حج بیت ﷲ کی حکمتیں

عمران احمد سلفی  جمعـء 8 جولائی 2022
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

اسلام دین فطرت ہے۔ اس کا ہر حکم جہاں رب کائنات کی بندگی کی تعلیم دیتا ہے وہیں انسانیت اور معاشرے پر مثبت اثرات کا مظہر ہے۔ تمام عبادات میں اصلاح و خیر خواہی اور باہمی محبت و مؤدت کا عنصر موجود ہوتا ہے۔ نماز کو دیکھ لیجیے روزانہ پانچ مرتبہ اہل ایمان فریضہ نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد میں جمع ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کی مزاج پرسی کرتے ہیں۔

اسی طرح جمعہ میں بڑا اجتماع ہوتا ہے، پھر اس سے بڑھ کر عیدین کے اجتماعات میں بھی یہی روح کار فرما ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ اسلامیان عالم کا سالانہ عالم گیر اجتماع حج کے موقع پر منعقد ہوتا ہے جہاں دنیا بھر کے مسلمان رنگ و نسل کی تفریق مٹا کر ایک لباس اور ایک کلمے کا ورد کرتے ہوئے بین الاقوامی اتحاد و یگانگت کا مظاہرہ کر تے ہوئے ایک ﷲ کی کبریائی کا اعلان کر تے ہیں۔

عجیب منظر ہوتا ہے عربی، عجمی، گورے اور کالے، مختلف زبانیں بولنے والے لوگ احرام میں ملبوس ﷲ اکبر کی صدائیں بلند کر رہے ہوتے ہیں، جس سے سننے والے بھی یک گونہ روحانی تسکین محسوس کر تے ہیں۔ گویا بہ قول علامہ اقبال:

دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو

عجب چیز ہے لذّتِ آشنائی

ﷲ کے رسول ﷺ کی محبت اہل ایمان کا سرمایۂ حیات ہے اور حج اور قربانی اس کے اظہار کا بہترین قرینہ ہیں۔ ان عبادات میں بے پناہ روحانی دینی و دنیاوی حکمتیں اور فوائد موجود ہیں۔ ان عبادات میں خرچ کرنے والوں کو ﷲ تعالیٰ بے حد و حساب رحمتیں اور برکتیں عطا فرما تا ہے۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان کا مفہوم ہے: ’’حاجی کبھی محتاج نہیں رہتا۔‘‘

اسی طرح حج اور قربانی سیّدنا ابراہیم علیہ السلام کی یادگار بھی ہیں۔ قرآن مجید ان کی اس یادگار قربانی جو انہوں نے اپنے لخت جگر سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام کی گردن پر چھری پھیر کر دی تھی، کو عظیم الشان انداز میں بیان کرتا ہے۔

مفہوم: ( ابراہیم علیہ السلام نے جب دعا کی) اے میرے رب! مجھے نیک بخت اولاد عطا فرما، تو ہم نے انہیں ایک برد بار بچے کی بشارت دی۔ پھر جب وہ (بچہ) اتنی عمر کو پہنچا کہ ان کے ساتھ بھاگ دوڑ کر سکے تو اس (ابراہیم علیہ السلام) نے کہا کہ میرے پیارے بیٹے میں نے خواب دیکھا کہ میں تمہیں (بہ حکم خداوندی) اپنے ہاتھ سے ذبح کر رہا ہوں۔ اب تم بتاؤ کہ تمہاری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے جواب دیا کہ ابا جان آپ کو جو حکم ہوا ہے۔

اسے بجا لائیے ان شاء ﷲ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ (ال غرض) جب دونوں تیار (مطبع فرمان) ہوگئے اور اس نے (یعنی باپ) نے اس کو ( یعنی بیٹے کو) پیشانی کے بل گرادیا تو ہم نے آواز دی کہ اے ابراہیم! تُونے اپنا خواب سچا کر دکھایا بے شک! ہم نیکو کاروں کو اسی طرح جزا دیا کر تے ہیں۔ بے شک! یہ ایک کھلا امتحان تھا اور ہم نے بڑا ذبیحہ اس کے فدیہ میں دے دیا اور ہم نے انکا ذکر خیر (ابراہیمؑ و اسمٰعیلؑ کا ) پچھلوں میں باقی رکھا۔ ابراہیمؑ پر سلام ہو ہم نیکو کاروں کو اسی طرح بدلہ دیا کرتے ہیں۔ بلاشبہ وہ (ابراہیمؑ) ہمارے ایمان دار بندوں میں سے تھا۔‘‘ ( سورۃ الصافات)

قارئین کرام! اندازہ کیجیے ابراہیم علیہ السلام کے ایثار و قربانی کہ وہ بچہ جو پیرانہ سالی میں عطا ہوا اور ابھی دس سال کا ہی ہوا ہے اور باپ سے کہا جا رہا ہے کہ اپنے لخت جگر کو اپنے ہاتھوں سے ذبح کر دیجیے اور قربان جائیے ایسے عظیم باپ اور سعادت مند فرزند کے کے دونوں بہ خوشی ﷲ تعالیٰ کے احکامات کی بجا آوری کے لیے ناصرف بہ سر و چشم تیار ہیں بل کہ عمل پیرا بھی ہیں۔

اس موقع پر جب کہ شیطان سیّدہ ہاجرہ اور ابراہیم علیہ السلام کو اس ایثار سے باز رکھنے کے تمام جتن کر رہا ہے اور خانوادۂ ابراہیم علیہ السلام اس کی مکروہ چالوں کو اپنے عزم صمیم سے ناکام بنا دیتے ہیں۔ آج تقریباً 4 ہزار برس سے زیادہ ہوگئے ہیں ایسے عظیم واقعہ کو ﷲ تعالیٰ نے امت مسلمہ کے ذریعے یاد گار بنا دیا اور قیامت تک اس کی یاد تازہ ہو تی رہے گی۔ حج اور قربانی دونوں عبادات ایثار، تحمل، برداشت، اطاعت و بندگی اور فنا فی ﷲ جیسے عظیم اوصاف سے عبارت ہیں۔

آج ہم اگر اپنا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ ان اعمال نے ہماری زندگی پر کیا اثرات مرتب کیے ہیں۔ قربانی محض جانوروں کے گلے پر چُھری پھیر دینے کا نام ہی نہیں بل کہ درحقیقت یہ عمل اپنے تمام نفسیاتی خواہشات پر ضرب کاری لگانے کا نام ہے جو ناصرف ﷲ تعالیٰ کی بندگی اور رسول اکرم ﷺ کی اطاعت سے روکے رکھتی ہے بل کہ معاشرتی بگاڑ، اخلاقی گراوٹ، ناجائز ذخیرہ اندوزی، کرپشن، لوٹ کھسوٹ، ظلم و زیادتی، سرکشی فحاشی، عریانی، جھوٹ، دھوکا دہی، ملاوٹ، باہم قتل و غارت، ڈاکا زنی و چوری، نشہ آور چیزوں کی خرید و فروخت اور ان کا استعمال ال غرض ہر برائی و فساد میں مبتلا کیے ہوئے ہیں۔

آج امت مسلمہ کی زبوں حالی ذلّت و رسوائی عالم کفر کے سامنے بے بسی کے باوجود ایک ارب سے زیادہ آبادی اور بیش بہا وسائل کی کیفیت یہ ہے کہ افغانستان، مصر، شام ، ارض فلسطین یہودیوں کے پنجۂ استبداد میں گھری مسجد اقصیٰ کسی نئے صلاح الدین ایوبی کی منتظر ہے۔ سیّدنا ابراہیم علیہ السلام کا وطن مالوف آج سام راج کے ظلم و جبر کی وجہ سے کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا، لاکھوں مسلمان موت کی نیند سلا دیے گئے۔

افغانستان تو ہمارے پڑوس میں واقع ہے۔ کارپٹ بمباری کے ذریعے خود ساختہ حکم رانوں کی پشت پناہی و حمایت نے ہی سات سمندر پار سے آنے والوں کے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ آج کشمیر کی بیٹیاں پھر کسی مرد مجاہد کی راہ دیکھ رہی ہیں۔ کیا ہم وہی مسلمان ہیں جو ایک مظلوم کی آواز پر آندھی طوفان بن کر ظلم کی قوتوں کے مقابل آہنی دیوار بن جاتے تھے۔

آج ہم لاکھوں کی تعداد میں حج کرتے اور کروڑہا قربانیاں دیتے ہوئے سنّت ابراہیمؑ کی یاد تازہ کر تے ہیں لیکن ہم نے کبھی سوچا بھی ہے کہ ان اعمال میں پوشیدہ حکمتیں اور تقاضے کیا ہیں؟ یقیناً اس کا جواب نفی میں ہے۔ ہم حج اور قربانی جیسی عظیم عبادات کے حقیقی مقاصد اور تقاضوں کو بھلا چکے ہیں جب کہ حج ہمیں عالم گیر اخوت اور اتحاد و اتفاق کا درس دیتا ہے جب کہ امت مسلمہ فرقوں، مسالک، قوموں اور وطنوں میں تقسیم ہے۔

قربانی اصلاح نفس اور ﷲ تعالیٰ کی راہ میں جان تک کی قربانی دینے کے عزم کا اظہار ہے اور ہم موت سے خوف زدہ ہو کر کفر کی اطاعت و فرماں بردار ی میں مصروف ہیں۔ اسلام آخری دین ہے۔

ﷲ تعالیٰ کی مشیت اپنے دین کے غلبہ کی ہے مسلمان آج دین سے دوری کی وجہ سے طوق غلامی پہنے اقوام مغرب کی چیرہ دستیوں کا شکار ہیں۔ کاش! ہم عیدالاضحیI کے عظیم الشان موقع پر جانوروں کے گلے پر چھری پھیر کر چند لمحات اس پر بھی غور کر لیں کہ کیا واقعی ہم نے اپنے نفس کے منہ زور گھوڑے پر بھی چھری چلادی ہے۔۔۔؟ لالچ، حرص، حسد، بغض و عناد، بے دینی اور منہات و منکرات کا گھلا گھونٹ دیا ہے۔۔۔۔؟ اگر ایسا ہے تو پھر آپ کو قربانیاں بھی مبارک اور حج کی سعادت بھی مبارک وگرنہ……؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔