نجات کا راستہ شفاف الیکشن

اطہر قادر حسن  بدھ 6 اپريل 2022
atharqhasan@gmail.com

[email protected]

ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال میںجس قدر تیزی سے تبدیلی آرہی ہے، اخباری کالم اس کا ساتھ نہیں دے سکتا کیونکہ آج کا لکھا کل شایع ہو گا اور کل کاعلم نہیں سیاسی میدان میں کیا نئی تبدیلی وقوع پذیر ہو جائے۔

متحدہ اپوزیشن کی حکومت مخالف تحریک کا ایجنڈا عمران خان کی حکومت کا خاتمہ تھا۔ اپوزیشن قائدین سے جب بھی یہ سوال کیا گیا کہ کیا وہ الیکشن بھی مل کر لڑیںگے تو ان کا جواب یہ ہوتا تھا کہ وہ عمران حکومت کی رخصتی کے یک نکاتی ایجنڈے پر متفق ہیں، عام انتخابات وہ اپنی اپنی پارٹی کے جھنڈے تلے لڑیں گے۔

اب اپوزیشن کے ایجنڈے پرحکومت نے از خود عمل درآمد کر دیا ہے اور ایک آئینی شق کاحوالہ دے کر ڈپٹی اسپیکر نے وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو مسترد کر دیا جس کے بعد وزیر اعظم نے ازخود کارروائی کرتے ہوئے صدر مملکت کو اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری بجھوا دی اور صدر صاحب نے کوئی دیر کئی بغیر اس سمری پر دستخط کردیے۔

یوں قومی اسمبلی کا وجود ختم ہو گیا اور اپوزیشن کی جانب سے اب معاملہ ملک کی اعلیٰ عدالت میںزیر سماعت ہے اور تادم تحریر عدالت نے اس معاملہ پر کوئی فیصلہ نہیں دیا۔

عمران خان کی دنیا بھر میں شہرت ایک کرکٹر کے طور پر رہی ہے، وہ کرکٹ سے ایک رفاہی منصوبے کی تعمیر کے بعد سیاست میں آئے اور بلا شبہ کئی برسوں کی جد وجہد کے بعد وہ حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے۔ عمران خان کبھی تو ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے مارشل لاء کی حمایت کرتے نظر آئے تو کبھی ان کو نواز شریف نے اس بات پر مجبور کر دیا کہ وہ انتخابات کا بائیکاٹ کر دیں۔

وہ تو بھلا ہو ان دوستوں کا جنھوں نے لاہور میں ایک تاریخی جلسے کے ذریعے تحریک انصاف میں ایک نئی روح پھونک دی اور سیاست کے آغاز میں جوتحریک انصاف دبی دبی رہی اس کو تیسری سیاسی قوت میں بدل دیا اور عمران خان پاپولر سیاسی لیڈر کے روپ میں سامنے آئے حالانکہ ان کے اس وقت کے ساتھی اس فکرمیں رہے کہ ان کا سیا سی مستقبل کیا ہوگا کیونکہ عمران خان اس وقت تک کوئی بڑی انتخابی کامیابی حاصل نہیں کرسکے تھے۔

عمران خان کی نوجوانوں میں مقبولیت بہت تھی اور ہے اور ایسی عوامی مقبولیت ایک مدت کے بعد کسی لیڈر کے حصے میں آئی ہے۔ ادھر عوام ماضی کے بدترین حالات میں تبدیلی کے خواہشمند تھے، عوام کا رد عمل عمران خان کی صورت میں سامنے آیا جسے پوری قوم نے خوشی سے قبول بھی کیا کہ ان کے ساتھ ناانصافیاں کرنے والوں سے چھٹکارے کی کوئی صورت تو نکلی ہے ۔

قارئین کو اگر یاد ہو تو عمران خان نے ایک زبردست ایڈوینچر بھی کیا تھا اور وہ امریکی ڈرون حملوں کے خلاف ایک بڑا قافلہ لے کر قبائلی علاقوں کو نکل گیا تھا۔ اس کے علاوہ انھوںنے پشاور کے قریب نیٹو کنٹینرز کا راستہ بھی روکے رکھا۔

اس مظاہرے کو پوری دنیا کے میڈیا نے رپورٹ کیا تھا اور پاکستانی بھی دم بخود اس کو دیکھتے رہے تھے۔ یہی عمران خان کی وہ جرات تھی جس کو قبول نہیں کیا گیا ،اس سفر سے تو وہ بچ بچا کر واپس آگیا لیکن اپنے اس فیصلے اور حرکت کے اثرات وہ آج بھگت رہا ہے۔

عمران خان کی سیاسی میدان میں کامیابیاں اس کی نیک نیتی کی مرہون منت ہیں لیکن انتخابی سیاست سے نا بلد ہونے کے باعث اس سے کچھ ایسی غلطیاں بھی ہوئیں جو آج اس کے سامنے آئیں تو وہ یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو گیا کہ الیکشن میں ٹکٹ تقسیم کرنے میں اس سے کوتاہی ہوئی اور اقتدار کے حصول کے لیے جن الیکٹیبلز پر تکیہ کیا تھا وہی پتے موقع آنے پر ہوا دینے لگے ۔

عمران خان کہتے ہیں کہ آیندہ انتخابات میں وہ خود ٹکٹ تقسیم کریں گے اور صرف پار ٹی سے وفادار لوگوں کو ٹکٹ دیے جائیں گے اور عوام ہمارے امیدواروں کو الیکٹبلز بنائیں گے۔ عمران خان حکمرانی میں ٹھوکریں کھانے کے بعد ایک پختہ سیاستدان کے روپ میں سامنے آیا ہے اس کے ساتھی جو شروع میں اپنے سیاسی سفر کے لیے فکر مند رہتے تھے، آج تحریک انصاف میں جم کر کھڑے ہیں ۔

بہر حال ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال کے تناظر میں ملکی وحدت اور معاشی استحکام کا واحد راستہ شفاف الیکشن ہیں، یہ وہ واحد ایجنڈہ ہے جس پر ملک کی تمام اپوزیشن جماعتیں متحد ہیں لیکن وہ یہ الیکشن اصلاحات کے بعد چاہتی ہیںتا کہ ان کی مرضی و منشا کے مطابق الیکشن کے قوانین طے کیے جا سکیں ۔ عمران خان کی حکومت نے بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دے کرووٹنگ کے لیے جن مشینوں کا استعمال کرنے کا اعلان کیا ہے۔

وہ اپوزیشن جماعتوں کو قابل قبول نہیں ہے اور امید یہی کی جارہی ہے کہ آنے والے انتخابات میں ان مشینوں کا استعمال نہیں کیاجائے گا۔ وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں حکومت کے جو دوست کھل کر مخالفت میں سامنے آئے ہیں ان میں سر فہرست جہانگیر خان ترین اور علیم خان ہیں جن کی وجہ سے ماضی میں تحریک انصاف کی حکومت اپوزیشن کے حملوں کی زد میں رہی اور یہ الزامات لگتے رہے کہ عمران خان اپنے دوستوں کو احتساب کے شکنجے سے نکال رہے ہیں۔

اب یہ دونوں حضرات اپنے عمل سے اس کی نفی کر رہے ہیں اور عوام کو بتلا رہے ہیں کہ ان کے دوست عمران خان نے ان کو کس قدر تنگ کر رکھا تھا۔ چوہدری سرور صاحب آیندہ کی گورنری پکی کرنے کے چکر میں رخصت ہو ئے ہیں اور الزامات کا پنڈورہ بکس کھول رہے ہیں جب کہ اس ساری واردات میںاصل نقصان چوہدری خاندان کا ہوا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔