پاکستان کے قلندرز

سلیم خالق  پير 28 مارچ 2022
جو کام پی سی بی نہیں کر سکا وہ ایک فرنچائز نے کر دکھایا۔ فوٹو : فائل

جو کام پی سی بی نہیں کر سکا وہ ایک فرنچائز نے کر دکھایا۔ فوٹو : فائل

’’بھائی آپ سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں،آپ ابھی زمان خان کے پاس جا رہے ہیں،وہ کچے مکان میں رہتا ہے،میری گذارش ہے کہ اب اس کو پکا گھر بنوا دیں ‘‘

آزاد کشمیر کے علاقے چک سواری جاتے ہوئے ٹیم کے سی او او ثمین رانا کو شاہین شاہ آفریدی کی فون کال موصول ہوئی اور انھوں نے فورا ہاں میں جواب دے دیا، ٹیم کے سی ای او عاطف رانا اور کوچ عاقب جاوید نے بھی کہا کہ بالکل ہمیں ایسا کرنا چاہیے۔

اب ذرا پی ایس ایل کی جانب چلتے ہیں،ایک میچ میں عمدہ کارکردگی پر شاہین آفریدی کو 5لاکھ روپے کا انعام ملا،انھوں نے اسی وقت ساری رقم سپورٹ اسٹاف میں تقسیم کر دی،یہ دونوں واقعات مجھے عاقب بھائی نے سنائے،شاہین کی بولنگ کا تو میں پہلے ہی فین تھا اب بطور انسان بھی ان سے متاثر ہوں،کرکٹرز کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ کسی پر ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کرتے مگر ایک بندہ اپنے ساتھیوں کیلیے اتنا سوچ رہا ہے۔

اس میں کوئی تو بات ہوگی شاید یہی خوبیاں شاہد آفریدی کوبھی بھا گئی ہوں گی اسی لیے انھیں داماد بنانے کا فیصلہ کر لیا،اگر اس بار قلندرز ٹائٹل جیتے تو اس میں شاہین کو قیادت سونپنے کے فیصلے کا اہم کردار ہے، میں اس فرنچائز کے ویژن اور صبر سے بڑا متاثر ہوں،ایونٹ کی مہنگی ٹیموں میں شامل ہونے کے باوجود اس کی کارکردگی ابتدائی ایڈیشنز میں انتہائی مایوس کن رہی،آخری نمبر پر آنے کی وجہ سے قلندرز پر بے تحاشا میمز بنائی گئیں۔

کوئی اور ہوتا تو اتنی ناکامیوں اور نقصان کے بعد شاید فرنچائز بیچ کر کسی اور کام میں پیسہ لگاتا،شعیب اختر جیسے لوگوں نے ٹیم خریدنے کیلیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا لیکن ناکام رہے،پی ایس ایل کے بعد بیشتر ٹیمیں سو جاتی ہیں پھر اگلے ایڈیشن سے ایک ماہ قبل انھیں اسپانسر شپ وغیرہ کے لیے پھر سے جاگنا پڑتا ہے،البتہ قلندرز کے ساتھ ایسا نہیں ہے۔

انھوں نے بڑے بڑے ناموں کو ٹیم میں لیا مگر ہارتے رہے ایسے میں خیال آیا کہ ہم خود اپنے کھلاڑی پروڈیوس کریں گے، شہر شہر ان کے ٹیلنٹ ہنٹ ٹرائلز کو دیکھ کر لوگ کہتے تھے کہ یہ صرف تشہیری حربہ ہے،پھر جب ہائی پرفارمنس سینٹر بنایا گیا تو بھی کسی نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا،مگر جب شاہین اور حارث جیسے کھلاڑی اپنی کارکردگی کا لوہا منوانے لگے تو لوگوں کو سمجھ آنے لگا کہ قلندرز کام کیا کر رہے ہیں،میں عاقب جاوید کو داد دوں گا کہ ہر بار ناقص کارکردگی پر سب سے زیادہ تنقید انہی پر ہوتی تھی مگر وہ ڈٹے رہے،ٹیم مالکان کو بھی کریڈٹ جاتا ہے۔

جنھوں نے ان پر اعتماد برقرار رکھا،اب وہ وقت آ گیا کہ وہی عاقب جاوید ٹرافی لیے سب کو پیغام دے رہے ہیں کہ ایک ٹرافی تو تم میرے ہاتھوں میں دیکھ رہے ہو دیگر کئی گولڈن ٹرافیز ہمارے تیار کردہ پلیئرز ہیں۔ قلندرز اپنے کھلاڑیوں کو اون کرتے ہیں یہی ان کی سب سے بڑی خوبی ہے،میں نے شاہین کی مثال دی لیگ کے دوران اور بھی کھلاڑی انعامات وصول کرتے رہے۔

ایک بار میں نے عاقب بھائی سے مذاق میں کہا کہ ‘‘یہ آپ نے کیا نیلام گھر بنایا ہوا ہے،ہر میچ کے بعد کھلاڑیوں میں آئی فون،آئی پیڈ وغیرہ تقسیم کرتے ہیں’’میری بات پر ان کا کہنا تھا کہ ‘‘چند ینگسٹرز کو چھوڑ کر ان میں سے بیشتر کرکٹرز کروڑ پتی ہیں،ان کے لیے یہ چیزیں اتنی اہمیت نہیں رکھتیں مگر پھر بھی وہ اسے ایک مقابلہ سمجھ کر اچھی پرفارمنس کے لیے جان لڑا دیتے ہیں،یہی ہم ان سے چاہتے ہیں’’ رواں برس پی ایس ایل کا ساتواں ایڈیشن ہوا،گذشتہ 6برسوں میں ٹرافی اتنے ہاتھوں میں نہیں گئی ہوگی جتنی قلندرز کے فاتح بننے پر گئی۔

آپ سوچیں لنڈی کوتل میں جب شاہین شاہ آفریدی کے گھر پر ٹرافی گئی تو اس علاقے کے کتنے بچوں نے سوچا ہوگا کہ ہم بھی بڑے ہو کر کرکٹر بنیں گے، مردان میں فخر زمان کے گھر پر جب ٹیم مینجمنٹ پہنچی تو ان کے والدین اپنے بیٹے کی کامیابیوں پر کتنے خوش ہوئے ہوں گے۔

اسلام آباد میں حارث رؤف کے گھر والوں کی ویڈیو میں نے دیکھی سب خوشی سے سرشار تھے،اسی طرح چک سواری کے کچے گھر میں رہنے والے زمان خان کو جب پکا مکان بننے کی خوشخبری ملی تو وہ کیسے اپنے آنسو روک پاتے،ملک بھر میں اتنے ٹرافی ٹورز ہو چکے کہ شاید ورلڈکپ1992کی ٹرافی کے بھی نہیں ہوئے ہوں گے،عموماً جب کوئی ٹیم ایسا ایونٹ جیتے تو ٹرافی صدر،وزیر اعظم یا دیگر اعلی شخصیات کے پاس لے جانے کی کوشش ہوتی ہے،قلندرز اسے عوام تک لے کر گئے۔

ایک عام کرکٹ شائق اپنے سامنے شوکیس میں بند ٹرافی دیکھنے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتا تھا لیکن اس نے ہاتھوں میں تھام کر تصویر بنائی،قلندرز ٹرافی کالجز، یونیورسٹیز، یتیم خانے اور تھلیسیما کے مریض بچوں کے پاس لے کر گئے،ایسا میں نے تو کبھی پہلے نہیں دیکھا،اس جشن سے پی ایس ایل کو مزید بڑا پروڈکٹ بنانے میں مدد ملے گی۔

جو کام پی سی بی نہیں کر سکا وہ ایک فرنچائز نے کر دکھایا،لاہور کو پاکستان کا دل کہا جاتا ہے اس نے واقعی سب کو اس میں سمو لیا ہے،دیگر فرنچائزز کو بھی سبق سیکھنا چاہیے،اگر ہمیں لیگ کو اور بڑا برانڈ بنانا ہے تو اس کے لیے سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا،ٹورنامنٹ کے بعد ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہ بیٹھیں بلکہ ملکی کرکٹ کے فروغ میں اپنا کردار ادا کریں۔

نئے ٹیلنٹ کی تلاش کا کام کریں،ایک ٹیم 6 سال ہار کر بھی سب سے بڑا برانڈ بنی ہوئی تھی اب جیت کر کیا کرے گی یہ تو شاید ہم سوچ بھی نہیں سکتے، قلندرز کے گانے کے بول ہیں ‘‘تیری جیت میں میں جیتوں میری میں پاکستان’’واقعی ایسا ہی ہوا ہے،قلندرز کی جیت کا پورے پاکستان نے ہی جشن منایا اور یہی ان کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔