بُک شیلف

غلام محی الدین / بشیر واثق  اتوار 5 جون 2022
جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔

جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔

 محمد ؐ رسول اللہ

ہمارے ہاں ایک بہت بڑی کوتاہی یہ رہی ہے کہ معاشرے میں علم دوستی کا ماحول پیدا کرنے کے لئے جس اہتمام کی ضرورت ہوتی ہے وہ سرے سے مفقود ہے۔ لوگوں کو علمی اور فکری اعتبار سے باخبر بنانے کے لئے یہ لازم ہے کہ معاشرے میں کتاب کے ساتھ لوگوں کے تعلق کو زیادہ سے زیادہ خوشگوار اور پُرکشش بنایا جائے۔

اپنے بچپن میں ہم اس بات پر احساس کمتری کا شکار رہتے تھے کہ بچوں کے لئے پاکستان میں چھپنے والی کتابیں ہمیں اپنی طرف متوجہ کرنے کے بجائے اُلٹا گریز کا احساس پیدا کرتیں تھیں، جبکہ بیرون ملک سے شائع ہونے والی کتابیں اتنی معیاری ہوتی تھیں کہ اگر انگریزی زبان پڑھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں، پھر بھی کتاب کی تصویریں ہی بچوں کے تخیل کی تسکین اور آبیاری کا کافی سامان فراہم کردیتی تھیں۔

گوکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کتابیں شائع کرنے والے بڑے غیر ملکی ادارے اب اُردو زبان کی کتابوں کو بھی چھاپ رہے ہیں اور پاکستان کے اندر بہت سے ایسے ادارے کھڑے ہوگئے ہیں جو معیاری کُتب شائع کررہے ہیں لیکن دینی کتابوں کے حوالے سے صورتحال سب سے زیادہ قابل توجہ رہی ہے۔

حالانکہ دینی کُتب کو بالخصوص اپنے اسلوب اور پیشکش کے معیار کے حوالے سے اتنا جاذب ’نظر‘ دلکش اور عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا چاہیے کہ اسلوب تحریر اور اشاعت کا انداز پڑھنے والے کو اپنا اسیر بنالے۔ پاکستان میں بہت سی اہم دینی کُتب آج بھی اُسی کتابت کو استعمال میں لاتے ہوئے شائع کردی جاتی ہیں جو پہلی مرتبہ چھاپنے کے لئے کی گئی تھی۔ اسی طرح انداز بیان اور تحریر کا جو اسلوب ماضی میں مروج رہا اُس کو عصر حاضر کے ابلاغی تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جاتی۔

نبی رحمت حضرت محمدؐ کے حالات زندگی‘ آپؐ کی سیرت مبارکہ وہ موضوع ہے جس پر سب سے زیادہ لکھا گیا ہے اور قیامت تک لکھا جاتا رہے گا۔ ایسی ہر کاوش بابرکت ہے اور اس کا اجر رب تعالیٰ کے پاس ہے، لیکن موجودہ دور میں اس بات کی ضرورت شدت کے ساتھ محسوس کی جاتی ہے کہ حضور اکرم ﷺکی زندگی کا احوال اس انداز میں تحریر کیا جائے جو بالخصوص ہماری نئی نسل کو مائل کرنے کے فنی محاسن سے لیس ہو۔ زیر نظر کتاب ’محمد رسول اللہ‘ بالکل اسی طرح کی ایک کاوش ہے جسے مصنف اعجاز احمد نے انتہائی محنت، شوق، محبت اور احترام کے ساتھ لکھا ہے۔

کتاب کے ابتدایئے میں مصنف لکھتے ہیں ’’مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ پیر محمد کرم شاہ صاحب الازہری نے ’ضیا النبیﷺ‘ لکھی تو میں اس کتاب کو پڑھنے والے چند ابتدائی لوگوں میں شامل تھا۔ پیر صاحب سے ملاقات میں‘ میں نے کتاب کی بہتری کے لئے رائے دی۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ میں کتنی بڑی شخصیت کی نہایت اعلیٰ کتاب کے بارے میں رائے کا اظہار کر رہا ہوں۔ انہوں نے گیارہ (11) مقامات پر میری رائے کو مان لیا۔ پیر صاحب نے کمال مہربانی کرتے ہوئے کہا ’’ضیا النبیﷺ میں آپ کا حصہ ہے‘ روز قیامت آپ نے اللہ کریم سے اپنا حصہ مانگنا ہے‘ میں اس کی گواہی دوں گا۔‘‘

مصنف آگے چل کر لکھتے ہیں۔ ’’میں نے کوشش کی ہے کہ پڑھنے والا اپنے آپ کو چودہ سو سال (1400) پہلے کے عرب میں محسوس کرے۔ رسول اللہﷺ کو اپنے سامنے چلتا پھرتا دیکھے۔ اُن حالات و واقعات اور ماحول کو سمجھے۔ رسول اللہ ﷺ کی زندگی کو خود محسوس کرے۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد محسوس کرے کہ میں رسول اللہ ﷺ کے بارے میں پہلے کم جانتا تھا، اب بہت کچھ جان گیا ہوں۔‘‘

کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد انسان اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مصنف کو اس کوشش میں کامیابی عطا کی ہے۔ عصر حاضر کی منفرد روحانی شخصیت پروفیسر احمد رفیق اختر اس کتاب کے بارے لکھتے ہیں ’’اس کتاب میں ایسی توضیحات ہیں جو عمومی کُتب تاریخ میں نہیں ملتیں۔ ایسی ذاتی وضاحتیں جن کی وجہ سے پڑھنے والا اُس زمان و مکان میں پہنچ جاتا ہے اور ہر واقعہ کو رونما ہوتا ہوا محسوس کرتا ہے۔ مصنف دور افتادہ ادیب نہیں بلکہ بہت قریب کے واقعہ نگار لگتے ہیں۔ آپ اس کتاب کو ایسے پڑھیے جیسے مصنف اسے محسوس کرتا ہے۔ ہر نقطہ، ہر جملہ ہمارے سامنے گزرتا ہوا لگتا ہے‘‘۔

کالم نگار اوریا مقبول جان نے کتاب پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے ’’ہر طبقہ فکر اور ہر پیشے سے منسلک افراد کے لئے سیرت کے علیحدہ علیحدہ پہلوؤں پر کتابیں لکھی گئیں لیکن بہت کم کتابیں ایسی ہیں جو آسان زبان میں عام آدمی کے فہم کو سامنے رکھ کر لکھی گئی ہوں۔ اُردو میں شبلی نعمانی کی سیرت النبیﷺ سے لے کر آج تک یہ شعبہ بہت تشنہ تھا۔ اس تشنگی کو اعجاز احمد صاحب نے ایسی خوبصورتی سے ختم کیا ہے کہ دل و روح کو سیراب کردیا ہے‘‘۔

عام آدمی کے لئے مزید آسانی پیدا کرنے کے لئے کتاب کے آغاز میں عربی اصطلاحات، عرب تہذیب اور روایات پر الگ سے رہنمائی فراہم کی گئی ہے۔ پوری کتاب آٹھ ادوار میں منقسم ہے۔ پہلا حصہ قبل از ولادت، اس کے بعد بچپن، جوانی، اعلان نبوت، مشکلات کا دور، مشکل ترین دور، سفر معراج اور آخری حصہ ’ہجرت‘ ہے۔

اس کتاب کی ایک اور منفرد خوبی یہ ہے کہ پوری تحریر میں ایسے الفاظ اور اُردو اصطلاحوں کے سامنے ان کا انگریزی ترجمہ بھی لکھ دیا گیا ہے جن کو سمجھنا ہمارے انگریزی میڈیم لوگوں کے لئے مشکل ہوسکتا ہے۔ کتاب کی پیشکش، کاغذ اور چھپائی کا معیار بہت اعلیٰ ہے جسے ThinKsoft Publications‘ 848-B فیصل ٹاؤن لاہور +92301-1017350 نے شائع کیا ہے۔

نبی رحمت حضرت محمدؐ کے حالات زندگی‘ آپ ؐ کی سیرت مبارکہ وہ موضوع ہے جس پر سب سے زیادہ لکھا گیا ہے اور قیامت تک لکھا جاتا رہے گا۔ ایسی ہر کاوش بابرکت ہے اور اس کا اجر رب تعالیٰ کے پاس ہے، لیکن موجودہ دور میں اس بات کی ضرورت شدت کے ساتھ محسوس کی جاتی ہے کہ حضور اکرم ﷺکی زندگی کا احوال اس انداز میں تحریر کیا جائے جو بالخصوص ہماری نئی نسل کو مائل کرنے کے فنی محاسن سے لیس ہو۔

زیارت رسولﷺ
مصنف :ع ۔م چوہدری، ہدیہ: 1000روپے، صفحات :192
ناشر: قلم فاؤنڈیشن ، یثرب کالونی، بینک روڈ ، والٹن روڈ، لاہورکینٹ (03000515101)

محبوب کبریا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ وجہ وجود کائنات ہیں ، ہر نبی نے آپ ﷺ کا امتی ہونے کی دعا کی ، ہم کتنے خوش نصیب ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ دولت بن مانگے عطا کر دی ۔ انسانیت اللہ تعالیٰ کے احسانوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے، اتنے احسان ہیں کہ انسان اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے لگے تو اس کی ساری عمر اسی میں گزر جائے مگر احسان پھر بھی باقی رہیں گے ۔

اللہ تعالیٰ نے انسانیت پر جو سب سے بڑا اور عظیم احسان کیا وہ یہ ہے کہ اپنے محبوب احمد مجتبیٰ صاحب لولاک ختم الرسل ﷺ کو اس دنیا میں مبعوث فرمایا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’یہ میرا انسانیت پر احسان عظیم ہے ۔‘‘ تو اللہ تعالیٰ نے انسانیت کو اپنے احسانوں کا شکریہ ادا کرنے کا طریقہ بھی یہی بتایا ہے کہ اللہ کا شکر ادا کرو کہ اس نے اپنے محبوب کو تمھارے اندر مبعوث فرمایا ، اور جو آپ ﷺ کے امتی ہیں انھیں تو اللہ تعالیٰ کا اور زیادہ شکر ادا کرنا چاہیے۔

جب آپ ﷺ نے دنیا سے پردہ فرمایا تو یوں لگا کہ امت آپﷺ کی زیارت سے محروم ہو گئی مگر اللہ تعالٰی نے ایسا بندوبست فرما دیا کہ انسانیت آپﷺ کی زیارت سے محروم نہ ہو، درود شریف وہ روحانی کنجی ہے جس سے ہر مسلمان کا رابطہ ہمہ وقت آپﷺ سے رہتا ہے اور جس پر اللہ تعالیٰ کا فضل تمام ہو جاتا ہے اسے آپ ﷺ کی زیارت بھی ہو جاتی ہے۔

حضرت شاہ ولی اللہؒ  بڑے علم و مرتبت والے اور روحانیت میں بلند مقام رکھنے والے بزرگ تھے ، جب وہ مدینہ یونیورسٹی میں بطور معلم اپنے فرائض سرانجام دے رہے تھے تو ان کا معمول تھا کہ وہ آپﷺ کے روضے پر روزانہ حاضری دیتے تھے، آپ کو حضورﷺ کی زیارت ہونا شروع ہو گئی اور گفتگو کا شرف بھی حاصل ہوا جسے آپ نے ’’ فیوض الحرمین ‘‘ کے عنوان سے کتاب کی شکل میں عام لوگوں کے لئے پیش کیا ۔

ایک مسلمان کے لئے آپ ﷺ کی زیارت اس دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہے، ایسے افراد خوش نصیب ہیں کیونکہ یہ نعمت دونوں جہاں کی نعمتوں سے بڑھ کر ہے۔ زیر تبصرہ کتاب کے مصنف خوش قسمت ہیں کہ انھیں یہ سعادت نصیب ہوئی کہ وہ مسلمانوں کی رہنمائی کر فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔

گذری ہوئی دنیا سے
ماضی کے ساتھ انسان کا رشتہ بہت انوکھا ہے۔ اس تعلق کی کہانی ماضی سے جُڑی ادبی و فنی تخلیقات سے لے کر مدفون شہروں کی کھوج اور ٹائم مشین کے تصورات تک پھیلی ہوئی ہے۔ شاید ہمیں شہر ماضی کے گلی کوچوں اور در و دیوار سے اس لئے بھی ایک انوکھی اُنسیت ہوتی ہے کہ ہماری اپنی زندگی بھی ہر لمحہ اسی کا حصہ بن رہی ہے لیکن ہم اس میں داخل نہیں ہوسکتے۔۔۔ بس پیچھے مڑ کر دیکھ سکتے ہیں۔ ہماری زندگی کے تسلسل کے تمام حوالے ماضی میں ہیں اور لمحہ موجود نے بھی ماضی ہی کا حصہ بن جانا ہے۔ تاریخ اور بڑی شخصیات کی سوانح اسی لئے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے موضوعات ہیں کیونکہ ان کا تعلق بھی ہمارے ماضی کے ساتھ ہے اور ہم ان دستاویزی حوالوں کے ذریعے ماضی میں جھانکنا چاہتے ہیں۔

خالد اقبال یاسر کا ایک شعر ہے۔

ستون اپنے شکوہ رفتہ میں گُم کھڑا ہے
بس اک ذرا انہماک ٹوٹے گا، تب گرے گا

محمود الحسن کی نئی کتاب ’’گزری ہوئی دنیا سے‘‘ بھی ایک ایسی ہی تخلیق ہے جو ہمیں ادب کی دنیا سے وابستہ عظیم ہستیوں کے توسط سے شہر ماضی کی سیر کراتی ہے۔ ادب شناسی اور ادب دوستی کے حوالے سے محمود الحسن کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ کم عمری میں اُن ادبی شخصیات کی محبت پائی جو اپنے عہد میں ادب کا آسمان کہلائے اور بڑی بات یہ رہی کہ ممتاز ادبی شخصیات سے یہ قربت کوئی یک طرفہ احسان نہیں بلکہ یہ شخصیات بھی مصنف کا تذکرہ فخر کے ساتھ کرتی ہیں۔ اس کتاب پر اپنے تاثرات میں عہد حاضر میں علم و ادب کے حوالے سے عظیم شخصیت شمیم حنفی لکھتے ہیں ’’ہم تو خیر دور ہیں مگر انتظار حسین تو لاہور میں رہتے ہوئے بھی محمود الحسن کے منتظر رہتے تھے۔ کسی کتاب کی ضرورت ہو، کوئی حوالہ درکار ہو، ایسی ہر مشکل ان کے لئے محمود کی ہی مدد سے آسان ہوتی تھی۔ امریکا میں بیٹھے ہوئے احمد مشتاق اور یہاں دلی میں محصور اس حقیر کے لئے محمود کی ہستی کتنی بابرکت اور ضروری ہے، ہم ہی جانتے ہیں۔‘‘

اس سے پہلے محمود الحسن کی دو کتابیں سامنے آچکی ہیں جن میں پہلی ممتاز ادیب انتظار حسین مرحوم سے مصنف کی غیر رسمی گفتگو پر مشتمل ہے، جبکہ دوسری کتاب شہر لاہور سے مجبوراً جُدا ہونے والے ادیبوں کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی اور کنھیا لال کپور کی اپنے محبوب شہر سے وابستہ یادوں پر مشتمل ہے۔

اس دستاویزی کتاب کو ’لاہور‘ شہر پُر کمال‘ کا نام دیا گیا۔ زیر نظر کتاب محمود الحسن کی تیسری کتاب ہے جو مصنف کے عظیم ادبی شخصیات کے بارے میں مضامین پر مشتمل ہے۔ ان مضامین میں آپ کو جن بڑی شخصیات سے واسطہ پڑے گا ان میں سعادت حسن منٹو، ناصر کاظمی، منیر نیازی، غلام عباس،‘ سبط حسن، انتظار حسین، صوفی محمد ضیاء الحق، محمد کاظم، ڈاکٹر خورشید رضوی، اے حمید، شیخ صلاح الدین، الطاف فاطمہ، نیر مسعود، شاہد حمید اور اسلم فرخی شامل ہیں۔ مصنف نے ان شخصیات کے حوالے سے مستند دستاویزی حوالوں کے ساتھ بات کی، جن میں ایک دوسرے کو لکھے گئے یادگار غیر مطبوعہ خطوط بطور خاص دلچسپی کا باعث ہیں۔

محمود الحسن اس کتاب کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں۔ ’’گزرے زمانے کی یاد اُداس بھی بہت کرتی ہے، لیکن آپ کے لئے توانا جذباتی سہارہ بھی ہوتی ہے۔ ماضی کی یادیں میرے دل و دماغ پر یورش کرتیں تو ان میں دوسروں کو شریک کرنے کو جی چاہتا، جس کا نتیجہ مضامین کی صورت میں ظاہر ہوتا رہا‘‘۔

محمد سلیم الرحمن کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں ’’شمیم حنفی صاحب نے محمود الحسن کو بجا طور پر ادب کا ایک پُر شوق اور بے مثال قاری قرار دیا ہے۔ یہ رائے محمود الحسن کے صرف ایک پہلو کا احاطہ کرتی ہے۔ حقیقت میں وہ ان ادیبوں کے روز و شب کے بارے میں بھی متجسس ہے جن کے زور قلم سے اتنی تحیر خیز تحریریں ہمارے سامنے آئیں‘‘۔ کتاب کی پیشکش کا معیار شاندار ہے۔ کتاب قوسین لاہور نے شائع کی ہے جسے ریڈنگز لاہور ،کتاب سرائے اردو بازار لاہور اور پیراماؤنٹ بکس لاہور/کراچی سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔براہ راست کتاب منگانے کے لیے رابطہ نمبر: 03008073278

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔