زباں فہمی : تشت اَز بام

سہیل احمد صدیقی  پير 27 دسمبر 2021
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

زباں فہمی 129

گذشتہ دنوں واٹس ایپ بزم زباں فہمی میں ایک بار پھر، ایک دل چسپ کہاوت (ضرب المثل) کا ذکر چھِڑگیا جو اپنے پس منظر کے لحاظ سے بہت عجیب ہے: تشت ازبام کرنا/ہونا۔ یہ ذکر کسی تازہ تحریر کی نقل سے شروع ہوا جس کا یہاں حوالہ شاید گراں بارِ خاطر ہو، مگر بہرحال اصل نکتہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے زمانہ تعلیم میں یہ ضرب المثل بہت سنی پڑھی جسے بعض لوگ محاورہ بھی کہتے ہیں، مگر اس کے پس منظر سے واقفیت نہ تھی۔

ایک دو باتیں ذہن میں تھیں، مگر اُن کی تصدیق کے لیے مآخذ دستیاب نہیں۔ اس لیے بہتر یہی محسوس ہوا کہ اَزسَرِنَو تحقیق کی جائے۔ اس تحقیق نے اچھا خاصہ وقت بھی لیا اور مسائل نے بہت زیادہ پریشان بھی کیا، مگر بہرحال کوشش کرتا ہوں کہ کم وبیش پچاس سے زائد صفحات پر مبنی مواد کی تسہیل و تہذیب و تفہیم اس کالم میں کردو ں کہ عوام الناس ہی نہیں، خواص بشمول مشاہیر کے بھی کام آئے اور آیندہ اس موضوع پر قیاس آرائی کی ضرورت پیش نہ آئے۔

یہاں ابتداء ہی میں ایک تصحیح فرمائیں: درست لفظ ’’تشت‘‘ (نیز تست) ہے، جسے عربا کر ۔یا۔معرّب بنا کر، طشت/طست لکھا جانے لگا تھا اور مدتوں لکھا گیا، یہاں تک کہ بعض اردو قاعدوں میں بھی بچوں کو حرف ’ط‘ سے طشت پڑھایا گیا۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے توتے کو طوطا اور تپش کو طپش لکھنا۔ یہ نکتہ تمام مستند فارسی واردو لغات بشمول غیاث اللغات، انجمن آرائے ناصری، فرہنگ آنندراج، فرہنگ فارسی عمید، فرہنگ رشیدی، فرہنگ فارسی برہان قاطع، لغت نامہ دہ خدا، دیکشنری آبادیس (آن لائن)، لغات کشوری، فرہنگ آصفیہ، نوراللغات، مختصر اردو لغت (از اردو لغت بورڈ) سے ثابت ہے۔

یہ کہاوت فارسی میں تشت اَز بام افگندن (چھت سے تشت پھینکنا) اور تشت ازبام افتاد (چھت سے تشت آپڑنا) نیز لغات کی رُو سے تشتِ رُسوائی کے کنایے کے طور پر مستعمل ہے۔ اس کہاوت کے پس منظر میں ایک سے زائد کہانیاں یا حکایات بیان کی گئی ہیں، مگر ابھی ہم معانی ومفاہیم کا ذکر کرتے چلیں، پھر اُن کی بات کریں گے۔ یہ وہی لفظ ہے جسے اَوِستا یعنی کتابِِ زَرتشت میں تشتہ، پہلوی (قدیم فارسی) میں تشت، ارمنی (آرمینی) میں تاس، تشتک، نیز بلوچی میں تاس، عربی میں طاس، دَرّی میں تشت، اطالوی میں تز اور فرینچ میں تاس کہا جاتا ہے۔

(یہاں یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ بلوچی، اردو کی شاعرہ، ادیبہ و محقق محترمہ زاہدہ رئیس راجی صاحبہ نے اس کالم کے وقت تحریر، واٹس ایپ پر گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ بلوچی میں تاس کا مطلب ہے رَکابی یعنی تشتری:Sauser، جبکہ عطا شاد کے ایک بلوچی شعر میں اس لفظ کا استعمال کٹورے کے معنی میں ہوا ہے)۔ فرینچ کے حوالے سے عرض کروں کہ یہ لفظ قدیم فرینچ لغات میں تلاش بسیار کے بعد دستیاب ہوا، جدید میں شامل نہیں۔

ہمارے یہاں ’’سندھ طاس معاہدہ آب پاشی‘‘[Indus Basin Treaty/The Indus Waters Treaty (IWT)] کی مشہور اصطلاح میں یہی لفظ شامل ہے، حالانکہ یہاں معنی یکسر مختلف ہیں۔ تشت کے مترادفات میں تَسلا، پرات، تھال، لگن، طبق /طباق، سینی، تغار اور خوان شامل ہیں۔ اس لفظ کے معانی میں پائیخانے کا برتن بھی شامل ہے جو اُمَراء کے یہاں مستعمل تھا۔ بقول سید احمد دہلوی، مؤلف فرہنگ آصفیہ: وہ تانبے کا بڑا ظرف جو اَمیروں کے صحت خانے میں رکھا جاتا ہے، جسے انگریزی میں Pot کہتے ہیں۔ اسے تشت چوکی بھی کہتے ہیں اور یہ زچّہ خانے میں بھی استعمال ہوتا ہے۔

حسن اللغات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک ترکیب ’’تشت خانہ‘‘ بھی ہے جس کے معانی میں یہ بیان درج ہے: سونے کے کپڑے (یعنی Sleeping-dressیا لباس ِ شب خوابی: س ا ص)، وہ کمرا جس میں سونے کے کپڑے رکھے جائیں، اسے توشک خانہ بھی کہتے ہیں، وہ کمرا جہاں لوٹا۔یا۔سیلانچی وغیرہ برتن رکھے جائیں، اسے آفتابچی خانہ بھی کہتے ہیں، نیز طہارت خانہ اور پائیخانہ کو بطورِاَدب کہتے ہیں۔ وہ ملازم جس کے ذمے تشت و آفتابہ وغیرہ کی حفاظت ہوا کرتی تھی اُسے تَشت دار کہتے تھے، جبکہ تشت خواں سے مراد تھا، دسترخوان۔
ایک مرتبہ پھر تشت کے فارسی مفاہیم سے رجوع کرتے ہیں۔ اس کے لیے انگریزی لفظ Platter/Large platterہے جبکہ فرہنگ انگلیسی فارسی [English-Persian Dictionary]از عباس آریان پور کاشانی و منوچہر آریان پورکاشانی، مطبوعہ تہران کی رُو سے جدید فارسی میں تشت کی جگہ یہ الفاظ بھی رائج ہوگئے ہیں:
بشقاب ِ بزرگ، ہرچیز پہن، صفحہ گراموفون(انگریزی کی عوامی بول چال یعنی Slang میں بھی Platterبمعنی گراموفون مروج ہے: بحوالہThe Concise Oxford Dictionary-New Edition: 1990)

یہی معاملہ جدید عربی کا بھی ہے جس میں Platterکے معانی میں طبق کبیر (خصوصاً گوشت والے پکوان سے متعلق) اور ’’اسطوانہ فونوغرافیہ‘‘ یعنی گراموفون شامل ہوچکے ہیں۔ [Al-Mawrid, A Modern English-Arabic Dictionary by Munir Ba’albaki-Beirut, Lebanon: 1980]۔ قدیم عربی میں کیا مفاہیم تھے، آگے چل کر ملاحظہ فرمائیے۔

اردو میں تشت ازبام ہونے کے معانی میں منکشف ہونا، کوئی بات معلوم یا ظاہر ہونا، اظہر مِن الشمس ہونا، آشکارا ہونا، منظرعام پر آنا، مشہور ہونا، مشتہر ہونا، راز فاش ہوجانا، کھُل جانا، بھید کھُل جانا، بھانڈا پھُوٹنا، رُسوا ہونا اور بدنام ہونا شامل ہیں۔ فارسی ہی کی بات کریں تو دیگر تمام قدیم وجدید لغات کے علاوہ ،A Comprehensive Persian-English Dictionary – Francis Joseph Steingass کے بیان کے مطابق تشت از بام افگندن کے مجاز معنی ہیں، راز فاش کرنا، بے عزتی کرنا۔ لغت نامہ دہ خدا فارسی لغت کی رُو سے یہ کہاوت تشتِ رُسوائی از بام افگندن ہے اور معنی ہیں راز فاش کرکے رُسوا کردینا۔ ان مفاہیم کے پیش نظر، ناسمجھ اور ناواقف لوگوں کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ اس کہاوت، یا بعض کے نزدیک محاورے کے استعمال کی حکمت یہ ہے کہ جب کوئی تھال یا بڑا برتن کسی مکان، عمارت یا کسی بلند جگہ سے اُچھال کر نیچے پھینکا جائے تو اُس کی دھماکے دار آواز سے سبھی متوجہ اور چوکنے یا حیران پریشان ہوجاتے ہیں، لہٰذا کسی ایسے موقع کے لیے یہ ترکیب وضع کی گئی۔

اس ضرب المثل کے پیچھے ایک حکایت تو یہ بیان کی گئی ہے کہ
’’داستان ِتشتِ رسوائی‘‘:
الف )۔ کسی زمانے میں تہران (قدیم دور میں طہران) میں ایک رسم تھی کہ شبِ زفاف یعنی شبِ عروسی یا سہاگ رات میں اگر دُلھا (دولھا) کو دلھن کے کنوارپن پر شبہ ہو یا وہ کنواری نہ ہو تو وہ خود یا اس کا بھائی یا اس کا چچا زاد، شادی والے گھر کی چھت پر جاکرایک بڑا سا تھال پِیٹنے لگتا اور آخرش وہ تھال/تشت گھر کی چھت سے نیچے، اسی گھر کے صحن میں اچھال دیتے۔ یہ سلسلہ سات مقامات یا گھروں تک جاری رہتا تاکہ وہ بدنام ہوجائے اور خودکُشی یا شہر چھوڑنے پر مجبور ہوجائے۔ یوں یہ کہاوت معرض وجود میں آئی۔ (بحوالہ ’تہرانِ قدیم‘‘ از جعفر شہری۔ یکتا نیٹ ڈاٹ کام)
اور دوسری یہ ہے:

ب)۔ حائضہ عورتیں اپنی ماہواری کے دنوں کے آلودہ (سرخ) کپڑے، چھت پر کسی جگہ، عموماً کسی تشت یا برتن میں، اس خیال سے چھپاتی تھیں کہ اہل خانہ میں کسی کی نظر نہ پڑے۔ جب آندھی یا طوفانی ہوا کے سبب وہ تھال اُڑکر باہر جا پڑتا تو لوگ، خصوصاً اہل محلہ جمع ہوکر اس گھر کی عورت یا عورتوں کو برا بھلا کہتے اور بدنام کرتے کہ اوہ! یہ کیا ہے۔ (یکتا نیٹ ڈاٹ کام)
مندرجہ بالا تفصیل میں یہ اضافہ بھی ناگزیر ہے کہ ایک اردو محاورہ ہے: ’’تھالی پھوٹی تو پھوٹی، جھنکار تو سُنی‘‘ یعنی نقصان تو ہوا، مگر مطلب حاصل ہوگیا (فرہنگ اردو محاورات از پروفیسر محمد حسن، ہندوستان، چربہ اشاعت مقامی)۔ مجھے یہ محسوس ہوا کہ اس کا پس منظر بھی زیرِبحث موضوع سے ملتا ہے یا ملتا جلتا ہے۔ تاس کا ذکر ہوا اور اس کا پیٹے جانے کا بھی تو لگے ہاتھوں فرہنگ آصفیہ کا یہ انکشاف بھی سن لیجئے کہ مُوسِیقی کے ساز، تاشے کا بھی اس سے تعلق ہے: تاشہ۔ اسم مذکر۔ ایک قسم کے باجے کا نام جس کو گلے میں ڈال کر ڈھول کے ساتھ بجاتے ہیں۔ اس کی اصل عربی (لفظ) طاسہ (تاسہ) ہے کیونکہ وہ طاس (تاس) یعنی طشت /تشت پر منڈھا ہوا ہوتا ہے۔ یہ احوال جلد اوّل میں ہے، جبکہ جلد دوّم میں یہ اندراج دیکھنے کو ملتا ہے:
طاس (تاس کا مُعرّب)، اسم مذکر: ا)۔ پانی یا شراب پینے کا پیالہ، طشت ِ کلاں، لگن، تسلا، سینی، بڑا طباق، کُونڈی ؎
خورشید جو چھُپا تو یہ آیا نشے میں شوخ+سونے کا وہ فلک نے کہاں طاس کھودیا (بہادرشاہ ظفرؔ)۔۲)۔ ایک قسم کا ریشمی کپڑا، تمامی، زری، کمخواب، تاش، بادلہ۔۳)۔ کھیلنے کا تاش جس کے پتوں پر نشان بنے ہوئے ہوتے ہیں۔
طاسہ (عربی): اسم مذکر، تاشہ، ایک قسم کا باجا جو بَڑے طبق پر کھال منڈھ کر بنایا جاتا اور براتوں کے ساتھ، تاشے والے آگے آگے بجاتے ہوئے جاتے ہیں۔ اردو والے اس کو تاشہ کہنے لگے ہیں۔
طاسہ مَرفہ: اسم مذکر ، تاشہ اور ڈھول۔
اس ساری تفصیل کے بعد لگتا ہے کہ بلوچی میں لفظ تاس کا استعمال بمعنی کٹورا یا پیالہ (کانسی کا بنا ہوا) اور پانی کے ایک گھنٹے بہائو کے لیے آب پاشی کی اصطلاح یا اکائی بھی درست ہے۔
[1-na bowl made of bronze
2-na unit of irrigation water comprising half an hour’s flow
https://www.webonary.org/balochidictionary]

اب آتے ہیں قدیم عربی میں لفظ طاس کے استعمال کی طرف۔ مصباح اللغات سے معلوم ہوتا ہے کہ ہاتھ دھونے کے لیے تانبے کا برتن یا سلفچی، الطسّ کہلاتا ہے جس کی جمع طَسّات، طِسّات، طِسَس [Tisasun] اور طِساس ہیں۔ ایسے برتن کو بنانے والا اور بیچنے والا الطَسّاس کہلاتا ہے، جبکہ ظروف سازی کا یہ پیشہ الطِساسہ کہلاتا ہے۔

یہاں ایک اور دل چسپ بات معلوم ہوئی کہ فارسی میں لفظ تاس اور تاسا کے معانی میں بے قراری، غم، اندوہ اور ملال بھی شامل ہیں۔ (حسن اللغات)۔
قارئین کرام! آج کا کالم قدرے مختلف ومختصر ہے، مگر اس کے لیے تحقیق وتحریر میں پانچ دن لگے ہیں۔ آپ کو اندازہ ہوگا کہ تحقیق کس قدر کٹھن کام ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔