یہ وقت بھی گزر جائے گا

اطہر قادر حسن  بدھ 6 جولائی 2022
atharqhasan@gmail.com

[email protected]

عید قربان کے تہوار کی آمد سنت ابراہیمی کی ادائیگی کااعلان ہے۔ دنیا بھر میں مسلمان قربانی کی سنت ادا کرنے کے لیے سال بھر انتظار کرتے ہیں۔ وہ جو صاحب استطاعت ہوتے ہیں، وہ حج بیت اﷲ کی ادائیگی کے لیے ارادہ سفر باندھتے ہیں اور اس بڑے گھر سے حاضری کی درخواست قبول ہونے پر کعبتہ اﷲ کی حاضری اور اپنے محبوب نبیﷺ کے در پر درودو سلام پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔

امسال دو برس کے وقفے کے بعد دنیا بھر سے عازمین حج سعودی عرب پہنچ چکے ہیں۔ تاہم غیر ملکیوں عازمین حج کی تعداد خاصی کم ہے۔ سعودی حکومت کا کہنا ہے کورونا کی وجہ سے سعودی کمپنیاں ابھی زیادہ تعداد میںعازمین حج کو خدمات فراہم کرنے سے قاصر ہیں، اس لیے حج کوٹہ میں کمی کی جارہی ہے۔ بہر حال خوش قسمت ہیں وہ عازمین جنھیں اپنے محبوب کے گھر کا دیدار نصیب کا ہو گا۔ڈالر کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے بعدحج بیت اﷲ کے اخراجات میں بھی اس تناسب سے اضافہ ہو گیا ہے لیکن حج تو فرض ہی صاحب استطاعت پرہے اور صاحب استطاعت لوگ اﷲ کے مہمان کا درجہ پا چکے ہیں ۔

دنیا بھر میں تہواروں کی آمد پر کھانے کی اشیاء سے لے کر ملبوسات ، جوتے اور کاسمیٹکس تک کے نرخ کم کردیے جاتے ہیں، یہ نیک کام غیرمسلم ممالک میں تسلسل سے ہوتا ہے لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نرخ دگنے تگنے ہوجاتے ہیں ۔

ہوشربا مہنگائی سے غریب تو پہلے ہی پریشان تھا، اب متوسط طبقہ بھی پریشان ہے ، اس مرتبہ بازاروں میں رش کم دیکھنے میں آرہا ہے اور تاجر حضرات جن کی اکثریت اپنے نام کے ساتھ الحاج فلاں فلاں سابقہ استعمال کرتی ہے، یہ الحاج دکاندار بھی پریشان دکھائی دیتے ہیں کیونکہ ان کے ایک اور عمرے یا حج کے اخراجات کا زیادہ تر دارو مدار انھی تہواروں کا مرہون منت ہوتا ہے۔

ہم سب مسلمان ہیں لیکن بعض اوقات اللہ تعالیٰ کے واضح احکامات کو بھی دل سے نہیں مانتے مثلاً رزق دینے والا اﷲ ہے بلکہ یہاں تک کہ وہ کسی کو وہاں سے بھی رزق دیتا ہے جہاں سے اسے ذرہ بھر توقع بھی نہیں ہوتی۔ اس سب کاقرآن پاک میں اعلان فرما دیا گیا ہے مگر ہم بھکاریوں کی طرح ارباب دولت و اقتدار کے دروازوں پر جھکے رہتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ خود ان کو دولت اور اقتدار کس نے دیا۔ہمارے اردگرد موجود لاتعداد ایسے لوگوں کی حقیقت ہم سب کو معلوم ہے کہ ان کی اصل اوقات کیا تھی جو اب ان کو یاد نہیں رہی مگر چھوڑیے ان باتوں کو یہ کسی کام کی نہیں ہیں۔

اس وقت تو ڈالر کی حکمرانی ہے، اس کی قیمت کے ساتھ ہماری قیمت وابستہ ہو چکی ہے، اس کی قیمت میں جتنا اضافہ ہوتا ہے، ہماری قیمت کم ہوتی جاتی ہے ۔ بلکہ اب تو ہماری دولت گھٹنے کی گنجائش ہی ختم ہو چکی ہے۔

ایک بار سیلاب کے دنوں میں جب لوگ گھروں کا سامان اٹھا کر کسی خشکی کی تلاش میں تھے تو گاؤں کا ایک غریب ایک درخت پر آرام کے ساتھ بیٹھا تھا کہ نیچے سے اس گاؤں کے ایک رئیس کا گزر ہوا اس نے کہا کہ پاگل نیچے اترو اور ہمارے ساتھ چلو، اس پر اس غریب نے کہا کہ چوہدری صاحب آپ لوگوں کو اس حالت میںدیکھ کر آج غریبی کا مزہ آیا ہے، آپ اس کو بھی ختم کرنا چاہتے ہیں۔

ایک اور واقعہ بھی سن لیجیے! ایک بادشاہ کو افسردگی لاحق ہو گئی، اس کی غمزدگی کو دور کرنے کے لیے دانشوروں اور ارباب حکومت نے کسی صوفی کے مشورے سے طے کیا کہ بادشاہ کو کسی خوش باش شخص کی قمیض پہنائی جائے چنانچہ ایسے شخص کی تلاش شروع ہوئی جو بڑی تگ و دو اور محنت کے بعد ایک کھیت میں ملا جہاں وہ بکریاں چرا رہا تھا ۔ تلاش کرنے والوں نے اس کی تفتیش کی، اسے غم جہاں سے بے نیاز پایا ۔

اس پرا نہوں نے بڑے پیار سے اس سے اس کی قمیض مانگی لیکن اس نے بڑی شرمندگی اور معذرت کے ساتھ کہا کہ اس کے پاس تو سرے سے کوئی قمیض ہی نہیں ہے، بس ایک دھوتی ہے جس میں وقت گزر جاتا ہے۔

ایک اور بات بھی بہت مشہور ہے کہ ایک بادشاہ نے اپنے وزیر اعظم سے کہا کہ میری انگوٹھی کے نگینے پرکوئی ایسا جملہ لکھواؤ جسے پڑھ کر میں مطمئن ہو جایا کروں چنانچہ ذہن وفطین وزیراعظم کی ہدایت پربادشاہ کی انگوٹھی پر لکھا گیا کہ ’’یہ وقت بھی گزر جائے گا۔‘‘ زندگی کا راز اسی ایک جملے میں ہے کہ یہ وقت بھی گزر جائے گا اور عوام کی عید قربان بھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔