ساری خوشیاں ہم سے دور ہو گئیں

آفتاب احمد خانزادہ  جمعـء 22 جولائی 2022
aftabkhanzada2@yahoo.com

[email protected]

انسان پہلے حیوان ہے بعد میں انسان۔ وہ گوشت پوست اور خون کا بنا ہے، یہ ایک ترقی یافتہ حیوان ہے جس میں ذہانت، تخلیق جوہر اور جمالیاتی حس موجود ہے۔ فطری تقاضوں کو دبائے رکھنے والی قوم ذہنی مریض ہوتی ہے اور ذہنی مریض معاشی، سماجی اور سائنسی ترقی میں کمال حاصل نہیں کرسکتے۔ مکمل انسان بننے کے لیے سماج کو کھلا رکھنا اور انسان کو آزادی، خوشحالی اور خوشی دینا بہت ضروری ہے۔

ہمارا وحشت ناک المیہ یہ ہے کہ ہمارا شمار حیوانوں میں ہے نہ انسانوں میں، انسانوں کی زندگی سے ترقی، مسرت اور خوشحالی کے عوامل نکال دیے جائیں تو یہ زندگی جانوروں سے بدتر ہو جاتی ہے۔ ہمارے سماج میں عام انسانوں کا خوشی کی جبلتوں کا اظہار لہو و لعب میں شمار ہوتا اور مکروہ فعل سمجھا جاتا ہے، مور جنگل میں ناچ سکتا ہے، پرندے چہچہا سکتے ہیں، پانی کی ندیاں گنگنا سکتی ہیں، آبشاریں شور مچا سکتی ہیں، درختوں کی ٹہنیاں جھوم سکتی ہیں لیکن عام انسان خوش نہیں ہوسکتے۔ ہمارے سماج میں صرف Elite کلاس خوش ہوسکتی ہے جو حیوانی اور انسانی سطح کی سب لذتوں سے بہرہ مند ہے۔

اس نے اخلاقیات کے سب اسباق عام آدمی کے لیے رکھ چھوڑے ہیں تاکہ عام لوگوں کے حصے کی خوشیوں پر قبضہ جاری رکھا جاسکے۔ عام آدمی خوبصورتی، خوشیوں، لذتوں اور خوشحالی کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ ایسی منافقت، ایسی بے حسی، ایسا دوغلا پن، ایسا شرمناک فعل آپ کو دنیا بھر کے کسی سماج میں نہیں ملے گا۔ ایسی گھٹن آپ کو کہیں اور دکھائی نہیں دے گی۔

اسی لیے ہمارے سماج میں عام لوگ تکالیف کو خوش آمدید کہتے ہیں اور اداسی سے لطف اندوز ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ نوبل انعام ملنے پر امریکا کے عظیم ادیب ولیم فاکز نے اپنی تقریر میں کہا تھا ’’یہ انعام مجھے نہیں میرے کام کو دیا گیا ہے۔‘‘ ولیم فاکز نے اپنے ناول میں مرتی تہذیب اور بکھرے خاندانوں کے نقشے کھینچے ہیں “Sound and Fury” اس کا اہم اور مقبول ترین ناول ہے۔

اس ناول کا عنوان اس نے شیکسپیئر کے ڈرامے ’’میکبتھ‘‘ کے ایک مشہور مصرعے سے لیا “Life is a Tale Told by an Idoit. Fully of sound and Fury Signifying Nothing” اس ناول کی کہانی ایک خاندان کی کہانی ہے جو بتدریج عروج سے زوال کی طرف گامزن ہے۔ ایک ایسے گلدستے کا قصہ ہے جس کا ہر پھول اور پھول کی ہر پتی بکھر کر ریزہ ریزہ ہوچکی ہے۔

ایک ایسا خاندان جس کے کردار ایک طرف اپنے ماضی اور عظمت رفتہ کی یادوں میں ڈوبے ہوئے ہیں اور دوسری طرف اپنی بچی کچھی عزت کی دھجیاں بکھیرنے میں مصروف ہیں۔ یہ ایسی معصومیت کی داستان ہے جو کہیں کھو گئی ہے اور جسے تلاش کرنا ناول نگار کے بس کی بھی بات نہیں۔ اگرچہ یہ ناول ایک خاندان کا المیہ ہے لیکن اس کہانی میں ایک پورا عہد ایڑیاں رگڑ رگڑ کر دم توڑ رہاہے۔

آپ جب اس ناول کو پڑھ رہے ہوں گے تو آپ کو محسوس ہو رہا ہوگا کہ آپ پاکستانی سماج کے گھر گھر کی کہانی پڑھ رہے ہیں۔ 448 قبل از مسیح کے عظیم طربیہ نگار ارسٹو فینیز کے ڈراموں میں اپنے عہد کی سیاست، روز مرہ کی زندگی پر ایک بھرپور طنز پایا جاتا ہے۔

اس کے ڈراموں میں ایتھنز کی زندگی کے بھرپور نقشے ملتے ہیں۔ فرانسیسی مزاح نگار والٹیر کا کہنا ہے ’’ میں جب ارسٹو فینیز کے طربیہ ڈرامے پڑھتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے جیسے میں ڈرامے نہیں اس زمانے کا اخبار پڑھ رہا ہوں جس میں ایتھنز کے حالات بڑی تفصیل کے ساتھ لکھے ہوئے ہیں۔‘‘ بالکل اسی طرح جب ہم “Sound and Fury”پڑھتے ہیں تو ہمیں محسوس ہوتا ہے۔

جیسے ہم ناول نہیں بلکہ آج کے پاکستان کا کوئی اخبار پڑھ رہے ہیں جس میں پاکستانی سماج کے حالات بڑی تفصیل کے ساتھ لکھے ہوئے ہیں۔ پاکستانی سماج کا ہر انسان سالوں سے تھوڑا تھوڑا کرکے مر رہا ہے۔ اب ہمارے سماج میں انسان کم اور لاشیں زیادہ پائی جاتی ہیں۔ ایسی لاشیں جن کے دل اور دماغ مر چکے ہیں جن کے اندر احساسات، جذبات نام کی کسی چیز کا کوئی وجود نہیں ہے۔

عظیم امریکی شاعر Walt Whitman جو 1819میں پیدا ہوا کہتا ہے ’’میں بیٹھا دیکھتا ہوں، میں دنیا کے تمام دکھوں اور تمام ظلم اور شرمناکی کو بیٹھتا دیکھتا ہوں۔ میں ان نوجوانوں کو جو اپنے کیے پر پچھتاتے ہوئے خود اپنے آپ سے دکھی ہیں۔ چوری چھپے تلملاتے ہوئے سسکیاں لیتے سنتا ہوں، میں دیکھتا ہوں کہ نیچ لوگوں میں اولاد اپنی ماں سے بد سلوکی کر رہی ہے جو کسما پرسی کے عالم میں سوکھ کے کانٹا ہو چکی ہے۔

میں میاں کو بیوی سے بدسلوکی کرتے دیکھتا ہوں، میں ان غریب سازوں کو دیکھتا ہوں جو نوجوان عورتوں کو ورغلا کر خراب کرتے ہیں، میں حسد کی چنگاریوں اور اکارت جانے والی محبت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کو دیکھتا ہوں۔ میں دنیا میں یہ سب کچھ دیکھتا ہوں، میں جنگ، وبا اور استبداد کی کارستانی دیکھتا ہوں، میں شہیدوں اور زندانیوں کو دیکھتا ہوں۔ میں دیکھتا ہوں کہ سمندر پر کال پڑا ہے۔ میں ملاحوں کو اس بات کے لیے قرعہ اندازی کرتے دیکھتا ہوں کہ باقیوں کی جان، بچانے کے لیے کسے مارا جائے، میں دیکھتا ہوں کہ اہل تکبر مزدوروں، غریبوں، حبشیوں اور ان ہی جیسوں کو کس طرح ذلیل اور رسوا کرتے ہیں۔

یہ سب کچھ، یہ تمام کمینگی اور کرب جس کا کوئی انت نہیں۔ بیٹھا دیکھتا ہوں، دیکھتا ہوں، سنتا ہوں، اور چپ رہتا ہوں۔‘‘ ربی ہیرالڈایس کشنر اپنی کتاب ’’جب کچھ بھی کافی نہیں ہوتا‘‘ کہ آخری حصے میں اس سوال کا جواب دیتا ہے وہ لکھتا ہے ’’اس سے میرے بینک اکاؤنٹ یا دولت و شہرت کے حصول کے مواقع میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ آخر میں ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ان چیزوں سے واقعی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر ہم اپنی ذات اور اپنی جبلی انسانی فطرت سے مخلص ہیں تو پھر فرق پڑتا ہے کیونکہ ہماری فطرت کو دیانت داری اور رحم دلی جیسی چیزوں کی ضرورت ہے۔

ان کے ہوتے ہوئے ہماری فطرت نرمی سے پروان چڑھتی ہے اور انھیں نظر انداز کرنے کی صورت میں اس میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔ اگر ہم خود غرضی پر مبنی زندگی گزارنے کے بجائے دوسروں کے لیے جیئں تو پھر فرق پڑتا ہے۔‘‘ قدیم مفکر ین کا کہنا ہے کہ خوشی کی خود غرضانہ جستجو کا نتیجہ متضاد ہوتا ہے یعنی آپ اس کی تلاش کے لیے جتنی بھاگ دوڑ کریں گے اتنا ہی اس سے دور ہوتے چلے جائیں گے۔ خود غرضی سے حقیقی خوشی حاصل نہیں ہوتی۔ ایسے لوگ جو ہمیشہ اپنی ذات کے بارے میں سوچتے ہیں انھیں ’’خوشی کا مالک‘‘ نہیں کہا جا سکتا۔

یونانی فلسفی ارسطو نے کہا تھا کہ ’’خوشی پر مبنی زندگی ہی مثالی زندگی ہے‘‘ خوشی عقل کے مطابق عمل کرنے، سچائی پر عمل پیرا ہونے، مقصد کے احساس کی تکمیل، دنیا کے ساتھ بھرپور رابطہ رکھنے اور خاص طور پر انسانی پیار، دوستی اور تجربے کا نام ہے۔ فلسفی شہنشاہ مارکیوز اورلیوس کہتا ہے کہ انسان کی خوشی سچائی میں پوشیدہ ہے۔

عظیم گونگی، بہری اور نابینا ہیلن کیلر اپنی کتاب ’’میری زندگی کی کہانی‘‘ میں لکھتی ہے ’’حقیقی خوشی کے حوالے سے بیشتر لوگ غلطی پر ہیں۔ یہ ذاتی تسکین سے نہیں بلکہ کسی قابل قدر مقصد کے لیے استقامت سے عمل کرنے کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہے۔‘‘ جرمن فلسفی ایمانویل کانٹ کے مطابق ’’اخلاقیات اس بات کا نام نہیں کہ ہم نے اپنے آپ کو کیسے خوش کرنا ہے بلکہ یہ اس بات کا نام ہے کہ ہم اپنے آپ کو کیسے خوشی کا حقدار بنا سکتے ہیں۔‘‘کاش یہ سچائیاں اگر ہماری Elite کلاس کی سمجھ میں آ جاتیں تو وہ ایک واہیات، بیہودہ، لچر، فضول زندگی ہرگز نہیں گزار رہے ہوتے۔ دنیا بھر کے مفکر ین، فلسفی، ماہر نفسیات قبل مسیح سے لے کر آج تک اس بات پر متفق ہیں کہ دولت کے خزانے ہرگز ہرگز آپ کو خوشیاں نہیں دے سکتے۔

اس کی وجہ سے آپ اپنے آپ کو ساری زندگی بے وقوف بناتے رہتے ہیں اور پھر ایک دن آپ اپنے آپ کو کوس رہے ہوتے ہیں۔ اپنے آپ پر تمام کر رہے ہوتے ہیں۔ برطانوی ماہر نفسیات آر ڈی لینگ کہتی ہے کہ ’’لگتا ہے انسانوں میں اپنے آپ کو دھوکا دینے کی بے پایاں صلاحیت پائی جاتی ہے۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔