مائز ایڈونچر: گیارہ سالہ پاکستانی لڑکی کا پہلا سائنس فکشن ناول

سہیل یوسف  پير 27 جون 2022
پاکستان کی ہونہار مصنفہ نے 11 برس کی عمر میں اپنا پہلا سائنس فکشن ناول شائع کیا ہے۔ فوٹو: بشکریہ فضلی سنز

پاکستان کی ہونہار مصنفہ نے 11 برس کی عمر میں اپنا پہلا سائنس فکشن ناول شائع کیا ہے۔ فوٹو: بشکریہ فضلی سنز

 کراچی: بلاشبہ پاکستانی لکھاریوں نے دنیا بھر میں اپنا نام بنایا ہے اور اب اس تناظر میں حمنہ محفوظ کا پہلا سائنس فکشن ناول شائع ہوگیا ہے اور کنڈل فارمیٹ میں ایمیزون پر بھی موجود ہے۔

اس ناول کا نام Mai’s Adventures: The curiosity rises ہے، جس کی کہانی ایک ایسی لڑکی کے گرد گھومتی ہے جس کی عمر 15 برس ہے۔ مائی رابرٹ نامی لڑکی سال 2399 سے تعلق رکھتی ہے جو بلا کی ذہین ہے۔ اسے سائنس، ریاضی، ٹیکنالوجی اور شاعری سے بھی لگاؤ ہے۔ یہاں تک کہ وہ تاریخ سے اتنا لگاؤ رکھتی ہے کہ ناول میں آگے چل کر وہ ٹائم مشین بناتی ہے اور ماضی میں ہماری دنیا کا سفر کرتی ہے۔

مائی کے والد ایک بڑی ٹیکنالوجی کمپنی کے سربراہ ہیں اور یوں پورا گھرانہ ایک خوشحال زندگی گزاررہا ہے۔ مائی کی چھوٹی بہن کا نام روزی ہے جو ناول کے آخری میں ایک بڑی تبدیلی کی وجہ بنتی ہے۔

ناول کے شروع میں حمنہ محفوظ نے ایک ایسے سینما کا تصور پیش کیا ہے جسے خرد ثقل (مائیکروگریویٹی) کے ماحول میں تاریک خلا کے پس منظر میں دیکھا جاسکتا ہے، یعنی خلا کی بے وزنی میں تیرتے ہوئے فلم سے لطف اندوز ہوا جاتا ہے۔ اس کی اطراف میں شہابئے اور ستارے ایک خوبصورت منظر پیش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ناول میں ’اسٹیٹو یونیورس سینما‘ کا خاکہ، اس کم عمری میں حمنہ کے پختہ تخیل اور فکری قوت کو ظاہر کرتا ہے۔

ناول کا اہم موڑ اس وقت آتا ہے جب مائی ایک ٹائم مشین بناتی ہے اور جب اپنے والدین کو بتاتی ہے تو انہیں یقین نہیں آتا۔ اپنی والدہ کے کہنے پر وہ پکوان کے مقابلے میں حصہ لیتی ہے۔ یہاں مائی کو کھانے کی منفرد ڈش کا خیال آتا ہے تو وہ ماضی میں جاکر ایک گوشت کی ڈش (اسٹیک) کی ترکیب معلوم کرکے آتی ہے۔ لیکن وہ سال 2020 میں زمین پر اس وقت پہنچتی ہے جب پوری دنیا وبا کی لپیٹ میں ہوتی ہے۔ یہاں وہ عالمی وبا اور امراض کے متعلق اپنی معلومات میں اضافہ بھی کرتی ہے۔

اس کے علاوہ بھی مصنفہ نے اپنے ناول میں چند اور دلچسپ ایجادات کا تذکرہ کیا ہے جو ان کے نزدیک سال 2399 اور 2400 میں ہوں گی اور انہوں نے اسے قریب سے دیکھا بھی ہے۔ یہ انداز مصنفہ کی ٹیکنالوجی اور سائنس میں دلچسپی کو ثابت کرتا ہے۔

اس کے بعد مائی رابرٹ دوبارہ اپنی ٹائم مشین پر قدیم مصر کی سیر کرتی ہے اور وہاں کے عجیب و غریب حالات کا مطالعہ بھی کرتی ہے۔ وہ ایک مترجم مشین سے مصریوں کے خیالات بھی جانتی ہے۔ اس کے بعد وہ دوبارہ اپنے گھر آجاتی ہے۔ اس کے بعد ناول کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور مائی رابرٹ کو دو بڑی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔

ناول کے آخر میں اچانک ایک بڑا موڑ آتا ہے اور مائی پہلے ایک سخت مشکل میں گرفتار ہوتی ہے اور بعد میں اس کی چھوٹی بہن سے اسے نقصان پہنچتا ہے۔ واضح رہے کہ آخری لائن کے بعد گمان ہوتا ہے کہ اس کا دوسرا حصہ بھی سامنے آئے گا کیونکہ اس کے آگے ’جاری ہے‘ لکھا ہوا ہے۔

سائنس کے ایک لکھاری کی حیثیت سے میں حمنہ محفوظ کو مبارکباد دیتا ہوں اور ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔ لیکن اچھا ہوتا کہ وہ اس ناول پر پہلا حصہ بیان کرتیں۔ وہ اس ناول کو ایک باضابطہ اختتام دے کر اس کا دوسرا حصہ بھی لاسکتی تھیں جس طرح ہیری پوٹر سیریز میں دیکھی گئی ہے۔

حمنہ محفوظ کا تعارف

جہاں تک حمنہ محفوظ کا تعلق ہے تو انہیں بچپن سے ہی لکھنے کا شوق رہا اور دس برس کی عمر میں انہوں نے اولیول کی تعلیم شروع کی اور پورے سعودی عرب میں سب سے کم عمر اولیول طالبہ کا اعزاز بھی حاصل کیا ہے۔ وہ ہر ہفتے سائنسی موضوعات پر بلاگ بھی لکھتی ہے جسے اب ہزاروں لاکھوں افراد پڑھتے ہیں۔

یہ ناول پاکستان کے ممتاز اشاعتی ادارے، فضلی سنز نے شائع کیا ہے  اور پاکستان بھر میں بھی دستیاب ہے۔

سہیل یوسف

سہیل یوسف

سہیل یوسف سائنسی صحافی اور کئی کتابوں کے مترجم ہیں۔ وہ ویڈیو، سلائیڈ شو میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس وقت ایک اشاعتی ادارے سے وابستہ ہیں۔ ان سے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔