ایک گلاس دودھ کے عوض

شیخ جابر  جمعرات 6 مارچ 2014
shaikhjabir@gmail.com

[email protected]

آج ایک مشہور واقعے کا ’’تذکرہ‘‘ کرتے ہیں۔ یہ قریباً 1870 کی بات ہوگی۔ علاقہ ہے کم ڈن، نیو جرسی، امریکا۔ ایک غریب لڑکا دروازے دروازے جاکر کچھ فروخت کررہا تھا، عام استعمال کی اشیا یا شاید کپڑے، وہ اپنے تعلیمی اخراجات اسی طرح ادا کیا کرتا تھا، اس کا حال بہت ہی خستہ تھا۔ ایک تو وہ بھوکا تھا اور دوسرے اس کے پاس پیسے بھی نہیں تھے۔ کل مل ملا کر شاید 30 سینٹ۔ بھوک سے بے تاب لڑکے نے سوچا کہ اگلے دروازے پر جو بھی باہر آیا وہ اس سے کچھ کھانے کو مانگ لے گا۔ دروازہ بجانے پر ایک خوب رو نوجوان خاتون برآمد ہوئیں۔ بھوکا لڑکا باوجود خواہش کے کھانا نہ مانگ سکا، شاید اس کی تربیت اور خود داری مانع تھی۔ اس نے ہکلاتے ہوئے ایک گلاس پانی مانگا۔ نوجوان خاتون نے گہری نظروں سے اس کا جائزہ لیا۔ وہ بھانپ گئیں کہ بچہ بھوکا ہے۔ وہ گھر میں گئیں اور بجائے پانی کے دودھ سے لبریز ایک بڑا گلاس لے آئیں۔ لڑکے نے آہستہ آہستہ گلاس خالی کردیا۔ اسے اپنے جسم میں توانائی کا احساس ہوا۔ لڑکے نے کہا ’’اس دودھ کے عوض میں آپ کو کیا پیش کروں؟‘‘ نوجوان خاتون نے کہا ’’کچھ بھی نہیں … مجھے تم سے کچھ نہیں چاہیے‘‘۔

’’میری امی نے مجھے سکھایا تھا کہ کبھی کسی سے کوئی چیز نہ لو اور مفت تو بالکل بھی نہیں‘‘ لڑکے نے کہا ’’لیکن مجھے تم سے کچھ نہیں چاہیے، میں دل کی گہرائیوں سے آپ کا شکر گزار ہوں‘‘ لڑکے نے کہا اور چلا گیا۔

وقت گزرتا گیا اور ہم سب جانتے ہیں وقت بہت تیزی سے گزرتا ہے۔ وہ خاتون جوانی سے بڑھاپے کی دہلیز پر جا پہنچیں۔ بڑھاپا اپنے ساتھ کئی بیماریاں بھی لاتا ہے۔ کچھ لوگوں کا تو کہنا ہے کہ بڑھاپا خود ایک بیماری ہے۔ وہ بھی ایسی بیمار پڑیں کہ جان کے لالے پڑ گئے۔ ’’کم ڈن‘‘ کے ڈاکٹروں نے انھیں علاج کے لیے بڑے شہر اور بڑے اسپتال جانے کا مشورہ دیا۔ جہاں بڑے ڈاکٹر (اسپیشلسٹ) ان کا علاج کرسکیں۔ انھوں نے بھی نزدیکی بڑے شہر کے بڑے اسپتال کا رخ کیا۔ ڈاکٹروں نے علاج شروع کردیا اور ان کے مرض کی مناسبت سے ایک ماہر معالج کو بلایا گیا۔ کافی عرصے تک علاج چلا۔ علاج کے دوران ہی خاتون کو اسپتال کے اخراجات کی فکر کھانے لگی۔ یہاں تک کہ جب وہ بھلی چنگی ہوگئیں تو انھیں خیال ہوا کہ مرض سے تو وہ بچ گئی ہیں لیکن باقی تمام عمر اسپتال کا قرض اتارتے گزرے گی۔ معالجے کا بل آیا تو انھیں اپنی آنکھوں پر یقین نہ آتا تھا۔ اخراجات ان کے اندازوں سے بھی زیادہ تھے۔ لیکن ایک اور بات اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز تھی۔ وہ بل ادا شدہ تھا اور بل ادا کرنے والا کوئی اور نہیں ان کا معالج خصوصی تھا۔ بل کے آخر میں درج تھا ’’علاج کے تمام اخراجات ایک گلاس دودھ کے عوض ادا کردیے گئے‘‘ ڈاکٹر ہووارڈ اے کیلی۔

آپ جو بھی اچھائی کرتے ہیں ایک نہ ایک دن وہ آپ کے یا آپ کے چاہنے والوں کے سامنے بہت بڑھ چڑھ کر آتی ہے۔ ایک ایسے وقت جب آپ اسے بھول چکے ہوتے ہیں۔ ایک ایسے وقت جب آپ کو کوئی توقع اور امید بھی نہیں ہوتی۔ کسی غیبی مدد کی طرح۔ فرض کیجیے اگر آپ کے ساتھ ایسا نہیں بھی ہوتا تب بھی آپ نے اس دنیا میں بہتری کی ایک بنیاد تو ڈال دی۔ زندگی اسی لیے ہے، اچھائی کے لیے، حق و صداقت کے لیے۔

اس نصیحت آموز واقعے میں جس لڑکے کا ذکر ہے، دنیائے طب اسے ایک نام ور طبیب ڈاکٹر ہووارڈ ایٹ ووڈ کیلی (Howard Atwood Kelly) کے نام سے جانتی ہے۔ آپ نے یونیورسٹی آف پنسلوانیا سے 1877 میں بے اے اور اسی یونیورسٹی سے 1882 میں ایم ڈی کیا تھا۔ آپ کا شمار بالٹی مور، میری لینڈ کے قدیم اور معتبر ترین جان ہاپکنز اسپتال کے ’’چار بڑے‘‘ اطبا میں کیا جاتا ہے۔ انھیں بانی پروفیسر بھی کہا گیا، آپ ’’گائنی‘‘ کے ماہر ڈاکٹر تھے۔

اس مشہور نصیحت آموز واقعے سے جہاں ہمیں نیکی کرنے کا درس ملتا ہے وہیں کچھ اور چیزوں کی جانب بھی توجہ مبذول ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ہمیں پتا چلتا ہے کہ اس دور میں تعلیم ہر فرد حاصل نہیں کرسکتا تھا۔ یہ جدید تعلیم کا المیہ ہے، آج تعلیم پیسے کے لیے ہے اور پیسے کے ذریعے ہے۔ اگر آپ کی جیب میں پیسے نہیں ہیں تو آپ تعلیم حاصل نہیں کرسکتے۔

ہم جس علاقے میں ہیں وہاں دنیا کی قدیم ترین اور بہترین تعلیم گاہیں رہی ہیں۔ ہمارے نزدیک ٹیکسلا ہے۔ دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی جہاں کے طلبہ نے چندر گپت موریا جیسے بادشاہ کی رہنمائی کی۔ جہاں ارتھ شاستر جیسے علم کی بنیاد پڑی (جدید اصطلاح میں معاشیات سمجھ لیں) جہاں آیوروید کے ماہر ’’چارکا‘‘ نے علم حاصل کیا، جہاں چانکیہ کوٹلیہ بھی تھا۔ ڈی جی ایپٹ لکھتا ہے کہ یہاں تعلیم کے نام پر معاوضہ گناہ سمجھا جاتا تھا۔ ’’نلندا‘‘ میں بھی یہی تھا۔ نلندا قدیم دور کی وہ تعلیم گاہ ہے جس کا تصور آج بھی محال ہے۔ پھر ’’گروکھل‘‘ کی تعلیم کے تو آج بھی چرچے ہیں۔ ’’ولا بھی‘‘ ’’وکرم شالہ‘‘۔ کتنی ہی تعلیم گاہیں ہیں۔ ٹھٹھہ، نہ معلوم کتنی تعلیم گاہیں یہاں تھیں۔ وادی مہران، موئن جو دڑو، ہڑپہ، یہ تہذیبیں علوم و فنون کا گہوارہ تھیں۔ یہاں کوئی خیال کرسکتا ہے کہ پیسے لے کر پڑھایا جائے؟ پھر ہماری ہمسایہ تہذیب چین کی ہے۔ کیا کوئی تصور ہے کہ کنفیوشس پیسوں کے لیے یا پیسے لے کر پڑھاتا تھا، یا ’’میسوپوٹیمیا‘‘ میں یا خود مغرب میں جرمنی، فرانس وغیرہ میں بڑے بڑے رومن کیتھولک چرچ تھے ’’ایبے آف کلونی‘‘ وغیرہ، کیا یہاں سب جگہ یہ بڑے لوگ، بڑے بڑے پادری پیسوں کے لیے پڑھاتے تھے یا پیسے لے لے کر داخلہ دے کر کچھ سکھاتے تھے؟ ’’ایزٹیک‘‘ ’’انکا‘‘ ’’مایا‘‘ حیرت انگیز تہذیبیں گزری ہیں، حیرت انگیز علوم و فنون کے حامل، کیا وہاں بھی تعلیم فروخت ہوتی تھی؟

مسلمانوں کے ہاں حافظ، عالم، محدث، فقیہہ، مفسر، ماہر فن، ابن الہیثم، جابر بن حیان، الرازی، ابن رشد، پیسے دے کر بن گئے؟ اصحاب صفہ ایسے مقدس مقامات ہوں یا آج کے ایران بھی اوضاع علمیہ قم کبھی کہیں علم فروخت ہوا؟

ڈاکٹر ہووارڈ اے کیلی کے واقعے سے ایک اور بات ظاہر ہوتی ہے وہ یہ کہ باوجود صنعت کاری کے وہاں کے معاشرے میں اقدار تھیں۔ ایک بچے کو اپنی ماں کی یہ نصیحت یاد تھی کہ کسی سے کچھ نہیں لینا اور اگر لینا پڑے بھی تو بغیر کچھ دیے تو کچھ لینا ہی نہیں ہے۔ جن بچوں کی کردار سازی ممتا کے سائے تلے ہو تو وہاں ہی ایسے جوہر قابل تیار ہوسکتے ہیں جو تاریخی طور پر اعلیٰ اخلاق و کردار کا مظاہرہ کرسکیں۔ اگر ماں کے پاس اپنی ہی اولاد کے لیے وقت نہیں ہے تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ معاشرے کو ہووارڈ جیسے اعلیٰ افراد ملیں؟ ملازمت پیشہ خواتین کا المیہ ہوتاہے کہ ان کے پاس وقت بالکل نہیں ہوتا۔ بچے تو بچے خود اپنے لیے وقت نکالنا مشکل ہوتا ہے۔ بڑے شہروں میں کارپوریٹ سطح کے ملازمین کے لیے 8 سے 12 گھنٹے کی ملازمت عام سی بات ہے۔ اتنا وقت اور اپنی بہترین صلاحیتیں اور توانائیاں کارپوریشنز کو دے دینے کے بعد کیا ایک ماں ہووارڈ کیلی جیسے اخلاق و کردار کے حامل باصلاحیت نوجوان معاشرے کو دے سکتی ہے؟

ایک نکتہ اور بھی سمجھ میں آتا ہے کہ اس دور میں شاید خواتین کو اپنے حقوق کا زیادہ خیال نہیں آیا تھا اور وہ گھر ہی پر رہا کرتی تھیں۔ اگر ہم اس دور کے ’’کم ڈن، نیو جرسی‘‘ اور آج کے کم ڈن کا مطالعہ کریں تو اندازہ ہے کہ آج کے کم ڈن کی خواتین ملازمتوں کے لیے نسبتاً زیادہ گھر سے باہر رہتی ہوں گی۔ سب گھر والے ملازمتوں پر اور بچے اسکول میں۔ گھر بند ان حالات میں اگر کوئی طلب گار دروازے پر دستک دے تو ہے کوئی اس کی صدا سننے والا؟ حالات اور معمولات میں تغیر سے انسان چاہنے کے باوجود بھی بعض نیکیاں نہیں کرپاتا۔ ہمارے بچپن میں ہم نے دیکھا ہے، خود ہمارے گھر سے اور محلے کے تقریباً سب ہی گھروں سے کتنے ہی مانگنے والے، پھیری والی، ماشکی نہ معلوم کون کون دھڑلے سے کھانا مانگ کر کھایا کرتے تھے اور گھر کی خواتین خوشی خوشی ان کی خدمت کیا کرتی تھیں۔ پڑوس کا کوئی بچہ خاص کر کھانے کے وقت بغیر کھانا کھائے نہ جاسکتا تھا۔ کیا آج یہ ممکن ہے۔ اگر خاتون خانہ کو ملازمت کے لیے گھر سے نکلنا ہے اور وقت مقررہ پر صبح انھیں کہیں پہنچنا ہے، ایسے میں ایک معصوم بچہ، پڑوسی یا کوئی اور بھوکا ان کے دروازے پر آجائے تو کیا وہ اسے ناشتہ کرواسکتی ہیں؟ خواہ وہ مستقبل کا ہووارڈ ایٹ ووڈ کیلی ہی کیوں نہ ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔