دہشت گردی اور انتہا پسندی کا چیلنج

پاکستان کی ترقی و خوشحالی کو یقینی بنانا موجودہ حکمرانوں کی صلاحیتوں کا امتحان ہے


Editorial March 28, 2022
پاکستان کی ترقی و خوشحالی کو یقینی بنانا موجودہ حکمرانوں کی صلاحیتوں کا امتحان ہے۔ فوٹو: فائل

بلوچستان کے ضلع سبی کے علاقے ناگاؤ میں سیکیورٹی فورسز کے آپریشن کے دوران چھ دہشت گرد مارے گئے ، دہشت گرد سبی اور گردونواح میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات میں ملوث تھے اور ان کا تعلق بیس جنوری کو انارکلی لاہور میں ہونے والے دھماکے سے بھی تھا ۔

دہشت گردوں سے اسلحہ اور گولہ بارود بھی برآمد ہوا ۔آپریشن کے دوران بہادر سپاہی شہید جب کہ دو فوجی زخمی ہوئے۔دوسری جانب غیرملکی میڈیا کے مطابق امریکی حکام نے طالبان کی جانب سے لڑکیوں کے اسکول کھولنے کے بعد دوبارہ بند کرنے کے اعلان پر دوحہ میں معاشی امور پرطے شدہ مذاکرات منسوخ کردیے ہیں جب کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں کل جماعتی حریت کانفرنس نے کہا ہے کہ بھارت ظالمانہ ہتھکنڈوں کے ذریعے کشمیریوں کی منصفانہ جدوجہد آزادی کو دبانے میں کامیاب نہیں ہوگا ۔

بلوچستان میں سیکیورٹی فورسز کی کامیاب کارروائی بلاشبہ قابل ستائش ہے ،پاک فوج نے دہشت گردی کے خلاف ایک بڑی اور صبر آزما جنگ لڑی ہے ،دہشت گردوں کو شکست دینے اور ملک میں قیام امن کے استحکام اور سلامتی کے لیے لازوال قربانیوں کی نہ صرف روشن مثال قائم کی، بلکہ دنیا بھر میں پاکستان کا وقار بلند کیا، آج اسی کا ماحصل ہے کہ پاکستان کے پر امن ماحول میں بین الاقوامی کرکٹ میچ ہو رہے ہیں جوپوری دنیا کو واضح پیغام ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی سے سیاحت تک کا کٹھن سفر کامیابی سے طے کر لیا اور یہ اب کھیل وسیاحت کے لیے ایک پرامن ملک بن چکا ہے۔

ایک وہ وقت تھا کہ پاکستان میں دہشت گرد اور انتہا پسند انتہائی طاقتور ہو گئے تھے اور انھوں نے خفیہ طور پر پورے ملک میں اپنا جال بچھا لیا تھا، قانون نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی تھی، اس صورت حال میں پوری قوم میں تشویش کا ابھرنا قدرتی امر تھا اور ہر وقت یہی دھڑکا لگا رہتا کہ کسی بھی وقت انتہا پسندوں کا گروہ آگے بڑھ کر عنان اقتدار اپنے ہاتھ میں لے کر اپنے نظریاتی مخالفین کا قتل عام شروع کر سکتا ہے۔

پاکستان نے صرف اپنی سرزمین سے دہشت گردوں کا خاتمہ نہیں کیا، بلکہ افغانستان اور بھارت سے آنے والے ایسے عناصر کے گرد گھیرا تنگ کر کے انھیں چھپنے کا موقع نہیں دیا ہے، پاکستان نے پورے خطے میں سرگرم عسکریت پسند گروہ ختم کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے، اس وقت بھی دہشت گردوں کے بچے کھچے گروہوں کے پیچھے غیرملکی قوتیں کارفرما ہیں جو پاکستان کی سلامتی کو نقصان پہنچانے کی درپے ہیں،یوں لگتا ہے کہ افغانستان میں قدامت پسند حکومت کی واپسی سے سرحد پار موجود اپنے ٹھکانوں سے کارروائی کرنے والے دہشت گرد گروہ نے شہہ پائی ہے۔

حالیہ مہینوں کے دوران پاکستانی سیکیورٹی فورسز پر حملوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ افغانستان میں غیریقینی کی صورتحال کے باعث آنے والے وقت میں صورتحال مزید بدتر ہوسکتی ہے، مگر یہ بات تو طے ہے کہ ملک کے لیے پر تشدد انتہاپسندی ہی سب سے بڑا چیلنج رہے گی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان دہشت گردی کے باعث بدترین حالات سے دوچار ہے اور اس کی سلامتی اور ترقی کو خطرات لاحق ہیں۔اس کے باوجود پاکستان میں ایسی پارٹیوں ، حلقوں اور شخصیات کی کوئی کمی نہیں ہے جو امریکا کی مخالفت اور عالمی جہاد کے جواز کی آڑ میں طالبان اور دوسرے انتہاپسندوں کو نظریاتی مواد اور سپورٹ فراہم کرنے میں مصروف ہیں۔ متعدد اسلامی ممالک کے آپس کے اختلافات کو انھی تنظیموں کے ذریعے پاکستان میںآنے کا موقع ملا ۔

یوں ان رویوں کے باعث ہزاروں پاکستانی سادہ لوح نوجوان انتہا پسند تنظیموں کا حصہ بن گئے۔ شدت پسندی ان فکری اور نظریاتی طور پر ان کی سوچ میں شامل ہے اور یہی وہ نکتہ ہے جس نے پاکستانی معاشرے کو انتہاپسندی کے حوالے سے تقسیم کر دیا ہے۔ پاکستان کے عوام نے کسی بھی مذہبی جماعت کو ساڑھے چھ فیصد سے زیادہ ووٹ نہیں دیے مگر یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ جیسے پاکستان کے عوام قرونِ وسطیٰ کا دور دیکھنے یا لانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ امریکا میں نائن الیون کے بعد دہشت گردی کی کوئی قابل ذکر کارروائی نہیں ہوئی۔

اس کے مقابلے میں پاکستان دہشت گردی میں دھنستا چلا گیا مگر نظریاتی اور عوامی سطح پر یہ کہہ کر لوگوں کو گمراہ کیا جاتا رہا کہ جیسے ہی امریکا کے اتحاد سے پاکستان نکل جائے گا یا امریکی فوجی افغانستان سے نکل جائیں گے ملک میں امن قائم ہو گا اور ہر طرف ہریالی ہی ہریالی لہراتی نظر آئے گی۔

یہ نظریہ ایک خوش فہمی کے علاوہ لا علمی پر بھی مبنی ہے۔ ٹی ٹی پی پاکستان واضح کرچکی ہے کہ افغانستان سے امریکی انخلاء کے باوجود ٹی ٹی پی کی جدوجہد جاری رہے گی کیونکہ ان کے بقول وہ شریعت کے نفاذ کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

جب تک شدت پسندی کے نظریات کی نفی نہیں کی جاتی اور ان کے ہمدردوں کو یہ بات نہیں سمجھائی جاتی کہ ایک دن وہ بھی شدت پسندی کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں' تب تک اس سنگین مسئلے کا مستقل حل نہیں نکلے گا۔ دوسری جانب ملک میں مسلکی اور گروہی اختلافات کی بنیاد پر بڑی تعداد میں علماء اور مذہبی کارکنوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ گوریلا اور شدت پسند تنظیموں کے لیے مخالفین کے علاوہ منحرفین کو ہٹانا بھی ''جائز اور لازمی'' ہوتا ہے۔شدت پسند اپنے سخت گیر رویے کے دوران کسی سے رعایت برتنے کے متحمل نہیں ہوتے' یہی وہ نکتہ ہے جس کے باعث مذہبی لیڈر اور علماء بھی شدت پسندوں کا نشانہ بن جاتے ہیں اور یہ عمل پاکستان میں بھی دہرایا گیا۔

یہ توقع رکھنا کہ شدت پسند قوتیں اپنے حامیوں کو نشانہ نہیں بناتیں، تاریخی پس منظر میں درست نہیں ہے۔نفسیاتی ماہرین کے مطابق شدت پسند نہ صرف یہ کہ گیم کے اختتام پر خود تشدد کا نشانہ بن جاتے ہیں بلکہ اکثر اوقات وہ اپنے حامیوں کوبھی نہیں بخشتے۔

پاکستان میں جاری دہشت گردی کی تازہ لہر کے پیچھے بھارت کا بھی ہاتھ ہے ، بھارت کسی بھی طور پر پاکستان کو مستحکم نہیں دیکھنا چاہتا ، بھارتی جبر و ستم نے مقبوضہ کشمیر کے لاکھوں انسانوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد سے تو مقبوضہ وادی کو مقتل بنا دیا گیا ہے۔

لاکھوں کشمیری آزادی کا چراغ سینوں میں جلائے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی جیل میں انسانی حقوق کی پامالی کی داستانیں لرزہ خیز ہیں۔کشمیریوں پر جاری ظلم اور اس کے آگے ان کے عزم، استقامت اور ہمت کی تاریخ میں مثال ملنا مشکل ہے۔حالات وواقعات اس بات کے متقاضی ہیںکہ پاکستان کشمیریوں کی آواز بن کرعالمی سطح پر نتیجہ خیز جدوجہد کی طرف قدم بڑھائے۔

پاکستان میں حکمران اشرافیہ کے بعض غلط فیصلوں، طرز عمل اور مصلحت و سیاسی تقاضوں و مفادات جیسے معاملات کو اولیت دینے سے ایک نیا طبقہ وجود میں آ رہا ہے اور یہ طبقہ دوعملی، نظریاتی کنفیوژن کی وجہ خود احتسابی کی صلاحیت سے محروم ہے لیکن یہ ریاستی اور معاشی امور پر اثرانداز ہورہا ہے جس کی وجہ سے ملک میں عدم برداشت کا ایک خطرناک کلچر پروان چڑھ رہا ہے جس کی نشاندہی کی بھی ضرورت نہیں، اس لیے کہ اب یہ جادو سر چڑھ کر بولنے لگا ہے چونکہ اس سارے عمل میں حسب سابق مذہب کا تڑکا لگا کر اسے دو آتشہ کرنے کی کوششیں ہوتی ہیں۔

اس لیے لامحالہ دین اور مذہب کو موضوع بحث بنا لیا جاتا ہے جس کے باعث اس کی حساسیت، جواز اور انسداد کا سارا عمل مشکل، پیچیدہ اور جذباتی بن جاتا ہے، ہمارے تئیں قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد کا ایک مرتبہ پھر جائزہ لیا جائے اور اس کے طے شدہ نکات کی فہرست باقی و نامکمل معاملات کو نمٹانے کی سعی ہو تو حالات پر قابو رکھنے میں آسانی ہونے کے ساتھ ساتھ عالمی برادری اور اداروں کے تحفظات کو بھی ممکنہ طور پر کم کیا جا سکے گا۔

پاکستان میں دہشت گردی اور انتہا پسندی سے نکلنے کے لیے ہم سب کو سیاسی، عسکری،سماجی اور نظریاتی سطح پر اپنے اپنے حصے کا کردار ادا کرنا ہوگا۔ان حلقوں کو ان لوگوں کی اصلاح کا بیڑا بھی اٹھانا ہو گا جو بوجوہ تشدد پسندی اور حالیہ لڑائی کا حصہ بن چکے ہیں اور ان کو لاعلمی یا مجبوری کے باعث استعمال کیا جا رہا ہے۔

مگر بات پھر وہی آ جاتی ہے کہ یہ سب کچھ اس وقت تک عملاًممکن نہیں جب تک تمام طبقوں اور رائے عامہ کو اس جنگ کے منفی اثرات اورخطرناک نتائج کا احساس اور ادراک نہیں ہو جاتا۔ بحیثیت قوم ہماری خواہش اور دعا ہے کہ ملک میں امن کا دور دورہ ہو' امن ہماری پہلی ترجیح ہونی چاہیے اس کے قیام کے لیے کوئی بھی طریقہ اختیار کیا جائے، تمام عناصر کو اس کی مکمل سپورٹ کرنی ہو گی۔

خطے میں پائیدار امن و استحکام کے ان روشن امکانات سے خاطر خواہ استفادہ کرنا اور پاکستان کی ترقی و خوشحالی کو یقینی بنانا موجودہ حکمرانوں کی صلاحیتوں کا امتحان ہے۔ اس مقصد کے لیے قومی سطح پر موجودہ افتراق و انتشار کا خاتمہ اور اتحاد و یگانگت کا فروغ ناگزیر ہے، اس کے لیے موثر اقدامات میں تاخیر قومی مفاد کے منافی ہوگی، اس ناسور کے مکمل خاتمے کے لیے نیشنل ایکشن پلان پر عملدر آمد وقت کی اہم ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں