کم وسائل کے باوجود پاکستانی خواتین نے ہر شعبہ میں اپنا لوہا منوایا، ایکسپریس فورم

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  اتوار 20 مارچ 2022
ہرگھنٹے میں22خواتین کی دوران زچگی موت افسوسناک ہے، فائزہ ملک،نبیلہ شاہین،عبداللہ ملک،حفصہ مظہر کی گفتگو۔ فوٹو: ایکسپریس

ہرگھنٹے میں22خواتین کی دوران زچگی موت افسوسناک ہے، فائزہ ملک،نبیلہ شاہین،عبداللہ ملک،حفصہ مظہر کی گفتگو۔ فوٹو: ایکسپریس

لاہور: زیادہ مسائل اور کم وسائل کے باوجود پاکستانی خواتین نے ہر شعبے میں اپنی قابلیت کا لوہا منوایا ہے، ملک میں ویمن فرینڈلی قوانین تو موجود ہیں مگر دیکھنا یہ ہے کہ ان قوانین کے اثرات صحیح معنوں میں خواتین تک پہنچ رہے ہیں یا نہیں؟

افسوس ہے کہ عملدرآمد کا درست میکنزم نہ ہونے کی وجہ سے خواتین بدترین مسائل کا شکار ہیں، ہر تیسری عورت ہراساں ہورہی ہے، گزشتہ برس خواتین پر تشدد، صنفی امتیاز، ہراسمنٹ، دوران زچگی اموات، چائلڈ لیبراور کم عمری کی شادیوں سمیت خواتین کے حوالے سے بیشتر مسائل میں اضافہ ہوا ہے، مسائل کی چکی سے پس کر صرف ایک فیصد لڑکیاں یونیورسٹی تک پہنچتی ہیں جن میں سے ایک بڑی تعداد ملازمت کے نامناسب مواقع، غیر محفوظ ماحول، ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی و دیگر مسائل کی وجہ سے گھروں میں محصور ہیں، اگر ریاست خواتین کے مسائل دور کرے اور ان تعلیم یافتہ لڑکیوں کو سازگار ماحول فراہم کیا جائے تو ملکی معیشت کو فائدہ ہوگا اور ملک ترقی کرے گا۔

ان خیالات کا اظہار مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے ’’خواتین کو درپیش مسائل اور ان کا حل‘‘ کے موضوع پر منعقدہ ایکسپریس فورم میں کیا۔

رہنما پیپلز پارٹی فائزہ ملک نے کہا کہ خواتین اراکین اسمبلی اپنی جماعتوں سے بالاتر ہوکر خواتین کے حوالے سے قانون سازی میں کردار ادا کرتی ہیں، پیپلز پارٹی کی قیادت نے ہمیشہ خواتین کے کردار کو سراہا اور ہمارے موقف کو سنا ہے۔ میں نے 2002 ء میں ڈومیسٹک وائلنس کا بل پیش کیا ، 2018ء میں ڈومیسٹک وائلنس کا بل تبدیلوں کے ساتھ منظور ہوا، مگر افسوس ہے کہ تاحال اس کے رولز آف بزنس نہیں بنے نہ ہی حکومت نے اس کیلئے بجٹ مختص کیا، خواتین کے مسائل حل کرنے کیلئے ہمیں گھر سے کام کا آغاز کرنا ہوگا ۔ 71فیصد خواتین ہوم بیسڈ ورکرز ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو بڑے اور فیصلہ ساز عہدوں پر خواتین کو آگے لانا چاہیے۔

نمائندہ سول سوسائٹی نبیلہ شاہین نے کہا کہ ملک میں خواتین کے حوالے سے اچھی قانون سازی ہوئی، ہراسمنٹ، گھریلو تشدد، غیرت کے نام پر قتل، کم عمری کی شادی، وراثت کا حق سمیت خواتین کے پیشتر مسائل اور حقوق کے حوالے سے اچھے قوانین بنائے گئے مگر سوال یہ ہے کہ کیا ان پر عملدرآمد کا موثر میکنزم بنایا گیا؟ جن کیلئے یہ قوانین بنائے گئے انہیں آگاہی دی گئی؟ خواتین کو فیصلہ سازی میں شامل کرنا سیاسی جماعتوں کے منشور کا لازمی حصہ ہونا چاہیے۔

نمائندہ سول سوسائٹی عبداللہ ملک نے کہا کہ آج ہمیں بڑے عہدوں پر خواتین نظر آتی ہیں، پارلیمنٹ، عدلیہ، فوج، سرکاری اداروں اور نجی شعبے میں خواتین نے مثبت کردار ادا کیا ہے، روان سال خواتین کے عالمی دن کا نعرہ ’بریک دا بائس‘ یعنی امتیاز کا خاتمہ ہے، یہ امتیاز ہر سطح پرہے جس کا خاتمہ کرنا ہے۔ بدقسمتی سے 2021ء میں خواتین پر تشدد میں اضافہ ہوا، اس سال 52 ہزار 370 کیسز ہوئے۔ طلاق و گھریلو جھگڑوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومت تعلیمی اداروں کی تحقیق سے بھی فائدہ نہیں اٹھا رہی، تعلیمی نصاب میں خواتین کے حوالے سے مواد کو شامل کیا جائے۔خواتین پر تشدد کے حوالے سے بھارت پہلے، پاکستان چھٹے اور امریکا 10 ویں نمبر پر ہے، خواتین کے مسائل ،آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرنا ہونگے۔

نمائندہ سول سوسائٹی حفصہ مظہر نے کہا کہ بدقسمتی سے ہر تیسری عورت کسی نہ کسی سطح پر، کسی نہ کسی انداز میں ہراسمنٹ کا شکار ہوتی ہے، ایک سروے کے مطابق 99 فیصدخواتین نے یہ اظہار کیا کہ وائلنس ہوتا ہے مگر وہ رپورٹ نہیں کرتی، لیبر فورس میں 27 فیصد خواتین ہیں، ان میں ہوم بیسڈ ورکرز کو شامل نہیں کیا گیا ۔ 21 فیصد بچیوں کی شادی 15 برس سے کم عمر میں کر دی جاتی ہے، ہر گھنٹے میں 22 خواتین کی دوران زچگی موت ہوتی ہے، خواتین کو گھریلو تشدد و دیگر مطالم کا نشانہ بنایا جاتا ہے جو افسوسناک ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔