معاشرتی مسائل اور میڈیا کے خودساختہ ہیرو

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  جمعـء 24 جون 2022
آخر ایک معصوم لڑکی کو یہ معاشی بار کیوں اٹھانا پڑا؟ (فوٹو: فائل)

آخر ایک معصوم لڑکی کو یہ معاشی بار کیوں اٹھانا پڑا؟ (فوٹو: فائل)

ہمارے ہاں آئے دن نت نئے معاشرتی مسائل سامنے آرہے ہیں مگر افسوس کہ ان کی وجوہات جانے بغیر میڈیا پر ان کا حل پیش کردیا جاتا ہے، جس کے باعث مسائل جوں کے توں ہی رہتے ہیں بلکہ ان میں اضافہ بھی ہوتا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک پاکستانی لڑکی کا میڈیا پر بڑا چرچا رہا۔ اس لڑکی نے اپنے گھر کے معاشی مسائل کو حل کرنے کےلیے رکشہ چلانا شروع کیا۔ میڈیا نے اس کو ’’باہمت لڑکی‘‘ کے ٹائٹل سے خوب کوریج دی۔

ہر معاشرے کا اپنا کلچر اور ایک نظریہ ہوتا ہے جس کے مطابق درست اور غلط کا تصور قائم ہوتا ہے۔ یہی معاملہ ایک انسان کی انفرادی زندگی کا بھی ہوتا ہے۔ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں اور جو ہمارا زندگی گزارنے کا نظریہ ہے، اس کے مطابق ایک مرد صرف اپنی خواتین ہی نہیں پورے گھر کی کفالت کا ذمے دار ہوتا ہے، اسی لیے اسے گھر کے سربراہ کی بھی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ ہمارے دینی نظریے کے مطابق بھی اور کلچر کے مطابق بھی مرد ہی اپنی بیوی اور بچوں کی کفالت کی تمام تر ذمے داریاں ادا کرتا ہے۔ خواتین پر خواہ وہ بیوی ہو یا بچی، معاشی ذمے داری نہیں ہوتی، نہ ہی یہ ذمے داری ان پر ڈالی جاتی ہے۔ اس ضمن میں کچھ کمی بیشی ہو تو قریبی رشتے دار بھی مدد کرتے ہیں، مثلاً کوئی عورت بیوہ ہوجائے تو بھی اس کے بھائی بہن جیسے قریبی رشتے دار وغیرہ ہر ممکن مدد کرتے ہیں۔

علما کے مطابق اگر کسی خاتون کا کوئی قریبی رشتے دار اور والی وارث نہ ہو تو پھر ریاست پر نان نفقے کی ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ اس کلچر اور نظریے کی روشنی میں دیکھا جائے تو خواتین پر کھانے کمانے یعنی معاشی ذمے داریاں بالکل بھی نہیں، ماسوائے اس کے کہ کوئی خاتون خود سے معاشی سرگرمی میں حصہ لے، جیسا کہ آج کل خواتین ملازمت بھی کررہی ہیں۔

یوں دیکھا جائے تو کوئی صنف نازک جو انتہائی مجبوری میں گھر سے باہر نکلتی ہے تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اس کے رشتے داروں اور معاشرے نے اس کی جو مدد کرنی چاہیے تھی، نہیں کی۔ جو حق اس کو بحیثیت صنف نازک حاصل تھا، وہ حق نہیں دیا گیا۔ مثلاً مذکورہ لڑکی کی خبر کہ جس میں وہ اپنے گھر کی کفالت کےلیے سولہ سال کی عمر میں رکشہ چلانے نکلی ہے، اس کا یہ عمل قریبی عزیز و رشتے داروں، معاشرے اور خود ریاست کے کردار پر سوالیہ نشان ہے کہ آخر انھوں نے اپنا کردار ادا کیوں نہیں کیا؟

میڈیا کو اصل سوال یہ اٹھانا چاہیے تھا کہ یہ سب کردار غفلت کی نیند کیوں سو رہے ہیں؟ آخر ایک معصوم لڑکی پر یہ معاشی بار کیوں؟

ریاست سے یہ سوال کیوں نہیں کیا جاتا کہ جب ایک لڑکی کو کم عمری کی وجہ سے بالغ ہونے کے باوجود نکاح کا بوجھ نہیں اٹھانے دیا جاتا اور اٹھارہ سال کی عمر کا قانون اس کی حفاظت کےلیے موجود ہوتا ہے تو پھر اٹھارہ سال سے پہلے کفالت کا قانون صنف نازک کےلیے کیوں نہیں بنایا جاتا؟ اسلامی ریاست کی بات تو بہت کی جاتی ہے جبکہ یہ بات تو عین اسلامی حکم کے مطابق ہے۔

یہی وہ بنیادی بات اور مسئلے کا حل ہے جس پر میڈیا کو بھی بات کرنی چاہیے مگر میڈیا پر اس تناظر میں کوئی بات سامنے نہیں آتی، بلکہ الٹی گنگا بہتی نظر آتی ہے۔ یعنی اسی لڑکی کو ہیرو بنا کر ’باہمت لڑکی‘ جیسی سرخیاں جمائی جاتی ہیں۔ حالانکہ مذکورہ خبر کی سرخی یہ ہونی چاہیے، ’’بے حس معاشرہ، غافل ریاست‘‘۔

میڈیا کا یہ رویہ اور رحجان صرف اس ایک پر خبر نہیں بلکہ ایسی اور اس سے ملتی جلتی تمام خبروں اور واقعات پر ایک جیسا ہے۔ جو خواتین معاشی بوجھ خود اٹھاتی ہیں میڈیا پر ہمیشہ ان خواتین کو ہیرو بنا کر ایسے پیش کیا جاتا ہے کہ جسیے انھوں نے کوئی بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہو۔ یہ نہیں بتایا جاتا کہ ہمارا معاشرہ اب اس قدر بے حس ہوتا جارہا ہے کہ اپنے دینی نظریے اور کلچر کے بھی خلاف معاشی بوجھ خواتین پر ڈال رہا ہے۔

اس عمل کو میڈیا خواتین کی آزادی سے جوڑ رہا ہے، یہ نہیں دیکھا جارہا کہ پہلے یہی صنف نازک گھر بیٹھ کر زندگی کا لطف اٹھاتی تھی، گھر کا مرد باہر محنت مشقت کرکے کما کر ان خواتین کو چھت تلے روپیہ پسہ لاکر دیتا تھا، ان کی تمام ضرورتیں پوری کرتا تھا۔ اسکول تا یونیورسٹی ہی نہیں ہر جگہ پک اینڈ ڈراپ کی سہولت فراہم کرتا اور پیدائش سے لے کر شادی کے جہیز جیسی ذمے داری تنہا خود ادا کرتا تھا۔ صنف نازک کو کچھ نہیں کرنے دیتا تھا۔ اب ان تمام سہولتوں سے محروم ہونے والی صنف نازک کو میڈیا ’ہیرو‘ بنا کر پیش کررہا ہے۔ اشتہارات اس ضمن میں سب سے آگے آگے نظر آتے ہیں، کیونکہ اس نے خواب دکھا کر اپنی پروڈکٹ فروخت کرنی ہوتی ہے۔ اب ہر دوسرے اشتہار میں اپنے نظریے اور کلچر سے بغاوت سکھائی جارہی ہے۔ ایسی لڑکیوں کو رول ماڈل اور کامیاب انسان کے طور پر پیش کیا جارہا ہے جو اپنے نظریہ اور کلچر سے بغاوت کرکے معاشی میدان میں آگئی ہوں۔ گویا یہ سبق دیا جا رہا ہے کہ معاشی ذمے داری اب خود خواتین کی ہے، مرد اس ذمے داری سے آزاد ہے اور جو خواتین گھر بار کی ذمے داری کو خیر باد کہہ کر باہر کی دنیا میں معاشی سرگرمیوں میں نکل جائے وہی کامیاب بھی ہیں اور با عزت بھی۔ یوں اب کامیابی اور عزت کا معیار ہمارے روایتی کلچر اور دینی نظریہ کے برعکس ہوگیا ہے۔ گویا ہم نے اپنے نظریہ اور دین سے بھی بغاوت کردی ہے۔

میڈیا پر ایسے پروگراموں اور اشتہارات کی بھرمار ہے کہ جس میں خواتین کو گھر سے باہر نکل کر معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر ایک ’ہیرو‘ کے طور پر دکھایا جارہا ہے۔ برسوں پہلے ایک اشتہار میں دکھایا گیا تھا کہ ایک لڑکی اپنے باپ کی ہدایات نظر انداز کرتے ہوئے باہر کی دنیا میں نکلتی ہے اور باپ کی کھلی نافرمانی کرکے، باپ کو ناراض کرکے چلی جاتی ہے۔ پھر کھیلوں کے مقابلے میں انعام جیت کر لاتی ہے تو باپ اپنی پالیسی پر شرمندہ ہوجاتا ہے۔ اس اشتہار پر ایک معروف صحافی اور کالم نگار نے سخت ردعمل دیتے ہوئے لکھا تھا کہ اس طرح خواتین کو والدین کے خلاف بغاوت کا درس دیا جا رہا ہے جس کا انجام معاشرے کےلیے خطرناک ہوگا۔

آج اگر ہم میڈیا پر خبروں کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ہمارا معاشرہ بکھر رہا ہے۔ گھر میں رہنے والی ایک نوعمر لڑکی جب گھر سے باہر نکلتی ہے تو اسے باہر کی دنیا کا کچھ اندازہ نہیں ہوتا۔ باہر کی دنیا میں تو عام مردوں کو قدم قدم پر ’چیٹ‘ کیا جاتا ہے۔ کوئی گاڑی یا پلاٹ ہی خریدنا ہو تو ایک سے ایک دھوکے باز سے واسطہ پڑتا ہے، ایسے میں ایک گھریلو نوعمر لڑکی گھر سے باہر ملازمت اور دیگر حالات کا مقابلہ تنہا کیسے کرسکتی ہے؟ خواتین کے خلاف ’ہراسمنٹ‘ کے واقعات ان کی مشکلات بیان کرتے ہیں۔ میڈیا پر ان ہراسمنٹ اور دیگر جرائم کے واقعات پر بات تو بہت کی جاتی ہے مگر اس پر بات نہیں کی جاتی کہ خواتین پر گھر سے باہر کمانے کا بوجھ کیوں ڈالا جائے؟ ایک عورت کو جو کچھ گھر بیٹھے مل جاتا ہے اسے حاصل کرنے کےلیے وہ گھر سے باہر صبح تا شام کیوں محنت، مزدوری اور مشقت کرے؟ آخر کب ہمارا میڈیا ایک سولہ سالہ بچی کے رکشہ چلاکر کمانے کو ایک باہمت لڑکی کا کردار پیش کرنے کے بجائے معاشرے اور ریاست کو ان کی ذمے داریوں کا احساس اور شرم دلائے گا؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔