عالمی بالا دستی کی جنگ میں امریکی سازشیں

زمرد نقوی  پير 27 جون 2022
www.facebook.com/shah Naqvi

www.facebook.com/shah Naqvi

روس اور یوکرین جنگ نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کر دیا ہے۔ نیٹو چیف اسٹولٹن برگ نے متنبہ کیا ہے کہ یوکرین جنگ طویل ہو سکتی ہے۔ برطانوی وزیر اعظم نے بھی کہا ہے کہ ہمیں ایک طویل جنگ کے لیے خود کو تیار کرنا ہو گا۔

وقت سب سے اہم عنصر ہے۔ نیٹو چیف نے جرمنی کے ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں اس بات کے لیے تیار رہنا ہو گا کہ یہ جنگ برسوں جاری رہ سکتی ہے۔ ہم یوکرین کی مدد میں کمی نہیں آنے دے سکتے چاہے اس کی کتنی بڑی قیمت کیوں نہ ہو اور اس کے نتیجے میں خوراک اور توانائی کی قیمتیں کتنی ہی کیوں نہ بڑھیں۔ اقوام متحدہ نے بھی خبردار کیا ہے کہ یوکرین جنگ جاری رہی تو دنیا قحط سے جہنم بن جائے گی۔

یوکرین کے صدر جو ماضی میں کامیڈین اداکار رہے ہیں۔ انھوں نے پوری دنیا کے ساتھ کامیڈی کر دی ہے کہ انھوں نے امریکی انگلیوں پر ناچتے ہوئے دنیا کو خوفناک معاشی بحران سے دوچار اور اس کی بقاء کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ روسی صدر پیوتن نے امریکی صدر جوبائیڈن کو ایک سے زائد بار خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یوکرین میں کیے گئے امریکی اقدامات سے روس کے پاس اس کے سوا  کوئی چارہ نہیں رہے گا کہ وہ اپنی بقاء کے لیے ایٹمی ہتھیار استعمال کرے۔ اندازہ کریں امریکا صرف پچھلے چار مہینوں میں یوکرین کی 25 ارب ڈالر کی فوجی مدد کر چکا ہے۔

کیوں اس لیے کہ اس وقت امریکا کی عالمی بالا دستی کو روس اور چین سے خطرہ ہے۔ چین اور روس کی سربراہی میں پاکستان سمیت دنیا کے بہت سے کمزور ممالک اس نئے بلاک میں شامل ہو سکتے ہیں۔

امریکا اپنی عالمی بالادستی کو بچانے کے لیے اس وقت کسی بھی حد کو پار کرنے کے لیے تیار ہے۔ چاہے ایٹمی جنگ کے نتیجے میں دنیا خاک کا ڈھیر کیوں نہ بن جائے۔ یاد رہے کہ ماضی میں سابق امریکی صدر ریگن سوویت یونین کے دنیا پر بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے ڈر کر اس کو ایٹمی جنگ کی دھمکی دے چکے ہیں۔ امریکا کی راتوں رات افغانستان سے فرار کی وجہ یہ تھی کہ طاقت کا مرکز ایشیاء میں منتقل ہو رہا ہے۔

افغان جنگ نے امریکا کو نہ صرف ہزاروں ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا بلکہ اس کی ساکھ بھی دنیا کی نظروں میں تباہ ہو گئی۔ یہ بیس سالہ جنگ ہی تھی جس میں چین اور روس نے بے پناہ معاشی و عسکری ترقی اس پیمانے پر کی کہ امریکا کی عالمی بالا دستی کا خاتمہ یقینی نظر آنے لگا۔ افغانستان سے نکلنے کے بعد سرد جنگ میں اس طرح تیزی آ گئی کہ امریکا نے چین کا مقابلہ کرنے کے لیے آسٹریلیا، بھارت اور جاپان کو اکٹھا کیا۔

اس وقت یوکرین میں روس کے ساتھ گرم جنگ چل رہی ہے تو چین کے ساتھ سرد جنگ بھی چل رہی ہے جہاں امریکا چین کی طاقت کو تائیوان، ہانگ کانگ اور جنوبی بحیرہ چین میں ڈبونا چاہتا ہے۔

یوکرین جنگ کے اثرات سے امریکا ، یورپ ہی نہیں شدید طور پر متاثر ہوئے بلکہ اس نے پاکستان جیسے دنیا کے بہت سے غریب ملکوں کی معیشتوں کو انتہائی خطرناک حد تک کمزور کر دیا ہے۔ غور کریں یوکرین جنگ سے جو عسکری جانی تباہی ہوئی امریکا یورپ اس سے محفوظ ہیں۔ یوکرین کو استعمال کر کے امریکا نے یورپ میں اپنے تمام اسٹرٹیجک مقاصد حاصل کر لیے ہیں بلکہ یورپین ممالک کی دفاعی انحصاری امریکا پر مزید بڑھ گئی ہے۔

یہ وہی طریقہ واردات ہے جو امریکی اسٹیبلشمنٹ کے عقابوں نے آج سے 42 سال پہلے سوویت یونین کے خلاف استعمال کیا کہ سازشوں کے ذریعے سوویت یونین کو افغانستان میں داخل ہونے پر مجبور کیا گیا۔ پھر سادہ لوح لاکھوں افغانوں کے ذریعے جہاد کے نام پر سوویت یونین کو شکست دے دی گئی۔ اور امریکا مفت میں دنیا کا بادشاہ بن گیا۔ اس جنگ میں ایک بھی امریکی فوجی نہیں مارا گیا۔

پیسے بھی بہت کم خرچ ہوئے۔ اس کام کے لیے عرب یورپین اتحادی کام آئے۔ یہاں تک کہ اس جنگ پر منشیات کی فروخت سے حاصل کردہ رقوم بھی خرچ کی گئیں۔ امریکا کی بلا سے کہ اس کے نتیجے میں پاکستان سمیت پوری دنیا میں لاکھوں، کروڑوں افراد ہیروئین کے عادی بن کر اپنی اور اپنے خاندان کی زندگیاں تباہ کر بیٹھے۔ یہ ہے انسان دوست امریکا کا حقیقی بھیانک چہرہ۔ امریکی ریڈ انڈین ہوں یا ویت نام یا عراق ہو یا ایران شام… امریکا اب تک دنیا پر اپنی عالمی بالادستی کے لیے کروڑوں افراد کو قتل کر چکا ہے۔ چاہے مزید کروڑوں افراد کو قتل کرنا پڑے۔ دنیا پر امریکی بادشاہی قائم رہنی چاہیے۔ رہے نام اللہ کا ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔