- نااہل حکومتیں پہلے بھی تھیں، آج بھی ہے:فیصل واوڈا
- ایران نے چابہار بندرگاہ کے ایک حصے کا انتظام 10 سال کیلئے بھارت کے حوالے کردیا
- مظفرآباد صورت حال بدستور کشیدہ، فائرنگ سے دو مظاہرین جاں بحق اور متعدد زخمی
- پاکستان اور امریکا کا ٹی ٹی پی اور داعش خراسان سے مشترکہ طور پر نمٹنے کا عزم
- سینٹرل ایشین والی بال لیگ میں پاکستان کی مسلسل تیسری کامیابی
- نئے قرض پروگرام کیلیے پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات شروع
- آئین معطل یا ختم کرنے والا کوئی بھی شخص سنگین غداری کا مرتکب ہے، عمر ایوب
- آئی سی سی نے پلیئر آف دی منتھ کا اعلان کردیا
- آزاد کشمیر عوامی ایکشن کمیٹی کا نوٹیفکیشن دیکھنے تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلان
- خواجہ آصف کا ایوب خان پر آرٹیکل 6 لگانے اور لاش پھانسی پر لٹکانے کا مطالبہ
- سعودی عرب اور خلیجی ممالک میں کام کرنے والے پاکستانی ڈاکٹروں کیلئے خوشخبری
- پاک فوج کے شہدا اور غازی ہمارے قومی ہیرو ہیں، آرمی چیف
- جامعہ کراچی میں فلسطینی مسلمانوں سے اظہاریکجہتی کیلیے ’’دیوار یکجہتی‘‘ قائم
- نان فائلرز کی سمیں بلاک کرنے کیلیے حکومت اور ٹیلی کام کمپنیاں میں گروپ بنانے پر اتفاق
- 40 فیصد کینسر کے کیسز کا تعلق موٹاپے سے ہوتا ہے، تحقیق
- سیکیورٹی خدشات، اڈیالہ جیل میں تین روز تک قیدیوں سے ملاقات پر پابندی
- سندھ میں گندم کی پیداوار 42 لاکھ میٹرک ٹن سے زائد رہی، وزیر خوراک
- انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر گر گئی
- برازیل میں بارشوں اور سیلاب سے ہلاکتیں 143 ہوگئیں
- ہوائی جہاز میں سامان رکھنے کی جگہ پر مسافر خاتون نے اپنا بستر لگا لیا
کولمبیا میں دریائی گھوڑوں کو ’’حملہ آور جانور‘‘ قرار دے دیا گیا
بگوٹا: کولمبین حکومت نے دریائی گھوڑوں (ہپوپاٹومس) کو حملہ آور جانور قرار دے دیا کیونکہ ان سے مقامی مچھیروں، انسانی آبادیوں اور جانوروں کو خطرات لاحق ہیں۔
واضح رہے کہ دریائی گھوڑوں کا اصل وطن افریقہ ہے، تاہم گزشتہ چند صدیوں کے دوران انہیں دنیا کے بیشتر ممالک میں واقع چڑیا گھروں میں پہنچایا جاچکا ہے۔
البتہ کولمبیا کا بدنامِ زمانہ منشیات فروش پابلو ایسکوبار آج سے تقریباً چالیس سال پہلے، صرف چار دریائی گھوڑوں کو اپنے چڑیا گھر میں رکھنے کےلیے یہاں لایا تھا جو اس نے دریائے میگڈالینا کے کنارے پر کھلی فضا میں بنایا تھا۔
یہاں آزادی سے گھومتے پھرتے دریائی گھوڑوں نے اپنی نسل بہت تیزی سے بڑھائی اور صرف چند سال میں ان کی تعداد سیکڑوں میں پہنچ گئی۔
اپنے بھاری بھرکم جسم اور خوش خوراکی کے باعث، دریائی گھوڑوں نے مقامی جانوروں کےلیے پریشانیاں کھڑی کرنا شروع کردیں جبکہ دریا کے کناروں پر رہنے والوں کو بھی ان سے خطرات لاحق رہنے لگے کیونکہ ایک طرف مچھیروں کےلیے مچھلیاں پکڑنا مشکل ہوگیا تو دوسری جانب دریا سے متصل مقامات پر کھیتی باڑی کرنے والے کسانوں کو بھی نقصان ہونے لگا۔
انہی عوامی شکایتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کولمبین حکومت نے پہلے پہل تو نر دریائی گھوڑوں کو مار کر ان کی نسل آگے بڑھنے سے روکنا چاہا لیکن پھر بھی ان کی تعداد میں نمایاں کمی نہیں ہوسکی۔
اب نئے اقدامات کے تحت کولمبین حکومت نے دریائی گھوڑوں کو باضابطہ طور پر ’’حملہ آور نوع‘‘ (invasive species) میں شامل کرتے ہوئے ان کی تعداد کم کرنے اور انہیں کچھ مخصوص علاقوں تک محدود کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
البتہ، یہ کام عالمی اداروں کے تعاون سے کیا جائے گا تاکہ دریائی گھوڑوں کا بے دریغ قتلِ عام بھی نہ ہو اور ان کی آبادی بھی قابو میں رہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔