افواہیں کیسے حقائق چھپا لیتی ہیں ؟

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 21 جنوری 2022
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

بھٹو خاندان پاکستان کا شاید واحد سیاسی خانوادہ ہے جس کے کئی افراد نے شاندار کتابیں لکھیں۔ زیڈ اے بھٹو کی کلفٹن (کراچی) پر رہائش گاہ کی نجی لائبریری پاکستان کی بہترین نجی لائبریریوں میں سے ایک شمار کی جاتی تھی۔یہ اس امر کا بین ثبوت ہے کہ ذو الفقار علی بھٹو کتاب سے کس قدر محبت رکھتے تھے۔

اُن کے صاحبِ مطالعہ ہونے کی خبر ہمیں اُن کی گفتگوؤں، تحریروں اور تقریروں میں بھی ملتی ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ، بھی کتاب سے گہری محبت اور شغف رکھتی تھیں۔ انھوں نے خود بھی کئی معتبر کتابیں لکھیں اور دُنیا بھر میں صاحبِ اسلوب مصنف کی حیثیت میں نام کمایا ۔ بے نظیر بھٹو کی نامور مصنفہ بھتیجی، محترمہ فاطمہ بھٹو، روایت کرتی ہیں کہ لندن میں میری پھوپھی ، بے نظیر بھٹو، ٹوکری بھر کر کتابیں خریدتی تھیں اور تحفے میں مجھے میں اچھی اچھی کتابیں عنایت کرتی تھیں ۔ فاطمہ بھٹو صاحبہ ، جو زیڈ اے بھٹو کی پوتی ہیں ، نے فکشن، شاعری اور نان فکشن پر خود بھی کئی کتابیں لکھ کر عالمی شہرت حاصل کی ہے ۔

کتاب اور حرفِ مطبوعہ سے زیڈ اے بھٹو کا عشق زنداں کے عقوبت خانے میں بھی زندہ اور پُر جوش رہا۔ پسِ دیوارِ زنداں رہ کر بھی کتاب اور قلم سے اُن کا رشتہ منقطع نہیں ہونے پایا ۔ جیل کی سلاخوں کے پیچھے بیٹھ کر ، نہایت جبریہ اور قہریہ ماحول کے باوصف، بھٹو صاحب ٹکڑوں ٹکڑوں میں کتابیں لکھتے رہے۔ یہ کتابیں ہمارے سیاسی لٹریچر میں معرکے اور ہلچل پیدا کرتی رہیں ۔ ’’اگر مجھے قتل کر دیا گیا‘‘ یاIf I Am ASSASSINATED نامی کتاب بھٹو صاحب کی وہ تصنیف ہے جو پسِ دیوارِ زنداں تحریر کی گئی اور جس نے اشاعت و مطالعہ کے کئی ریکارڈ قائم کیے ۔

یہ کتاب دُنیا کی کئی زبانوں میں بھی ترجمہ کی گئی ۔ ایک اور کتاب بھی بھٹو صاحب مرحوم نے جیل کی آہنی سلاخوں کے پیچھے بیٹھ کر لکھی ۔ اِسےRUMOUR and REALITYکا نام دیا گیا۔ یہ کتاب اب ترجمہ ہو کر سامنے آچکی ہے اور اِس کا عنوان ’’افواہ اور حقیقت‘‘ رکھا گیا ہے۔ معروف ترقی پسند ادیب اور سیاسی حرکیات پر گہری نظر رکھنے والے جناب الطاف احمد قریشی نے اس کا شاندار انداز میں ترجمہ کیا ہے ۔

زیر نظر کتاب ’’افواہ اور حقیقت‘‘ اس لحاظ سے بھی اہمیت کی حامل ہے کہ بھٹو صاحب نے پسِ دیوارِ زنداں بیٹھ کر اُن سب افواہوں کا پردہ چاک کرنے کی مدلل اور تاریخ ساز کوشش کی جو افواہیں ایک غاصب اور غیر منتخب حکومت کی اندھی طاقت اور اندھے اقتدار کی چھتری تلے پھیلانے کی کوششیں کی جا رہی تھی۔

ان مسموم اور بے بنیاد اور افواہوں کو ریاستی سرپرستی میں پھیلا کر بھٹو کی شخصیت اور بھٹو کے سیاسی کردار پر سیاہی ملنے کی ناکام کوشش کی جارہی تھی ۔ ایسی افواہیں ریاستی و حکومتی سرپرستی میں، آ مریت کے پورے دس برس، تسلسل کے ساتھ پھیلائی جاتی رہیں۔ ان افواہوں اور کردار کشی کی کوششوں کی بازگشت جیل کی بلند دیواروں کے عقب میں محبوس پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذو الفقار علی بھٹو تک بھی پہنچتی تھیں؛ چنانچہ بھٹو صاحب نے فی البدیہہ ، اپنے مطالعہ اور یادداشتوں کے زور پر، ان افواہوں کی قلعی کھول کر حقائق عوام تک پہنچانے کی اپنی سی کوشش کی۔ کتاب کی شکل میں بھٹو صاحب مرحوم کے حقائق پر مبنی یہ جوابات ہماری سیاسی تاریخ کا انمٹ باب بن گئے ہیں۔

زیر نظر کتاب میںڈھائی درجن سے زائد افواہوں کا ڈھائی درجن سے زائد حقائق کے ساتھ مسکت جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے ۔ ماننا یا نہ ماننا قاری پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ کتاب میں کئی انکشافات پہلی بار سامنے لائے گئے ہیں ۔ مثال کے طور پر بھٹو صاحب نے 10صفحات میں تفصیل کے ساتھ قارئین کو بتایا ہے کہ بھٹو دَور میں بلوچستان کے ایک سابق وزیر اعلیٰ (عطاء اللہ مینگل) کے صاحبزادے اور بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ ( اختر مینگل) کے بھائی ( اسداللہ خان مینگل) کو کن لوگوں نے اغوا کرکے قتل کیا اور کسی نہ معلوم مقام پر اُس کی لاش دفن کر دی ۔ اسد مینگل کی میت بھی وارثان کے سپرد نہ کی گئی ۔

آج جب ہم اختر مینگل کو اسلام آباد میں لاپتہ ہونے والے افراد کے پسماندگان کے اجتماع سے دکھ کے ساتھ خطاب کرتے ہُوئے دیکھتے ہیں تو ہم اُن کے پرانے زخم بھی دیکھ اور محسوس کر سکتے ہیں۔ بھٹو صاحب نے ’’افواہ اور حقیقت‘‘ نامی زیر نظر کتاب میں اُن تین افراد کے نام بھی لیے ہیں جن پر اسد مینگل کے بہیمانہ قتل کا الزام عائد کیا گیا۔کتاب میں شامل یہ باب پڑھ کر دل و دماغ پر دکھ اور غم کا دھواں چھا جاتا ہے ۔

آج بھی بلوچستان ایک سلگتا ہُوا مسئلہ بنا ہُوا ہے۔ زیر نظر کتاب پڑھتے ہُوئے ہمیں بار بار یہ احساس اپنی گرفت میں لے لیتا ہے کہ تقریباً50برس قبل ، بھٹو صاحب کے دَور میں بھی، بلوچستان کے حالات قابلِ رشک نہیں تھے۔ بھٹو صاحب بلوچستان کے ان سنگین اور اُلجھے ہُوئے مسائل حل کرنے کی بار بار کوششیں کرتے رہے لیکن ہر بار اُن کی کوششیں تارپیڈو کر دی گئیں۔ ناکام کرنے والے یہ چہرے اور طاقتیں کون تھیں ، بھٹو صاحب نے ان کے چہروں پر پڑے نقاب نوچنے کی بھی کوشش کی ہے۔

کتاب کا مطالعہ کرتے ہُوئے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ زیڈ اے بھٹو نے افغانستان اور پاکستان کے درمیان متنازع ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ بھی تقریباً ختم کر ڈالا تھا لیکن پھر ملک کے اندر ہی سے بعض قوتوں نے ان کوششوں کو بھی ناکام بنا ڈالا۔ جس مخالف سیاستدان کے الزام کی بنیاد پر بھٹو صاحب تختہ دار پر پہنچائے گئے، بھٹو صاحب اُس پر الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کا تنخواہ دار تھا۔

زیر نظر کتاب کا حسین پہلو یہ ہے کہ بھٹو صاحب مخالفین کی طرف سے خود پر لگائے جانے والے سنگین الزامات کا خود ہی تفصیل سے ذکر کرتے ہیں اور پھر خود ہی ان کا جواب دیتے ہیں۔ ان جوابات میں اُن کے وسیع مطالعہ اور مضبوط تاریخی یادداشتوں کا عکس نظر آتا ہے۔ وہ اُن شخصیات کو سخت الفاظ میں بار بار یاد کرتے سنائی دیتے ہیں جنھوں نے اُن کا اقتدار غصب کیا اور انھیں تخت سے اتار کر تختہ دار تک پہنچا دیا۔سیاسیات و صحافت کے طالب علموں کے لیے اس پُراز حقائق کتاب کا مطالعہ ناگزیر ہے ۔

کتاب میں اُن 70افراد کے نام بھی دیے گئے ہیں جنھیں جنرل ضیاء الحق کی آمر حکومت نے محض اس لیے کوڑوں، جیلوں اور جلاوطنی کی سزائیں دی تھیں کہ وہ بھٹو کے حق میں نعرے لگاتے تھے ۔ اُن 41خواتین کی فہرست بھی دی گئی ہے جو بھٹو کا نام لینے کے جرم میں عقوبت خانوں میں ڈالی گئیں ۔ یہ کتاب دراصل ایک دَورِ زیاں کو پھر سے یاد کرنے کا نام ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔