نسل کشی کی اے بی سی ( حصہ دوم )

وسعت اللہ خان  منگل 25 جنوری 2022

گزشتہ مضمون میں بھارت میں نسل کشی کی ممکنہ لہر کے بارے میں ہم نے جینوسائیڈ واچ کے سربراہ ڈاکٹر گریگری اسٹنٹن کے خدشات کا تفصیلی ذکر کیا۔کس خطے میں نسل کشی ہونے والی ہے ؟ اس کی کیا نشانیاں ہیں۔

اس بابت ڈاکٹر اسٹنٹن نے دو ہزار سولہ میں ایک دس نکاتی کسوٹی بنائی۔اس کسوٹی کے کسی بھی مرحلے پر ریاست دھیان دے تو اگلے مرحلے کو روکا جا سکتا ہے، اگر ریاست ہی اس کسوٹی پر پورا اترنے کے لیے کوشاں ہو تو پھر نسل کشی ناگزیر ہے۔

پہلا مرحلہ ہے قسم بندی) ہر گروہ یا نسل کی اپنی مخصوص نسلی ، مذہبی و ثقافتی شناخت ہے۔اس کا احترام کرنے کے بجائے اکثریتی گروہ نسل کشی کے لیے فضا ہموار کرنے کے لیے اس شناخت کو ’’ ہم اور وہ ‘‘ میں بانٹنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔جیسے روانڈا میں تتسی اور ہوتو، نازی جرمنی میں جرمن اور یہودی ، بھارت میں ہندو اور مسلمان ، میانمار میں روہنگیا اور برمی وغیرہ وغیرہ۔

دوسرا مرحلہ ہے شناختی استعاروں کا استعمال (سمبلائزیشن )۔مثلاً نازی جرمنی میں یہودیوں کو اپنی جیب پر زرد پنج کونا ستارہ لگانا پڑتا تھا۔یا کھیمر روج کے کمبوڈیا میں ایسٹرن زون میں رہنے والوں کو نیلااسکارف باندھنا لازمی تھا۔

قدیم ہندوستان میں شودروں کو اعلیٰ ذات کے علاقوں میں داخل ہوتے وقت ایک مخصوص گھنٹی مسلسل بجانا پڑتی تھی تاکہ اعلیٰ اور پوتر ذاتیں ان کے ناپاک سائے سے دور رہ سکیں۔جدید بھارت کے شودروں میں مسلمانوں اور مسیحوں کو بھی شامل کیا جا رہا ہے۔ بابر اور اورنگ زیب کی اولاد یا میاں لوگ کو بطور گالی استعمال کیا جاتا ہے۔ ہندوتوائی گروہ اپنی شناخت کے لیے ترشول کی نمائش ، گیروے دھاگے یا جے شری رام کے نعرے سے کام لیتا ہے۔

تیسرا مرحلہ ہے امتیازی قانون سازی) اکثریتی گروہ اقلیتی گروہ کے ووٹ ، تعلیم و صحت کے حق ، شہری سہولتوں اور کاروبار و نقل و حرکت کی آزادی محدود کرنے، بین الگروہی رشتے ناتوں پر پابندی اور اقلیتوں کی شہریت اور حب الوطنی پر سوال اٹھانے جیسے ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے۔ایسے قوانین بنائے جاتے ہیں کہ کلیدی عہدے صرف اکثریتی گروہ کے تسلط میں رہیں۔قانون سازی کا مقصد ہدف زدہ گروہ کو دیوار سے لگانا ہے۔

جیسے انیس سو پینتیس کے نورمبرگ قوانین کے تحت یہودی باشندوں کی جرمن شہریت ختم کر کے سرکاری ملازمتوں اور یونیورسٹیوں کے دروازے بند کر دیے گئے یا میانمار میں روہنگیا مسلم گروہ کو اجتماعی طور پر شہریت سے محروم کر دیا گیا تاکہ وہ بے دست و پا ہو کر اکثریتی گروہ کے رحم و کرم پر ہوں۔

چوتھا مرحلہ ہے شرفِ انسانیت سے محرومی ( ڈی ہیومینائزیشن )۔اکثریتی گروہ اقلیت کو باور کراتا ہے کہ وہ کمتر یا نیم انسان ہیں۔انھیں کیڑوں مکوڑوں اور جانوروں سے تشبیہہ دی جاتی ہے۔جیسے بھارتی وزیرِ داخلہ امیت شاہ کے نزدیک مسلمان دیش کو لگی دیمک ہیں۔جیسے جرمن یہودیوں کو خون چوس کیڑے اور چوہے کہا جاتا تھا۔ایسی اصطلاحات اکثریتی گروہ کا ترجمان میڈیا مزید اچھالتا ہے تاکہ عام لوگوں کو یہ ازبر ہو جائیں۔ کیونکہ براہ راست کسی اقلیتی گروہ کو گالی دینے سے دیش کی بدنامی بھی ہو سکتی ہے۔

پانچواں مرحلہ ہے نظم ( آرگنائزیشن )۔نسل کشی ہمیشہ منظم اور ریاست کی پشت پناہی سے ہوتی ہے۔ اس میں غیر سرکاری گروہوں کو تربیت و اسلحہ دے کر استعمال کیا جاتا ہے تاکہ ریاست کے انتظامی اداروں کو اس عمل سے لاتعلق ظاہر کرنے میں آسانی ہو۔جیسے دارفور کے علاقے میں نسلی صفائی کا کام سوڈانی حکومت نے جنجاوید ملیشیا کو سونپا۔جیسے آر ایس ایس اپنے کارکنوں کے لیے لٹھ بازی اور تلوار بازی کے تربیتی کورس منظم کرتی ہے تاکہ یہ ماسٹر ٹرینر حسبِ ضرورت خواہش مند عام شہریوں کو تربیت دے سکیں۔

چھٹا مرحلہ ہے تقسیم ( پولرائزیشن )۔تضادات ابھار کر سماج کو تقسیم در تقسیم کرنے کا کام ذرایع ابلاغ اور سوشل میڈیا سے لیا جاتا ہے۔مضامین اور خطابات میں توہین آمیز بیانیے اور اصطلاحات کو شامل کیا جاتا ہے تاکہ بین الگروہی مصالحت کا کوئی امکان نہ رہے۔ اعتدال پسند سیاسی و سماجی قوتوں کو ہر سطح پر نیچا دکھانے کی منظم کوشش ہوتی ہے تاکہ انتہا پسندوں اور ہدف زدہ گروہ کا فرق کرنے میں عام آدمی کے لیے کوئی ابہام باقی نہ رہے۔ہدف زدہ گروہ کو غیر مسلح اور ہدف بنانے والے گروہوں کو مسلح کیا جاتا ہے۔

ساتواں مرحلہ ہے آخری تیاری )۔جن مسلح گروہوں سے نسلی صفائی کا کام لینا ہے ان کی رابطہ کاری کا غیر رسمی ڈھانچہ تشکیل پاتا ہے۔نسلی صفائی کا عمل اکثر غداروں، دہشت گردوں یا سماج دشمن عناصر کے خلاف آپریشن، شورش کی سرکوبی یا سیلف ڈیفنس کے نام پر ہوتا ہے جس میں ’’اتفاقاً ‘‘ بہت سے عام شہری بھی دہشت گردوں کے حامیوں کے طور پر زد میں آ سکتے ہیں۔

آٹھواں مرحلہ ہے تادیبی کارروائی ( پرسیکیوشن)۔ منظم و بڑی نسل کشی سے پہلے زمین اور فضا ٹیسٹ کرنے کے لیے چھوٹے پیمانے پر ایسی ہنگامہ آرائی منظم کی جاتی ہے جس سے ڈر کے ہدف زدہ طبقات ایک خاص علاقے میں منتقل یا محدود ہو جائیں۔ان کے کاروبار اور  املاک کو غیر محفوظ بنانے کی منظم کوشش ہوتی ہے تاکہ  معاشی کمر ٹوٹ سکے۔انھیں ہراساں کرنے کے لیے ان کے گھروں پر مخصوص نشانات لگائے جاتے ہیں۔

فہرستیں تیار ہوتی ہیں۔غیر رسمی نگرانی شروع ہو جاتی ہے تاکہ انھیں منظم انداز میں کیمپوں یا ویرانوں میں منتقل کر کے قتل کیا جا سکے یا علاقہ وار محاصرہ کر کے بھوکا مارا جا سکے۔نسل کشی کے مرحلے میں تشدد ، ریپ ، اغوا وغیرہ کا بازار گرم ہونا ایک عام بات ہے۔’’ تخریب کاروں  اور غداروں ‘‘کی مشکوک پولیس مقابلوں یا لاک اپ میں دورانِ تفتیش ہلاکتوں کے واقعات میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔اس مرحلے پر بھی اگر ریاست نسل کشی روکنے کے لیے ہنگامی اقدامات نہیں کرتی تو اس کا مطلب ہے کہ ریاست کا مقصد بھی یہی ہے۔

نواں اور دسواں مرحلہ ہے وجود کا مٹانا اور مکر جانا (ایکسٹرمینیشن اینڈ ڈینائل)۔یعنی مکمل اعلانِ جنگ۔ ہدف زدہ گروہ کو کنسنٹریشن کمیپوں میں رکھ کے مٹایا جاتا ہے یا پھر محلہ وار گاؤں گاؤں چن چن کے مارا جاتا ہے۔ ایسے موقعے پر پولیس اور فوج یا تو غائب ہوتی ہے یا غیر معمولی تاخیر برتنے کے بعد حالات کو نمائشی طور پر کنٹرول کرنے کی کوشش کرتی ہے۔بین الاقوامی برادری کو دکھانے کے لیے خانہ پری کی خاطر کچھ گرفتاریاں بھی ہوتی ہیں مگر مرنے والے اس قابل کہاں کہ کسی کے خلاف گواہی دے سکیں۔ لہٰذا قاتل صاف چھوٹ جاتے ہیں۔

نسلی صفائی کے عمل کی شدت کو کم سے کم دکھانے یا تردیدی فضا بنانے کے لیے میڈیا کو نہایت چابک دستی سے استعمال کیا جاتا ہے۔ایک قومی بیانیہ تشکیل دیا جاتا ہے جس میں ساری گڑبڑ کی ذمے داری اقلیتی گروہ کے سر منڈھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔نسلی صفائی کے اہم شواہد تیزی سے مٹائے جاتے ہیں اور عینی شاہدوں کو مسلسل ہراساں کیا جاتا ہے تاکہ وہ جذباتی ہو کر کبھی کچھ الٹا سیدھا نہ بک دیں اور قوم و ملک کی رسوائی کا موجب ہوں۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔