپوں پر لگے میٹروں میں ٹیمپرنگ کی شکایت بھی کرتے ہیں۔

اب آئیے پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات فروخت کرنے والی کمپنیوں کی طرف۔ اس وقت وطن عزیز میں قومی پرچم بردار پاکستان اسٹیٹ آئل سرکاری تحویل میں وہ واحد آئل کمپنی ہے جو الحمد اللہ !! اپنی عمر کے چوالیس برس مکمل کر چکی ہے اور جس کے تقریبا 2689کے قریب اندرون ملک پٹرولیم فلنگ سٹیشنز ہیں جن میں سے لگ بھگ 3500آوٹ لیٹس ہیں جو پٹرولیم کے عام صارفین کو آئل کی مصنوعات فروخت کر رہے ہیں۔باقی 189آوٹ لیٹس ایسے ہیں جو بلا مشروط کارپوریٹ کسٹمرز کو تیل کی فروخت میں ہمہ تن گوش ہے۔

PSOصرف اور صرف اندرون ملک تیل کی ضروریا ت کو پورا کر رہا ہے جو بلا شبہ پی ایس او کی محب وطنیت کا بین ثبوت ہے۔تیل کی مصنوعات کی فروخت میں رائل ڈچ کی عالمگیر کمپنی بھی کسی طرح پیچھے نہیں ہے۔ یہ کمپنی اس وقت قومی تیل کمپنی کے بعد دوسرے نمبر پر ہے جس کی نیٹ ورکنگ کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک کے لگ بھگ 330شہروں میں 850فیول سٹیشنزہیں۔

موٹر وے کے اطراف فیول سٹیشنز تمام کے تمام اس آئل کمپنی کی ہی ملکیت ہیں۔اس کے 850 پمپس عالمی طرز کے معیار کی صاف ستھرے، آلات وغیرہ کے حساب سے جدید ہوتے ہیں بلکہ بعض فیول پمپ نہایت کشادہ ، صاف ستھرے اور ہوادار باتھ رومز اور منی ڈیپارٹمنٹل اسٹورز، ٹک شاپس وغیرہ سہو لیات سے مزین ہوتے ہیں۔ یہ وجہ ہے کہ ہمارا ملکی سرمایہ غیر ملکی کمپنیاں منافع کے ساتھ وصول کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔ علاوہ ازیں جہا ں جہاں ملکی اور غیر ملکی کمپنیوں کے پٹرول پمپس نہیں ہوتے وہاں کہیں کہیں برکت کے طور پر مقامی نجی آئل کمپنیوں کے فیول سٹیشنز صرف نظر ہوتے رہتے ہیں۔ جن کا آپریشن محض رسمی سا ہی لگتا ہے۔

امید کی جاسکتی ہے کہ اگر کوئی معاشی ماہر اس معاملہ کی مکمل اور جامع تحقیق پر توجہ دے تووہ پیسوں کی اس ہیرا پھیر ی کو مہینوں کو سالوں اور سالوں کو تیس سال سے ضرب دیں تو یہ رقم اربوں میں بن جائے گی گویا ہماری سرکاری مشینری تیس سال سے چند خفیہ کمپنیوں کو اربوں روپے کا فائدہ پہنچا رہی ہیں اور عین ممکن ہے کہ حکومت ان حقائق سے خواب غفلت کا شکار ہو۔ جب اسٹیٹ بینک پیسے کا سکہ جاری ہی نہیں کررہا تو حکومت کرنسی کو سکوں میں کیوں پیمائش کر رہی ہے اور ہم راونڈ فگر میں قیمتوں کا تعین کیوں کرتے ہیں۔

ہم 62روپے 13پیسوں کو 62روپے کر دیں یا پھر پورے 63 روپے کردیں تاکہ حکومت اور صارفین دونوں کو سہولت میسر آسکے۔ حکومت اگر ایسا نہیں کر رہی تو پھر اس میں یقیناً کوئی نہ کونی گھپلے بازی ضرور پوشیدہ ہے۔ کیونکہ ہماری حکومتوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ ہماری پڑھی لکھی قابل بیوروکریسی کوئی ایسی غلطی نہیں دہراتی بلکہ ٹیکنوکریسی کے فن کو اپناتے ہوئے مختلف حیلے بہانوں سے ننانوے کے پھیر میں مصروف عمل رہتی ہے کیونکہ اچھا بیورو کریٹ وہی ہے جو ٹیکنوکریسی کے داؤ پیچ سے خوب واقف ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔