یہ ڈرامہ نہیں چلے گا

اشفاق اللہ جان ڈاگیوال  جمعرات 19 مئ 2022
ashfaqkhan@express.com.pk

[email protected]

شادی میں کھانا پکانے کے لیے ایک نائی کو بلایا گیا۔ اسے مینیو بتایا گیا اور اس کے مطابق ضرورت کا تمام سامان مہیا کر دیا گیا۔ کسی کو خبر نہیں تھی کہ نائی کھانا پکانے کا ماہر نہیں بلکہ اناڑی ہے، اس نے علی الصبح ہی کھانا بنانا شروع کردیا، دوپہر کو جب بارات آنے کا وقت ہوا ، اس نے دیکھا کہ اس سے تو تمام دیگیں خراب ہوگئی ہیں۔

نائی اس صورتحال پر شدید پریشان تھا کہ مالکان کو کیسے بتایا جائے اور یہاں سے کیسے نکلا جائے۔ اس کے دماغ میں ایک آئیڈیا آیا، اس نے جاکر مالک سے کہا کہ بارات والوں کو منع کریں کہ وہ کسی قسم کی کوئی آتش بازی نہ کریں، اگر انھیں اس کام سے نہ روکا گیا تو دیگوں میں موجود کھانا جل جائے گا۔ اب مالک بہت پریشان ہوا کہ نائی نے انھیں کس مصیبت میں ڈال دیا ہے۔

باراتیوں کو آتش بازی سے کیسے روکیں؟ اسی کشمکش میں بارات آگئی، خوب ڈھول ڈھمکا، باجوں گاجوں کے ساتھ بھنگڑا ڈالتے ہوئے باراتی آگے بڑھ رہے تھے، جیسے ہی بارات پنڈال کے پاس پہنچی، ایک باراتی نے پٹاخہ چلا دیا۔ نائی نے اپنا صافہ کندھے پر رکھا اور یہ کہہ کر چل دیا، کھانا خراب ہونے میں میرا کوئی قصور نہیں، میں نے پہلے خبردار کردیا تھا۔ مجھے لگتا ہے ہم پاکستانیوں کے ساتھ بھی یہی ہوا۔

ایک اناڑی کو مسند اقتدار پر لاکر بٹھایا گیا جس نے قوم کو احتساب کا لالی پاپ دیا، کروڑوں نئی نوکریوں اور نئے گھروں کا جھانسہ دیا، معاشی استحکام کے خواب دکھاتا رہا اور جب اسے نکالنے کا وقت ہوا تو ’’نیوٹرلز‘‘ کو مخاطب کرکے کہتا رہا کہ” مجھے نکالا گیا تو معیشت بیٹھ جائے گی”۔ نائی کے پٹاخے والی بات اور خان کی معیشت والی بات میں بڑی مماثلت ہے، طریقہ واردات بھی ملتا جلتا ہے۔ جب پانی سر سے گزر گیا تو باراتی گھر والے سرپکڑ کر بیٹھ گئے، یہاں نیوٹرلز اور عوام۔ دیگوں کے جلنے کی اصل وجہ یہ تھی کہ نائی بچارا خاندانی نائی نہیں تھا اس پر اگلے کالم میں بات کر ینگے۔

سب سے بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ عمران خان کی قوم یوتھ آج بھی اس بات پر یقین کیے بیٹھی ہے کہ دیگیں پٹاخہ چلانے سے ہی خراب ہوئی ہیں۔ حالانکہ تبدیلی ایک سراب تھی، جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا، لیکن خان کی قوم یوتھ آج بھی اسے حقیقت ہی مان رہی ہے،اب انھیں کون سمجھائے کہ اگر تبدیلی حقیقت تھی تو وہ صرف تونسہ کے بزدار کے لیے تھی، اگر تبدیلی حقیقت تھی تو وہ صرف پاک پتن کے مانیکا کے لیے تھی، اگر تبدیلی حقیقت تھی تو وہ صرف فرح گجر کے لیے تھی جنہوں نے اس تبدیلی سے اربوں روپے کمائے اور نکل گئے۔

اور اگر تبدیلی حقیقی تھی تو وہ تبدیلی سرکار کے وزرا کے لیے جن کے اثاثوں میں کئی گنا اضافہ ہوا۔ کپتان کی یوتھ سوشل میڈیا پر اپنے مخالفین کو گالیاں دینے، سڑکوں پر اپنی ہی حکومت کے خاتمے کا جشن منانے میں مصروف ہے۔ یہ وہ نوجوان ہیں جنہوں نے شائد اپنے والدین کی سچی باتیں اتنی نہ مانی ہوں جتنی عمران خان کی جھوٹی باتوں کا یقین کیا ہے۔ مجھے اپنے ملک کی اس نوجوان نسل کی بے حد فکر ہے، جسے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت گمراہ کردیا گیا ہے۔

اسے حقائق سے آشنا کرنا اور واپس قومی دھارے میں لانا میری، آپ کی، ہم سب کی ذمے داری ہے اور سب سے بڑی ذمے داری اس ملک کی سیاسی جماعتوں اور سیاسی قیادت کی ہے۔ ملکی معیشت تو سنبھل ہی جائے گی لیکن اس وقت سب سے بڑا چیلنج میرے ملک کو اس نسل نو کو تباہی کے دہانے سے واپس لانا ہے۔ جنھیں اسلام کے نام پر ورغلایا جا رہا ہے، جنھیں قرآنی آیات اور احادیث سنا کر اپنے جال میں پھنسایا جارہا ہے۔

ایسا لگتا ہے جیسے پاکستان تحریک انصاف اپنے نئے ایجنڈے کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اسلام کی غلط تشریحات کرکے یہ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ ان میں سے کچھ لوگوں کا طریقہ واردات یہ ہے کہ اپنی گفتگو کا آغاز درود پاک سے کرتے ہیں اور پھر جھوٹ پر جھوٹ بولتے چلے جاتے ہیں کوئی انھیں پوچھنے والا نہیں۔ کہیں یہ اپنا کوئی’’فرقہ‘‘ لانچ کرنے تو نہیں جارہے؟ خان نے کے پی کے میں ایک جلسے میں ایک حدیث مادینک (تیرادین کیاہے) کی جگہ من دینک (تیرادین کون ہے) کہہ دیا اور پھر اس کی تشریح میں تحریک انصاف کوصداقت کا معیار ٹھہرا دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ رب العزت کی رسی بڑی دراز ہے مگر پکڑ بہت سخت ہے۔

خان صاحب سیاسی توازن کھو چکے ہیں، پہلے دن سے واویلا کررہے ہیں کہ مجھے امریکا نے نکالا۔ قوم حیران ہے کہ’’عمران خان کے سڑکوں پر امریکی غلامی کے خلاف نعرے خوش آئند ہیں لیکن ساڑھے تین سال میں پارلیمنٹ میں ان کی حکومت نے امریکا کی غیر مشروط غلامی اختیار کی، کاش عمران خان نے لیٹر کے ایشو پر امریکی سفیر کو نکالا ہوتا‘‘۔ یا کم ازکم امریکی شہریت رکھنے والے درجنوں مشیروں کو کہہ دیتے کہ جلا دو امریکی پاسپورٹ اور گرین کارڈ مگر ان کے امریکی مریدین و عاشقان نے تو پاکستان کے پاسپورٹ اور جھنڈے جلا دئے‘ اب خان تو خان ہے ان سے نہ کوئی پوچھ سکتا ہے نہ سمجھا سکتا ہے۔

کوئی خان صاحب کو یاد کرائے کہ آپ کے پاس تو سادہ سی اکثریت بھی نہیں تھی نجانے کن شرائط پر انھیں ساتھ ملایا جو سب کے سب ساڑھے تین برس کے بعد حکومت سے باہر آگئے، اس میں امریکا کہاں سے آگیا۔خان صاحب آپ نے ان ساڑھے تین برسوں میں ناصرف اپنے اتحادیوں کو ناراض و رسوا کیا بلکہ قوم پر مہنگائی کا عذاب بھی مسلط کیا۔ ساڑھے تین سال میں پیٹرول60 سے 160 کا ہو گیا مگر عمران خان کے خلاف سازش امریکا نے کی، روٹی7 سے15 کی ہو گئی مگر عمران خان کے خلاف سازش امریکا نے کی، قرضہ 25 ہزار ارب سے 50 ہزار ارب ہو گیا مگر عمران خان کے خلاف سازش امریکا نے کی۔

ڈالر123سے187.50کا ہو گیا مگر عمران خان کے خلاف سازش امریکا نے کی، چینی 55 سے 110 کی ہو گئی مگر عمران خان کے خلاف سازش امریکا نے کی۔ گھی 170 سے ساڑھے چار سو روپے فی کلو کا ہو گیا مگر عمران خان کے خلاف سازش امریکا نے کی۔ آٹا 35 سے 75 کا ہو گیا مگر عمران خان کے خلاف سازش امریکا نے کی۔سونا 50 ہزار سے سوا لاکھ روپے تولہ ہو گیا مگر عمران خان کے خلاف سازش امریکا نے کی۔ حج ڈھائی لاکھ سے 8 لاکھ کا ہو گیا مگر عمران خان کے خلاف سازش امریکا نے کی۔

سیمنٹ کی بوری 450 سے 950 کی ہو گئی مگر عمران خان کے خلاف سازش امریکا نے کی… کہاں تک سنو گے، کہاں تک سنائیں گے؟ خان صاحب حقیقت میں یہ وہ کارکردگی تھی جس نے آپ کو اقتدار سے نکالا۔ اب آپ اقتدار سے محرومی کا صدمہ برداشت نہیں کررہے، ملک کو انارکی کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں، عوام اور فوج کو آمنے سامنے لانا چاہتے ہیں، خان صاحب آپ جب سے ایوان اقتدار سے نکلے ہیں آپ نے قوم کو سازشی خط ، میر جعفر، میر صادق کے متعلق بہت کچھ بتایا‘ نہیں بتایا تو گزشتہ 4 سالہ تبدیلی سرکار کی حکومتی کارکردگی کے بارے میں نہیں بتایا حالانکہ قوم آپ سے آپکی کارکردگی کا پوچھ رہی ہے اور آپ آئیں بائیں شائیں کر رہے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں پی ٹی آئی کے ٹائیگرز اور ٹائیگرسز آپ سے محبت کرتے ہیں آپ سری لنکا کی کہانیاں سنا کر ان کو خانہ جنگی پر اکساتے ہیں۔ خان صاحب ہوش کے ناخن لیں یہ پاکستان ہے پاکستان، سری لنکا نہیں، اللہ نہ کرے یہاں آپ نے وہ حالات پیدا کر دئے تو پھر صرف آپ کے مخالفین کے گھر نہیں جلیںگے بلکہ کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ مولانا فضل الرحمن صاحب پر 3 خطرناک خودکش حملے ہوئے، گھر پر بموں سے حملہ ہوا، گاڑی پر فائرنگ ہوئی، مگر مولانا صاحب نے آج تک نہیں کہا کہ میری زندگی کو خطرہ ہے۔ خان صاحب آپ پر آج تک کسی نے ایک پٹاخہ بھی نہیں پھینکا مگر آپ نے کہنا شروع کر دیا کہ “میری زندگی کو خطرہ ہے”۔

خان صاحب خدا را بس کریں۔ آپ کا کوئی کارڈ اب نہیں چلے گا کیونکہ قوم سب جان چکی ہے کہ کھانے کی دیگیں کیسے جلیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔