ضمنی انتخاب: عمران خان کیوں جیتے؟

اظہر تھراج  پير 18 جولائی 2022
ضمنی انتخابات کے بعد پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی سب سے بڑی جماعت بن چکی ہے۔ (فوٹو: فائل)

ضمنی انتخابات کے بعد پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی سب سے بڑی جماعت بن چکی ہے۔ (فوٹو: فائل)

ایک بزرگ سے پوچھا کہ عمران خان کو کیوں ووٹ دے رہے ہیں؟ جواب آیا کہ وہ بہادر ہے، جھکتا تو نہیں ہے۔ پھر ایک لڑکی سے پوچھا کہ آپ نے کس کو ووٹ دیا؟ کہتی عمران خان کو۔ پھر سوال اٹھایا کہ کیوں؟ وکٹری کا نشان بناتے ہوئے بولی ’’ہم کوئی غلام ہیں‘‘۔

یہ تو ایک نمونہ تھا، پولنگ ڈے پر ہر پولنگ اسٹیشن کی یہی صورتحال تھی۔ نیکر پہنے نوجوان جوق در جوق پولنگ اسٹیشنز پہنچے اور اپنے پسندیدہ امیدواروں کو ووٹ ڈالا۔ کہیں بھی، کسی جگہ بھی دنگا فساد کا منظر دیکھنے کو نہیں ملا۔ انتخابی بے ضابطگی کے اِکا دُکا واقعات سامنے آئے۔ جو پی ٹی آئی رہنما مسلح گارڈز کے ساتھ آئے ان کو گرفتار کیا گیا، جن پر شبہ تھا کہ وہ گڑبڑ کریں گے ان کو پنجاب میں داخل ہی نہیں ہونے دیا گیا۔ پنجاب میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں پوری مہم بھرپور رہی۔ الیکشن پرامن رہا۔ نتائج آنے پر ہارنے والے جیتنے والے کو مبارکباد دیتے ہوئے اور جپھیاں ڈالتے ہوئے بھی دیکھے گئے۔

پی ٹی آئی پورے صوبہ میں شاندار طریقے سے جیت چکی ہے۔ منحرف ارکان یا ’’لوٹوں‘‘ کو ہر حلقے میں بری طرح شکست ہوئی ہے۔ پی ٹی آئی اپنی 15 نشستیں بچانے میں کامیاب رہی۔ ایک آزاد امیدوار نے میدان مار لیا۔ مسلم لیگ ن نے پی ٹی آئی کی 4 نشستیں حاصل کرلیں لیکن حمزہ شہباز کی وزارت اعلیٰ کی ’’پگ‘‘ پر داغ لگ چکا ہے، وہ اب وزیراعلیٰ نہیں رہے۔ بقول اسد عمر ق لیگ کے چوہدری پرویز الہٰی 22 جولائی کو وزیراعلیٰ کا منصب سنبھال لیں گے۔ چوہدری پرویز الہٰی کو عمران خان کی حمایت حاصل ہے۔

ضمنی انتخابات کے بعد پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی سب سے بڑی جماعت بن چکی ہے۔ تحریک انصاف 15 نئی نشستوں کے بعد 178 پر پہنچ گئی۔ ن لیگ 4 سیٹوں پر کامیابی کے بعد 167 پر پہنچ گئی۔ ق لیگ 10، پیپلز پارٹی 7، آزاد ارکان کی تعداد 6، پاکستان راہ حق پارٹی کا ایک ممبر بھی اسمبلی کا حصہ، حکومتی اتحاد 179، اپوزیشن اتحاد کی تعداد 188 ہوگئی۔ پنجاب اسمبلی کا ایوان 371 پر مشتمل، ن لیگ کے 2 ارکان مستعفی ہوچکے۔

پی ٹی آئی کے امیدوار کیوں جیتے؟ حکومت ہونے کے باوجود ن لیگ کے امیدوار کیوں ہارے؟ اس کے کچھ بنیادی فیکٹرز ہیں۔

پی ٹی آئی کی کامیابی میں جو سب سے اہم کردار ہے وہ عمران خان کا بیانیہ ہے۔ اور سچا ہو یا جھوٹا، عمران خان اس بیانیے کو عوام کے ذہنوں میں انجیکٹ کرنے میں کامیاب رہے۔ نوجوان عمران خان کی بات کے علاوہ کسی کی بات سننے کو تیار نہیں۔ کپتان جو کہتا ہے کھلاڑی اس پر سر جھکا کر عمل کرتے ہیں۔ پی ٹی آئی کی کامیابی کی دوسری بڑی وجہ الیکشن کے عمل میں شفافیت ہے۔ اس الیکشن کو شفاف بنانے میں جتنا کردار الیکشن کمیشن، اداروں کا ہے، اس سے بڑھ کر خود پی ٹی آئی ٹیم کا ہے، جس نے اپنے ووٹوں پر پہرہ دیا اور کہیں بھی کسی گڑبڑ سے الیکشن عمل کو بچائے رکھا۔ تیسری وجہ پی ٹی آئی کی کامیاب اور بھرپور انتخابی مہم ہے۔ چوتھی بڑی وجہ کسی الیکٹیبل پر اکتفا کرنے کے بجائے اپنے کارکنوں کو میدان میں اتارنا ہے۔ پی ٹی آئی امیدواروں کی ایک خاص بات یہ تھی کہ نوجوان اور فریش چہرے تھے، کہیں کہیں کچھ پرانے لوگ بھی نظر آئے۔ اس لیکشن میں جہاں پی ٹی آئی نے اپنی سیٹیں بچائی ہیں، وہیں عمران خان کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اس الیکشن میں پی ٹی آئی نے پہلے سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے مطابق ووٹنگ ٹرن آئوٹ 49.69 فیصد رہا۔ پی ٹی آئی 46.80 فیصد ووٹ لے کر پہلے نمبر پر رہی، ن لیگ 39.50 فیصد ووٹ حاصل کرسکی۔

ن لیگ کے امیدوار کیوں ہارے؟

ن لیگ کے امیدواروں کی ہار کی سب سے بڑی وجہ پی ٹی آئی کے منحرف ارکان کو ٹکٹ دینا تھا۔ جن لوگوں سے ووٹر نفرت کرتے تھے ن لیگ کا ان کو ٹکٹ دینا سمجھ سے بالاتر تھا۔ پارٹی قیادت کے اس فیصلے سے متعدد امیدوار آزاد لڑے اور اچھے خاصے ووٹ حاصل کیے۔ آزاد امیدواروں کے ووٹ کا نقصان ن لیگ کو ہوا۔ اگر ان آزاد امیدواروں کے ووٹ بھی ن لیگ کو مل جاتے تو حالات مختلف ہوتے۔ دوسری بڑی وجہ حکومت کے سخت فیصلے ہیں۔ شہباز حکومت نے وہی فیصلے کیے جن کی وجہ سے عوام عمران حکومت سے ناراض تھے۔ مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ رکھی ہے، ایسے میں عام ووٹر ن لیگ سے سخت ناراض دکھائی دیا۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ 20 کی 20 نشستیں ن لیگ کی نہیں تھیں۔ 2018 کے عام انتخابات میں ان سیٹوں پر پی ٹی آئی کامیاب ہوئی یا آزاد امیدوار جیتے تھے۔

کون جیتا کون ہارا، اس سے بالاتر ایک بات تو طے ہے کہ اب ماضی کے کھیل نہیں کھیلے جاسکتے۔ پھٹے لگا کر یا بیساکھیاں لگا کر حکومتیں نہیں بنائی جاسکتیں۔ اب وہ وقت گزر گیا کہ چار ٹرکوں پر وردی والے بٹھا کر اقتدار کو حاصل کرلیا جائے۔ اب سوشل میڈیا کا دور ہے، کسی سے کوئی بات چھپی نہیں رہتی۔ اب ’’خفیہ‘‘ کاموں کا سخت ردعمل آتا ہے۔ اب جو بھی بہادری دکھائے گا، کھڑا رہے گا، مزاحمت کرے گا، وہی کامیاب ٹھہرے گا۔ پاکستان کے عوام بہادر لوگوں کو پسند کرتے ہیں، بہادر لوگوں کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ نواز شریف حکومت سے نکالے جانے کے بعد لندن چلے گئے، عوام میں مقبولیت کھو بیٹھے۔ شہباز شریف نے مفاہمت کرکے ان کے مزاحمتی بیانیے پر پانی پھیر دیا۔

عمران خان حکومت سے نکالے جانے کے بعد کھڑے ہوگئے، اپنے ووٹرز، سپورٹرز کو مفاہمت سے مزاحمت پر لے آئے اور کامیاب ہوگئے۔ حکومتیں بنانے اور گرانے والوں کو بھی اب عوام کے فیصلوں کا ساتھ دینا چاہیے۔ اسی میں پاکستان کی بقا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

اظہر تھراج

اظہر تھراج

بلاگر سینئر صحافی، یوٹیوبر اور مصنف ہیں۔ روزنامہ خبریں، نوائے وقت اور ڈیلی پاکستان میں کام کرچکے ہیں اور آج کل 24News سے وابستہ ہیں۔ ان سے ٹویٹر، فیس بک اور انسٹاگرام پر @azharthiraj کے ذریعے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔