2022 کا پہلا سورج !

علی احمد ڈھلوں  جمعـء 31 دسمبر 2021
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

آج 2021 کا آخری دن اور رات ہے، کل نئے سال کا آغاز ہوگا۔ دنیا میں کئی کیلنڈرز یعنی نظام تقویم رائج ہیں مثلاً اسلامی کیلنڈر، ایرانی کیلنڈر، ہندو کیلنڈر، جاپانی کیلنڈر وغیرہ ۔ ہر کیلنڈر کے مطابق سال گزرتے رہتے ہیں لیکن چونکہ زیادہ تر دنیا گریگوریائی کیلنڈر استعمال کرتی ہے، اس لیے ہم اپنی زندگیوں میں اسی کے مطابق اپنے برسوں کا حساب رکھتے ہیں، گزرے سال کو اپنے حالات کے مطابق اچھا یا برا قرار دیتے ہیں اور نئے سال کے امکانات پر بات کرتے ہیں۔

اسی لیے سال کی تبدیلی افراد اور قوموں کی زندگی کا سنگ میل بن جاتی ہے۔ اگر ہم بات کریں کہ ہم پاکستانیوں کا سال 2021 کیسا گزرا اور 2022 کیسا ہوگا؟ اس سوال کا جواب ہر سال کی طرح وہی ہے کہ گزرا ہوا سال اچھا نہیں تھا اور آیندہ سال بہتری کی اُمید کی جا سکتی ہے۔ لیکن یہاں تو پہلے سے بھی زیادہ گھمبیر حالات ہیں، سال کے شروع میں ڈالر 153 روپے کا تھا اور آج 181روپے کا ہے۔

مہنگائی کی شرح سال کے آغاز میں 6فیصد تھی، آج 13فیصد ہے، تعلیمی معیار پہلے سے زیادہ گرا ہوا ہے، کرپشن میں ہم مزید دو درجے نیچے آگئے ہیں، نظام انصاف میں ہم ایک درجے مزید نیچے چلے گئے ہیں۔ پاکستان پچھلے سال 144ویں نمبر پر تھا آج یہ نمبر 146واں ہے۔ پھر ہم اداروں کی ترقی کے حوالے سے دیکھ لیں، پولیس کرپٹ تو تھی ہی لیکن پاکستان میں اس سال اُسے کرپشن میں پہلا نمبر نصیب ہوا ہے۔ بات سرکاری اداروں کی کریں تو بات سرکاری ملازمین کی طرف چل نکلتی ہے جنھیں ہمدردی، درد مندی اور امانت داری میں آخری نمبر ملا ہے اور ترقی کرنے کے لیے یہی تین چیزیں سب سے زیادہ ضروری ہوتی ہیں۔

دنیا ہیپی نیو ایئر منا رہی ہوتی ہے، اور دوسری طرف ہم دقیانوسی اور نفرت پھیلانے والی باتیں کر رہے ہوتے ہیں۔ حالانکہ نیو ایئر پر خوشی منانے کی رسم قدیم زمانے کی ہے، یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ نیو ایئر منانے کی رسم مغرب نے شروع نہیں کی بلکہ یہ یونانیوں اور رومیوں کے عہدسے شروع ہوئی۔

یہ رسم مسیحیت سے بھی پہلے کی ہے۔ مسلمانوں میں یہ رسم ایران سے آئی ہے، جہاں نوروز کا جشن منایا جاتا ہے،لیکن ہم نے اسے مذہبی مسئلہ بنا لیا ہے۔ بیسیویں صدی کے آغاز میں جتنی بھی عظیم الشان ایجادات ہوئی ہیں، ہمارے روایتی مذہبی علماء و فقہا نے انھیں ’’فتنہ دجال‘‘ کے معنوں میں بیان کیا۔

خیر یہ ایک الگ بحث ہے لیکن ہمیں کشادہ ذہنوں کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے، یقینا کل2022 کا پہلا سورج طلوع ہوگا، آج ہم 2021 میں ڈوبتی معیشت کا نوحہ پڑھ رہے ہیں۔ ملک کو مہنگائی اور روپے کی بے قدری نے گھیرا ہوا ہے۔ تحریک انصاف کے پاس وہ معاشی ٹیم ہی نہیں ہے جس کے خواب انھوں نے عوام کو دکھائے تھے۔ تقریباً تمام اہم اداروں کے سربراہوں کو ساڑھے تین سالوں میں پانچ سے چھ مرتبہ تبدیل کیا گیا ہے جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ حکومت ابھی تک صحیح ٹیم ہی سلیکٹ نہیں کر پا رہی۔

اگر وزارتِ خزانہ پر نظر دوڑائیں تو تین سال، چار ماہ کے عرصے میں کئی سیکریٹری خزانہ اور تین وزیرخزانہ لائے جا چکے ہیں۔ 2021 میں ہی دو وزیرخزانہ بدلے گئے ہیں۔ شوکت ترین صاحب تیسرے ہیں۔ کامیاب سرکار چلانے کے لیے مستقل مزاج ہونا ضروری ہوتا ہے۔ کرکٹ میچ کی طرح ہر اوور کے بعد کھلاڑیوں کی پوزیشن بدلنے اور ملک چلانے کے لیے کھلاڑیوں کی پوزیشن طے کرنے میں فرق ہوتا ہے۔

تحریک انصاف کی حکومت شاید ابھی تک اس فرق کو نہیں سمجھ پائی۔ اسی لیے 2021کے اختتام پر بھی وزرا اور عوام میں بے یقینی اور اضطراب کی کیفیت نمایاں ہے۔ ایک طرف طرزِ حکومت عوام کے لیے پریشانی کا باعث ہے اور دوسری طرف رواں سال کے معاشی اعدادوشمار عوام کو پریشان کیے ہوئے ہیں۔

میں نے اس حوالے سے متعدد مرتبہ لکھا کہ اگر حالات بہتر کرنے ہیں تو سب سے پہلے عوام کا مورال بلند کیا جائے، لیکن دکھ یہ ہے کہ حکومت مہنگائی بھی کرتی رہی اور عوام کا مورال بھی بلند نہ کر سکی جس سے عوام کا حکومت کے اوپر سے بھرم ٹوٹ گیا۔

اور پھر راقم نے کہا تھاکہ کپتان صاحب خود احتسابی کریں اور اپنے ارد گرد دیکھ لیں، کیوں کہ ذرا غور کریں کپتان کے اردگرد توصرف خوشامدی نظر آئیں گے۔جنھوں نے اپنی غلطیاں چھپانے اور نئے سرے سے نئے ’’ریٹس‘‘ کے ساتھ بندے بھرتی کرنے کے لیے پارٹی کا آئین ہی معطل کرا دیا اور دوبارہ یہی لوگ تنظیم سازی کے لیے میدان میں آگئے، لہٰذا ایسی صورتحال میں حالات کیسے درست ہو سکتے ہیں؟

بہرکیف وقت ایک عجیب شے ہے۔ دبے پاؤں گزر جاتا ہے۔کسی سے بہت کچھ چھین لے جاتا ہے اور کسی کو بہت کچھ عطا کر جاتا ہے۔ گزرا ہوا وقت، سیلاب کی طرح اپنے نشانات چھوڑ جاتا ہے۔

کہیں یہ نشان موسم گل کا اعلان نامہ بن جاتے ہیں اور کہیں خزاں رسیدگی کی تصویر۔ ہر صبح نکلنے والا سورج امید کا پیغام لے کر آتا ہے اور ہر شام ڈوبنے والا سورج وقتی طور پر ہمیں ایک گھپ اندھیرے میں چھوڑ جاتا ہے اورموجودہ حکومت کے ساتھ بھی فی الوقت یہی معاملہ ہے بقول شاعر

اترا مرے آنگن میں نئے سال کا سورج

یاد آئے کئی عہد گزشتہ کے فسانے

لہٰذانئے اور2022 کے پہلے سورج سے ہمیں یہی توقع رکھنی چاہیے کہ ہم حکومت کو کوسنے کے بجائے خود کو بہتر کریں گے، ملک سے شخصیت پرستی کا خاتمہ کریں گے اور مایوس ہونے کے بجائے بہتری کے امکانات کی جانب توجہ دیں گے اور اگر ہم نے 2022کا پہلا سورج ہی نااُمید ی میں گزارا تو 2022 کے آخری دن بھی کوئی خیر کی توقع نا رکھیے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔