ارکان پنجاب اسمبلی نے وزیراعلیٰ کے الیکشن کو جعلی کہا تو توہین عدالت لگے گی، لاہور ہائیکورٹ

ویب ڈیسک  جمعرات 19 مئ 2022
(فوٹو: فائل)

(فوٹو: فائل)

 لاہور: لاہور ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ اگر پنجاب اسمبلی کے ارکان نے ہمارے سامنے وزیراعلیٰ کے انتخاب کو جعلی کہا تو ان پر توہین عدالت لے گی کیوں کہ الیکشن کروانے کا حکم دو رکنی بنچ نے دیا تھا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق جسٹس صداقت علی کی سربراہی میں لاہور ہائی کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بنچ نے حمزہ شہباز کی حلف برداری کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس اور پی ٹی آئی کے وکیل امتیاز صدیقی عدالت میں پیش ہوئے۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے کہا کہ حمزہ شہباز غیر قانونی اور غیر آئینی وزیر اعلی ہیں، آرٹیکل 69 کے تحت اسمبلی کی کارروائی میں مداخلت نہیں ہوسکتی جس پر عدالت نے کہا کہ لیکن اب سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ آ چکا ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ایک ونڈو اوپن ہو گئی ہے اور گورنر یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ حلف نہیں لے سکتا۔

تحریک انصاف کے وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ گورنر ریجیکٹ کر سکتا ہے کہ ان وجوہات پر حلف نہیں لے سکتا، گورنر کے پاس جب معاملہ پہنچا تو معاملہ متنازع ہو چکا ہے، پوری دنیا نے دیکھا اسمبلی کے اجلاس میں کس طرح ڈنڈے سوٹے استعمال ہوئے، 23 اپریل کو گورنر عمر چیمہ نے صدر کو رائے لینے کے لیے پہلا خط لکھا۔

عدالت نے کہا کہ آئین تو کہیں نہیں کہتا کہ گورنر صدر سے رائے لے گا جس پر امتیاز صدیقی نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 101 کے تحت گورنر صدر مملکت سے رائے لے سکتا ہے، ڈپٹی اسپیکر نے چیف منسٹر کے الیکشن میں مس کنڈکٹ کیا اور اجلاس ملتوی کیے بغیر ادھورا چھوڑ کر چلا گیا، ڈپٹی اسپیکر زخمی ہو جائے یا کچھ بھی ہو جائے اجلاس چھوڑ کر نہیں جاسکتا۔

تحریک انصاف کے وکیل نے کہا کہ پنجاب اسمبلی کے آدھے ممبران کہتے ہیں الیکشن جعلی ہیں جس پر عدالت نے کہا کہ یہ ہمارے سامنے کہہ دیں تو توہین عدالت لگ جاٸے گی، الیکشن کروانے کا حکم دو رکنی بنچ نے دیا تھا، آپ نے اس فیصلے کو ابھی تک چیلنج بھی نہیں کیا۔

پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ الیکشن کے حکم کے متعلق نہیں کہہ رہے یہ سارا عمل ہی جعلی تھا،  وہاں جو کچھ ہوا اس کی بنیاد پر جعلی کہتے ہیں،  گورنر نٸے الیکشن کے بعد بننے والے وزیر اعلی کا حلف لینے سے انکار نہیں کرسکتا ، گورنر کے پاس سیکریٹری اسمبلی کی رپورٹ آئی اور دیگر مواد آیا۔

امتیاز صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا کہ اب گورنر نے سوچا وہ کیا کرے کیونکہ ایسا سیاپا پہلی بار اس کے سامنے آیا، اب عدالت کو یہ سوچنا ہے کہ گورنر کو سوچنے کے لیے کتنا وقت دینا ہے؟ میرے خیال میں عام معاملے میں بھی گورنر کے پاس سوچنے کا اختیار 24 دن ہے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ ایسے معاملے میں گورنر کتنے دن سوچ سکتا ہے؟ جس پر امتیاز صدیقی نے کہا کہ اس پر آئین خاموش ہے، اس کا فیصلہ عدالت کو کرنا ہے، لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بینچ کے حلف سے متعلق فیصلے آئین کے مطابق نہیں تھے، ایڈووکیٹ جنرل اور اٹارنی جنرل کو مناسب وقت دینا چاہیے تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ حمزہ شہباز کی جانب سے بار بار حلف کے لیے پٹیشن جمع کراانا بد نیتی تھا، وہ گورنر کو سانس نہیں لینے دے رہے تھے کہ گورنر کوئی فیصلہ نہ کرلے۔

دریں اثنا لاہور ہائی کورٹ نے تحریک انصاف کی اپیلوں پر مزید کارروائی 26 مئی تک ملتوی کردی اور تحریک انصاف کے وکیل کو آئندہ سماعت پر دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کردی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔