عالمی معاشی بحران کے خدشات

زمرد نقوی  پير 13 جون 2022
www.facebook.com/shah Naqvi

www.facebook.com/shah Naqvi

گزشتہ ماہ جرمنی کے سب سے بڑے ڈوشے بینک نے پیشن گوئی کی تھی کہ عالمی معیشت بہت بڑے بحران کا شکار ہونے والی ہے جس کے اثرات اس سال کے آخر سے شروع ہو کر اگلے کئی سال تک جاری رہینگے۔ ڈوشے بینک کے ماہرین نے اس بات پر حیرت ظاہر کی تھی کہ کیا وجہ ہے کہ اس کے باوجود امریکی اور برطانوی ماہرین اس آنے والے بحران سے بے خبر ہیں۔

اب جا کر ورلڈ بینک نے بھی خبردار کر دیا ہے کہ عالمی معیشت کو 1970 میں آنے والے جیسے معاشی بحران کا سامنا ہے جب کہ کئی ممالک آنے والے دنوں میں کساد بازاری سے بچنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرتے نظر آئیں گے۔ یوکرین میں روس کی کارروائی ، چین میں لاک ڈائون اور دنیا بھر میں سپلائی چین سسٹم میں بگاڑ کی وجہ سے صورت حال پریشان کن رہ سکتی ہے۔ عالمی بینک نے کہا ہے کہ عالمی معیشت کو کورونا وباء کے بعد یوکرین جنگ سے دوسرا بڑا نقصان ہوا ہے ۔ بینک نے خبردار کیا ہے کہ عالمی معیشت سست شرح نمو کی طرف بڑھ رہی ہے ، اس سال جنوری میں عالمی بینک نے پیش گوئی کی تھی کہ شرح نمو 4%تک رہے گی۔ لیکن اب نئی پیشن گوئی کی ہے کہ یہ 2.9% تک رہے گی ۔

گولڈ مین سچز کے ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں تیل کی قیمتوں میں مزید اضافہ متوقع ہے اور یہ قیمتیں 140ڈالر فی بیرل تک جا سکتی ہیں، جب کہ صارفین کے لیے اس کے اثرات 160ڈالر فی بیرل تیل کے مساوی ہونگے۔ کیونکہ ریفائنریزکی استعداد زیادہ نہیں ہے۔ نتیجتاً گیس کی قیمتوں میں بھی اضافہ متوقع ہے ۔ یہ توبڑی ہولناک دہشت زدہ کرنی والی بات ہے ۔ دنیا کے غریب عوام اور غریب ملکوںکا کیا بنے گا؟

تیل کی قیمتیں بڑھنے کا اثر تیل پیدا کرنے والے عرب ممالک میں بھی محسوس کیا جا رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں یہ قیمتیں اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ متحدہ عرب امارات میں قیمتیں 56فیصد تک بڑھ چکی ہیں۔ برطانیہ میں گاڑی مالکان کو خبردار کیا جارہا ہے کہ موسم سرما میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمت 2پائونڈ فی لیٹر تک جا سکتی ہے ۔ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ چین کورونا کے بعد اپنی منڈیاں کھول رہا ہے اسے پیداوار کے لیے اضافی تیل کی ضرورت ہے ۔

گزشتہ ایک دہائی سے پاکستان ، بنگلہ دیش اور سری لنکا جیسی معیشتوں میں سرمایہ کاری کرنے والی کمپنی ٹنڈرا کے مالک کا کہنا ہے کہ موجود عالمی معاشی صورت حال کے پیش نظر جنوبی ایشیائی منڈیاں طوفان میں گھری ہوئی ہیں ۔ اسی کمپنی کے چیف انوسٹمنٹ نے پیشن گوئی کی ہے کہ آیندہ آنے والا وقت جنوبی ایشیائی منڈیوں کے لیے شدید تکلیف دہ ثابت ہو گا۔ غالب امکان یہ ہے کہ ان ممالک میں شدید مہنگائی آئے گی۔ شرح سود بڑھے گی جب کہ کرنسیوں کی قدر میں کمی آئے گی۔

مشر ق وسطیٰ میں ری برتھ آف مڈل ایسٹ کی خواب کی تعبیر مستقبل قریب میں نکلنے والی ہے، وہ خواب جو سابق امریکی وزیر خارجہ کنڈولیزارائس اور امریکی اسٹیبلشمنٹ نے دیکھا تھا۔ کنڈولیزارائس نے اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب میں بیٹھ کر نئے مشرق وسطیٰ کی پیدائش کا اس وقت نعرہ بلند کیا تھا جب اسرائیل نے لبنان پر حملہ کیا اور حزب اللہ نے اسے پہلی مرتبہ تاریخی شکست دی۔ اُس کے بعد ری برتھ کا منصوبہ پینڈنگ میں ضرور پڑ گیا لیکن امریکی اسٹیبلشمنٹ نے پس پردہ اس پر کام جاری رکھا اور اب جا کر اس ری برتھ کے لیے تمام عوامل جمع اور میچور ہو چکے ہیں، اس پس منظر میں امریکی صدر جوبائیڈن کا جون میں دورہ اسرائیل انتہائی تاریخ ساز ثابت ہو گا۔ صرف یہی نہیں ری برتھ آف مڈل ایسٹ کے حوالے سے ہمارے خطے کی ایک نئی تاریخ لکھی جائے گی۔ جس پر عمل درآمد سوویت یونین کے خاتمے کے بعد ایک طویل عرصے سے ادھورا پڑا تھا ۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے کچھ عرصہ پہلے ایسے ہی نہیں کہا تھا کہ موجودہ دہائی ہی فیصلہ کن ثابت ہو گی جس میں امریکی بالا دستی کو لاحق عالمی خطرات کا خاتمہ ہو جائے گا۔ لیکن جب تک ایران کا کانٹا نہیں نکل جاتا ہے امریکا چین سے نہیں بیٹھے گا۔ کیونکہ وہ امریکی ایجنڈا جس پر عمل درآمد اسرائیل کو مشرق وسطیٰ کا بے تاج بادشاہ بنا دے گا۔ اس میں ایران پچھلے 40 برسوں سے ایک ناقابل عبور رکاوٹ بنا ہوا ہے ۔ امریکا نے اپنے اتحادیوں سے مل کر روس کو یوکرین جنگ میں پھنسا کر کمزور کر دیا ہے ۔ جب کہ روس ایران کا اسٹرٹیجک اتحادی ہے۔ اب جب کہ ایران کو گھیرے میں لیا جائے گاتو روس ایران کی مدد نہیں کر سکے گا۔

کہ اس طرح روس کی کمزوری ایران کی کمزوری بن جائے گی اور ایران کی کمزوری پاکستان کو کمزور کر دے گی۔ افغانستان سے امریکی فوج کا فوری انخلا ، نتیجے میں شدت پسند گروہوں کا پاکستان کی سلامتی کے لیے خطر ہ بننا ، سی پیک پر امریکی دبائو ہمارے خطے میں متوقع تیسری عالمی جنگ کے نتیجے میں پورے خطے میں عدم استحکام کا پاکستان پر مرتب ہونا، پاکستان کی خستہ حال معیشت، یہ سب معاملات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں لیکن کالم کی گنجائش ختم۔ باقی باتیں اگلے کسی کالم میں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔