- نیب کا قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں غیر قانونی بھرتیوں کا نوٹس
- رضوان کی انجری سے متعلق بڑی خبر سامنے آگئی
- بولتے حروف
- بغیر اجازت دوسری شادی؛ تین ماہ قید کی سزا معطل کرنے کا حکم
- شیر افضل کے بجائے حامد رضا چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نامزد
- بیوی سے پریشان ہو کر خودکشی کا ڈرامہ کرنے والا شوہر زیر حراست
- 'امن کی سرحد' کو 'خوشحالی کی سرحد' میں تبدیل کریں گے، پاک ایران مشترکہ اعلامیہ
- وزیراعظم کا کراچی کے لیے 150 بسیں دینے کا اعلان
- آئی سی سی رینکنگ؛ بابراعظم کو دھچکا، شاہین کی 3 درجہ ترقی
- عالمی و مقامی مارکیٹ میں سونے کی قیمت میں اضافہ
- سویلین کا ٹرائل؛ لارجر بینچ کیلیے معاملہ پھر پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو بھیج دیا گیا
- رائیونڈ؛ سفاک ملزمان کا تین سالہ بچے پر بہیمانہ تشدد، چھری کے وار سے شدید زخمی
- پنجاب؛ بےگھر لوگوں کی ہاؤسنگ اسکیم کیلیے سرکاری زمین کی نشاندہی کرلی گئی
- انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن نے پی ایچ ایف کے دونوں دھڑوں سے رابطہ کرلیا
- بلوچ لاپتہ افراد کیس؛ پتہ چلتا ہے وزیراعظم کے بیان کی کوئی حیثیت نہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ
- چوتھا ٹی20؛ رضوان کی پلئینگ الیون میں شرکت مشکوک
- ایرانی صدر کا دورہ اور علاقائی تعاون کی اہمیت
- آئی ایم ایف قسط پیر تک مل جائیگی، جون تک زرمبادلہ ذخائر 10 ارب ڈالر ہوجائینگے، وزیر خزانہ
- حکومت رواں مالی سال کے قرض اہداف حاصل کرنے میں ناکام
- وزیراعظم کی وزیراعلیٰ سندھ کو صوبے کے مالی مسائل حل کرنے کی یقین دہانی
خلانوردوں کے لیے کھانا بنائیں اور دس لاکھ ڈالر انعام پائیں
واشنگٹن: ناسا نے طویل خلائی سفر پر جانے والے خلانوردوں کے لیے توانائی بھرے اور ماحول دوست کھانے کی مستقل فراہم پر ٹیکنالوجی وضع کرنے کے اعلان کرتے ہوئے اس پر دس لاکھ ڈالر انعام یا فنڈنگ کا وعدہ کیا ہے۔
اس مقابلے میں عام افراد بھی شامل ہوسکتے ہیں بس شرط یہ ہے کہ کھانا توانائی بھرا، لذیذ اور باکفایت ہو اور اس میں توانائی اور ماحول کا بطورِ خاص خیال رکھا جائے کیونکہ خلا میں پکوان کے لیے زمین جیسی سہولیات موجود نہیں ہوتیں۔
یہ پروگرام کینڈا کی خلائی ایجنسی کے اشتراک سے شروع کیا گیا ہے جس میں سائنسدانوں سے لے کر عام افراد سے بھی مدد مانگی گئی ہے۔ مقابلے کا نام ’ڈیب اسپیس فوڈ چیلنج‘ رکھا گیا ہے۔ اس میں افراد یا ٹیموں سے غذائی تیاری کی ٹیکنالوجی کی ڈیزائننگ، تیاری اور انہیں فراہم کرنے کے عملی نمونوں کا تقاضہ کیا گیا ہے۔
شرط یہ ہے کہ خلا کے اجنبی ماحول میں سائنسدانوں کو وہ تمام ضروری اجزا فراہم کیے جائیں جو غذائیت سے بھرپور ہوتے ہیں۔ لیکن ناسا کے اندرونی حلقوں کے مطابق یہی ٹیکنالوجی زمین پر آفات اور قحط وغیرہ کی صورت میں غذائی ضروریات پوری کرسکے گی اور یوں اس ٹیکنالوجی کے امکانات بہت وسیع ہوسکتے ہیں۔
ناسا کے نائب ایڈمنسٹریٹر، جِم روئٹر نے بتایا کہ خلائی سفر میں خوراک پر اختراعاتی فکر کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے ہم ٹیکنالوجی کو مستقبل کی غذا قرار دے رہے ہیں۔ اب اس کا فیز ٹو شروع ہوچکا ہے۔ اکتوبر 2021ء کے فیز ون میں 18 ٹیموں نے اس میں شمولیت اختیار کی۔ اس پر کچھ رقم دی گئی تھی۔
اب دوسرے مرحلے میں 10 ٹیموں کا انتخاب کیا گیا ہے اور ان کے درمیان مقابلہ جاری ہے لیکن اس دوسرے مرحلے میں امریکا سے مزید نئی ٹیمیں بھی شامل ہوسکتی ہیں اور اس بار رقم بڑھا کر ایک ملین ڈالر کردی گئی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ ایک مؤثر اور مکمل ٹیکنالوجی بنائی جائے تو طویل خلائی سفر میں انسانوں کا پیٹ بھرسکے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔