خرولا vs کرولا

سعد اللہ جان برق  جمعرات 20 جنوری 2022
barq@email.com

[email protected]

زبان کا تو پتہ نہیں کہ ہماری زبان کالی ہے یا نہیں کیونکہ آئینہ دیکھنے سے آج کل اتنا ڈرلگتاہے جتنا اخبار یا ٹی وی چینل دیکھنے سے ڈرلگتاہے۔

پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسد

ڈرتا ہوں آئینے سے کہ مردم گزیدہ ہوں

لیکن قلم یا بال پن کی زبان تو ہمیں صاف صاف سنائی اور دکھائی دیتی ہے کہ صاف نہیں کالی ہے بلکہ مہا کالی ہے کیونکہ جب بھی کچھ لکھتے ہیں، وہ پورا ہوجاتا ہے۔ابھی کل ہی ہم نے لکھا تھا کہ شاید ’’کرولے‘‘ سے ہمیں ’’خرولے‘‘ پر آنا پڑے اور آج ہم ایک ’’خرولا‘‘ بنانے والے کو ایک ’’خرولے‘‘کا آرڈر دے آئے ہیں۔ اگر اسی طرح منی بجٹ آتے رہے تو کیا پتہ خرولا بنانے والے مستریوں یا انجینئروں کے پاس بھی رش ہوجائے۔ دراصل دعا یا بددعا کی قبولیت یا ناقبولیت کا کوئی وقت معلوم نہیں ،کیا پتہ کونسی دعا یا بددعا کب قبول ہوجائے۔ اس موضوع پر پشتو کا ایک خوبصورت اور معصومانہ سا ٹپہ بھی ہے۔ عاشق اپنی معشوق سے کہتاہے

مازیگرے دے خیرے مہ کڑہ

تہ بہ د ناز خیرے کوے رشتیا بہ شینہ

یعنی شام کا وقت ہے بددعائیں نہ دو۔تم پیار یا ناز کی بددعائیں دے رہی ہو، کہیں سچ نہ ہوجائیں۔  ہم نے بھی ’’خرولا‘‘۔vs۔کرولا کی بات محض تفنن طبع اور مذاق مذاق میں کی تھی اور آج وہ سچ ہوجائے، اگر فی الحال نہیں تو ایک دو ’’منی بجٹ‘‘آنے دیجیے ہر طرف خرولے ہی دکھائی دیں گے۔جہاں جہاں پیٹرول پمپ ہیں وہاں وہاں ڈمپرنظر آئیں گے جنھیں خرولوں میں بھرا جا رہا ہوگا۔ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگوں کو ’’خر‘‘کا نام برا لگے، اس لیے ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اس نامہ یا لفظ ’’خر‘‘کی اصل حقیقت اور معنی آپ کو بتادیں۔لفظ خر اصل میں عیب نہیں بلکہ معززانہ لفظ ہے فارسی اور پشتو میں ’’خر‘‘ کا مطلب ’’بڑا‘‘ ہوتاہے۔

جیسے خرگوش کا ’’مطلب ہے بڑے بڑے کان‘‘۔ خرطوم کا مطلب ہے بڑی طوم یا ناک، عربی میں ہاتھی کو خرطوم کہتے ہیں، سوڈان کا دارالحکومت بھی ہاتھیوں کی وجہ سے خرطوم ہے۔ ’’خردجال‘‘اس جانور کو کہتے ہیں جو عقیدوں کے مطابق آخری زمانے میں پیدا ہوگا اور دنیا میں فساد پھیلائے گا۔خردجال یعنی بڑا فتنہ یا فساد۔ خرڈگ‘‘ کے معنی ہیں بڑے بڑے گام رکھنے والا۔اور بھی بہت سارے الفاظ ہیں جن کے ساتھ’’خر‘‘کا اضافہ بڑائی کے لیے کیا جاتاہے جیسے ’’خرناک‘‘ ناشیاتی (ناک) کی ایک بڑی قسم ۔ خرگاہ ایک بڑے گودام کو کہتے تھے۔

کچھ اور بھی الفاظ ہیں لیکن وہ صرف لغتوں میں یا لوگوں کی زبان پر رہتے ہیں، کہیں اور نہیں لکھے جاتے۔ خلاصہ کلام یہ کہ ’’خر‘‘ہونا کوئی عیب نہیں بلکہ خوبی اور صفت ہے۔بڑا،اعظم،اعلیٰ۔،مثلاً آج کل ہم کسی کالم کی یا کالم نگار کی بڑائی بیان کریں گے تو اس کے ساتھ بھی اس لفظ کا اضافہ کرکے تعریف کرسکتے ہیں۔ پارسیوں کی کتاب اووستا میں اسے(خ) کے بجائے (ہ) سے لکھا گیا ہے یعنی ’’خر‘‘کی جگہ ’’ہر‘‘تھا ، یعنی بادشاہ جسے ’’آریا مہر‘‘کہاجاتا تھا یعنی مہاہر۔ فردوسی نے اسے ’’فر‘‘لکھا ہے اور سنسکرت میں بھی ’’ہر‘‘ تعظیم کے لیے کہاجاتا ہے۔

ہر،ہری،ہرہر مہادیو۔ بعد میں یہ لفظ سری شری بھی بولا جانے لگا۔پشتو میں ’’مشر‘‘ (بڑا)یعنی مہاشر ہوتا ہے بلکہ ہمیں شک ہے کہ انگریزی میں جاکر یہ ’’سر‘‘ ہوگیا ہے کیونکہ انگریزی بھی آریائی زبان تو ہے اور ہماری مقامی زبانوں میں ’’سر‘‘ سب سے اونچے عضو کو بولا جاتا ہے جس پر ٹوپی رکھی جاتی ہے ۔ عربی میں اسے الٹا کر’’راس‘‘بنایا گیا ہے۔ اور اسی سے بڑے کو رئیس کہتے ہیں جب کہ اردو فارسی میں سردار ہوتا ہے ، کل ملاکر بات یہ بنی کہ لفظ ’’خر‘‘کوئی معیوب نہیں بلکہ معززانہ لفظ ہے اور سارے ٹاپ کلاس یعنی وی آئی پی لوگوں کے لیے کھل کر استعمال کیاجانا چاہیے لیکن آج کل لوگوں نے ترمیم کرکے اس کا سر کاٹ کر خر بنایا ہوا ہے یعنی لوگ ’’سر‘‘کہہ کر(خ) سے(س) بناکر خرکو سر یا سر کو خربناتے ہیں۔

خیر یہ تو زبانوں میں ہوتا رہتا ہے مثلاً فلس یا فلوس کا مطلب ہے سکہ یا مال وزر۔لیکن مفلس اور افلاس اس کے بالکل الٹ ہوتے۔ ساری بحث خرولاvsکرولا سے چل پڑی ہے اور ہمیں یقین ہے کہ اگر حکومت آئی ایم ایف کے مخلصانہ مشوروں پر چلتی ہوئی منی بجٹوںتک پہنچے تو ایک دن، ہم بھی دیکھیں گے، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے کہ گدھے کو بھی اپنا اصل مقام مل جائے گا اور لوگ بڑے فخر سے اپنے آپ کو ’’خرولے‘‘ بنائیں گے، کیوں سر جی ہم ٹھیک کہہ رہے ہیں نا۔

خردامنی پہ شیخ ہمارے نہ جائیو

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔