سفید برف میں لپٹی سیاہ زندگی

آصف شہزاد  جمعرات 27 جنوری 2022
برفباری کی دعائیں مانگنا مقامی آبادی کےلیے بددعا ثابت ہوسکتا ہے۔ (تصاویر: بلاگر)

برفباری کی دعائیں مانگنا مقامی آبادی کےلیے بددعا ثابت ہوسکتا ہے۔ (تصاویر: بلاگر)

خبر تھی کہ شمالی علاقہ جات کے پہاڑوں نے سفید چادر اوڑھ لی۔ دوسری خبر تھی کہ برفباری کی سفید چادر نے وادی کے حسن کو چار چاند لگادبے۔ تیسری خبر تھی کہ سیاحوں کی بڑی تعداد برفباری دیکھنے کےلیے شمالی علاقہ جات پہنچ گئی۔ پھر ایک اور خبر شائع ہوئی کہ سیاحوں کی ریکارڈ تعداد سے مقامی آبادی کی معیشت بڑھے گی اور مقامی افراد کو روزگار کے مواقع میسر آسکیں گے۔ لیکن ایک بھی ایسی خبر دیکھنے کو نہیں ملی جوکہ غیر رسمی انداز سے مقامی افراد کی مشکلات کا احاطہ کرسکے۔

دراصل برف میں مدفون زندگیوں کے بارے کوئی بھی جاننے کی کوشش نہیں کرتا۔ کسی کو بھی پرواہ نہیں کہ مقامی آبادی کےلیے برفباری کا موسم کتنا کٹھن ہوتا ہے۔ کسی کو بھی اس بات کا ادراک نہیں کہ برفباری سے محظوظ ہونے کی خاطر برفباری کی دعائیں مانگنا ان غریبوں کےلیے بددعائیں ثابت ہوسکتا ہے۔

امسال شمالی علاقہ جات اور مالاکنڈ ڈویژن کے بالائی علاقوں میں ریکارڈ برفباری ہوئی، جس سے یہاں کی مقامی آبادی کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ سڑکوں کی بندش اور اشیائے خورونوش کی قلت نے یہاں کے رہائشیوں کو ذہنی و جسمانی اذیت میں مبتلا کردیا ہے۔ دور افتادہ علاقے کے لوگوں کی حالت زار پر تو نوحہ لکھنے کو دل کرتا ہے۔ اپنی مدد آپ کے تحت سڑکوں کی صفائی اور چھتوں پر چار سے چھ فٹ تک پڑی برف کو صاف کرنا اور موسم کی شدت سے بچے رہنے جیسے مراحل سے گزرنا شاید ہر کسی کے بس کا کام نہیں، لیکن مجبوری انسان کو برداشت کرنے کا ہنر سکھا ہی دیتی ہے۔


جب موسم سرما میں بارشوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو شمالی علاقہ جات سمیت مالاکنڈ ڈویژن کے بالائی علاقوں میں شدید برفباری کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ ساحتی مقامات گاڑیوں سے بھر جاتے ہیں، جس سے سڑکوں پر رش لگا رہتا ہے اور کئی کئی گھنٹوں تک سیاح اور مقامی افراد پھنس جاتے ہیں، جس سے مقامی لوگوں کو جو نقصانات لاحق ہوتے ہیں اس کا اندازہ الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ ان پہاڑی لوگوں کی روایات کا یہ حال ہے کہ اکثر اوقات سیاحوں کا بوجھ بھی اپنے سر لے لیتے ہیں اور محدود وسائل کے باوجود برف میں پھنسے سیاحوں کےلیے بغیر کسی لالچ کے کھانے پینے اور آگ جلانے کا بندوبست کرتے رہتے ہیں اور اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ سیاحوں کو جتنا ہوسکے مشکلات سے دور رکھیں۔
پاکستان میں برفباری سے متاثرہ بیشتر بالائی اور شمالی علاقہ جات میں مختلف پھلوں اور میوہ جات کے باغات لگے ہوئے ہیں جو کہ مقامی آبادی کےلیے آمدن کے بنیادی ذرائع میں شامل ہیں۔ لیکن جب زیادہ برف پڑتی ہے تو انہی باغات میں لگے درختوں پر برف کا بوجھ آن پڑتا ہے اور ان درختوں کی شاخیں ٹوٹ کر گرنے لگ جاتی ہیں، جس کے باعث پیداوار میں نمایاں کمی واقع ہوجاتی ہے اور کئی برسوں تک پیداوار میں کمی برقرار رہتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کھیتوں میں کھڑی فصلوں کو بھی شدید نقصان پہنچتا ہے، جس سے یہاں کے مکین معاشی طور پر بدحالی کا شکار ہوجاتے ہیں۔


ان علاقوں میں عموماً جدید طبی سہولیات اور علاج معالجے کا فقدان ہے۔ سرکاری ڈسپنسریوں اور اسپتالوں میں ناقص سہولیات کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ کیلنک یا اسپتال بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس لیے لوگوں کو مجبوراً اپنے مریضوں کو نیچے لانا پڑتے ہیں۔ تاہم سڑکوں کی بندش اور رش کی وجہ سے یہ بھی ممکن نہیں ہوپاتا، جس کے باعث اکثر اوقات مریضوں کی حالت تشویشناک صورت اختیار کرلیتی ہے اور بالآخر چارپائی سے باندھ کر پیدل شہروں تک لے جایا جاتا ہے، جوکہ مریضوں کے علاوہ مریض کو کندھا دینے والے دیگر افراد کےلیے بھی اذیت اور خطرے کا باعث ہوتا ہے۔

جب بارشوں کا سلسلہ طول پکڑتا ہے تو علاقہ مکینوں کےلیے وبال جان بن جاتا ہے۔ بار بار رات کو اٹھ کر چھتوں سے برف ہٹانی پڑتی ہے، کیونکہ بیشتر مکانات کچے ہوتے ہیں اس لیے ذرا سی لاپرواہی یا کوتاہی بڑے نقصان کا باعث بن سکتی ہے اور مکانات کے منہدم ہونےکا خدشہ پیدا ہوجاتا ہے۔ لہٰذا ہر گھر میں موجود افراد باری باری برف ہٹانے کی ڈیوٹی سرانجام دیتے ہیں اور راتوں کو جاگ کر چھتوں کو صاف کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ موسم کی شدت سے اکثر عمر رسیدہ افراد اور بچوں کو انفیکشن ہوجاتا ہے۔

حکومت سے درخواست ہے کہ سڑکوں سے برف ہٹانے کےلیے جدید مشینری کا بندوبست کرے۔ ہر علاقے کی سرکاری ڈسپنسری یا اسپتال کو فعال بنائے اور محکمہ صحت کو پابند بنائیں کہ ان علاقہ جات میں تجربہ کار ڈاکٹرز اور طبی عملہ تعینات کیا جائے تاکہ ایمرجنسی کی صورت میں مقامی آبادی کو کم از کم فرسٹ ایڈ اور بنیادی طبی سہولیات تک رسائی ممکن ہوسکے۔

اس کے علاوہ سیاحوں سے گزارش ہے کہ موسم کی صوتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنا پلان بنائیں اور اپنے آپ کو موسمی تغیر سے آگاہ رکھیں، تاکہ رش اور بھیڑ سے بچا جاسکے اور مقامی افراد کےلیے مشکلات پیدا نہ ہوں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

آصف شہزاد

آصف شہزاد

بلاگر لاء گریجویٹ ہیں۔ مختلف اخبارات اور ویب سائٹس کےلیے معاشرتی مسائل پر بلاگز اور کالم لکھتے ہیں۔ ان سے ٹویٹر ہینڈل @spinbaaz پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔