اتحادیوں کی سیاست
اتحادی حکومتوں میں ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے حکومتی حلیفوں کے نخرے اور مطالبات کوئی نئی بات نہیں
ایم کیو ایم کے کنوینئر خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ ہم کب تک حکومت کے ساتھ ہیں یہ فیصلہ بھی پی ٹی آئی کرے گی۔ اس سے قبل (ق) لیگ کے ایک مرکزی رہنما عمران خان کی حمایت کا واضح اعلان کر چکے ہیں۔
حکومت کے دو بڑے اتحادیوں کے تاثرات سے پتا چلتا ہے کہ یہ دونوں اقتدار میں رہنے کے خواہش مند ہیں اور وہ وزارتوں میں بہرصورت رہنا چاہیں گے یہاں تک کہ حکومت کی مدت اقتدار پوری نہ ہوجائے۔ یہ دونوں اتحادی یہ چاہیں گے کہ مدت پوری کرنے کے بعد بھی وزیر اعظم ایمرجنسی لگا کر حکومت کی مدت ایک سال مزید بڑھالیں، جو آئین کے مطابق ممکن ہے۔
ہر اتحادی جانتا ہے کہ وہ حکومت کی مجبوری ہے کیونکہ حکومت ان ہی کی وجہ سے قائم ہے اور چند ووٹ حکومت کا خاتمہ ممکن کرا سکتے ہیں ۔ پی ٹی آئی نے اپنے اقتدار کی قوت بڑھانے کے لیے جمہوری وطن پارٹی کے صرف ایک ووٹ کے لیے انھیں ایک وفاقی عہدہ دیا ہے۔ بی این پی واحد حکومتی اتحادی تھی جس کے سربراہ اختر مینگل نے تقریباً دو سال حکومت کا ساتھ دیا مگر کوئی وزارت مانگی نہ اپنی پارٹی کو کوئی حکومتی فائدہ پہنچایا۔
وہ حکومت سے صرف یہ چاہتے تھے کہ حکومت نے ان سے جو معاہدہ کیا تھا وہ پورا کیا جائے اور جب حکومت نے اپنا وعدہ پورا نہ کیا انھوں نے حکومت چھوڑ دی تھی۔ کہا جاسکتا ہے کہ آصف زرداری حکومتی حلیفوں کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ انھوں نے اقتدار کو مضبوط بنانے کے لیے مسلم لیگ (ق) کو نائب وزیر اعظم کا عہدہ بھی دے دیا تھا اور (ق) لیگ نے پی پی حکومت کی مدت پوری کرائی تھی۔
ایم کیو ایم اس سے قبل پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور جنرل پرویز مشرف دور میں (ق) لیگ کی اتحادی رہی اور اب ساڑھے تین سال سے پی ٹی آئی حکومت کی اتحادی ہے اور (ق) لیگ سے زیادہ قومی اسمبلی کی نشستیں رکھنے کے باوجود صرف ایک وفاقی وزارت کے لیے حکومت میں ہے کیونکہ یہ اب وہ ایم کیو ایم ہے جس کی سیاسی طاقت پہلے جیسی نہیں رہی جس کے پر کٹ چکے جو حکومت اب چھوڑ نہیں سکتی اور صرف ایک معمولی وزارت بھی چھوڑنا نہیں چاہتی۔ ماضی میں ایم کیو ایم کے گورنر اسلام آباد پہنچ کر صدر جنرل مشرف سے طے شدہ ملاقات منسوخ کرکے واپس آگئے تھے۔
ایم کیو ایم جب بھی پی پی اور مسلم لیگ کی حکومتوں میں رہی کبھی اتنی کمزور نہیں تھی جتنی اب ہے اور اس نے دونوں حکومتوں سے خود علیحدگی اختیار کی تھی اور صدر زرداری نے ایم کیو ایم سے تنگ آ کر (ق) لیگ کو اپنا اتحادی بنایا تھا۔ (ق) لیگ حلیف حکومت کا آخر تک ساتھ دینے کا دعویٰ کرتی ہے وہ ایم کیو ایم سے کم نشستیں رکھنے کے باوجود وفاق اور پنجاب میں اہم عہدے لیے ہوئے ہے اور پی ٹی آئی قیادت نے اپنی پنجاب حکومت بچانے کے لیے انھیں دو وفاقی وزارتیں دے رکھی ہیں۔ وفاق اس کے ساتھ رہنے پر اس لیے مجبور ہے کہ (ق) لیگ وفاق اور پنجاب کی حکومتیں بچانے اور ختم کرانے کی طاقت رکھتی ہے۔
(ق) لیگ کی ناراضگی پی ٹی آئی کی وفاق اور پنجاب کی حکومتیں ختم کرا سکتی ہے اور وفاقی حکومت (ق) لیگ کو بھرپور اہمیت دے رہی ہے ۔ پی ٹی آئی حکومت نے بی این پی مینگل کی علیحدگی کے بعد بھی سندھ میں ایم کیو ایم اور جی ڈی اے کو اہمیت دی نہ دونوں سے کیے گئے وعدے پورے کیے مگر دونوں پارٹیاں وفاقی حکومت میں رہنے پر مجبور ہیں۔
بلوچستان عوامی پارٹی نے پہلی بار وزارت نہ ملنے کی شکایت کی ہے انھیں بھی صرف ایک وفاقی وزارت پر گزارا کرنا پڑ رہا ہے اور دوسری طرف اتنی بڑی تعداد میں وزارتوں سے نواز گیا ہے کہ وفاق میں گنجائش باقی نہیں رہی۔ پی ٹی آئی حکومت نے سندھ اور بلوچستان کے صوبائی امور میں بھی اپنے معاون خصوصی مقرر کر رکھے ہیں مگر سب حکومتی حلیفوں میں مسلم لیگ (ق) کی سب سے زیادہ اہمیت ہے کہ باقی حلیفوں کی پنجاب میں کوئی حکومت کی ضرورت نہیں ہے اس لیے تمام حکومتی حلیفوں میں اہمیت صرف (ق) لیگ کی ہے۔اتحادی حکومتوں میں ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے حکومتی حلیفوں کے نخرے اور مطالبات کوئی نئی بات نہیں۔
ماضی میں کبھی پی پی کو واضح اکثریت نہیں ملی مگر پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے قائدین نے کبھی ایسے وعدے اور دعوے نہیں کیے تھے جیسے آج موجودہ حکومت کی جانب سے کیے گئے تھے۔ ان کی حکومتی اکثریت حلیفوں کی محتاج ہے اور تمام حلیف اپنی مرضی سے نہیں بلکہ بالاتروں کے باعث پی ٹی آئی کے حلیف بنے تھے اور اتنے مجبور ہیں کہ شکوے شکایتوں کے باوجود حکومتی حلیف ہیں۔