- قومی اسمبلی میں دوران اجلاس بجلی کا بریک ڈاؤن، ایوان تاریکی میں ڈوب گیا
- سوئی سدرن کے ہزاروں ملازمین کو ریگولرائز کرنے سے متعلق درخواستیں مسترد
- 4 افراد کا قتل؛ بی جے پی رہنما کے بیٹے نے والدین اور سوتیلے بھائی کی سپاری دی تھی
- دوست کو گاڑی سے باندھ کر گاڑی چلانے کی ویڈیو وائرل، صارفین کی تنقید
- سائنس دانوں کا پانچ کروڑ سورج سے زیادہ طاقتور دھماکوں کا مشاہدہ
- چھوٹے بچوں کے ناخن باقاعدگی سے نہ کاٹنے کے نقصانات
- ایرانی صدر کا دورہ کراچی، کل صبح 8 بجے تک موبائل سروس معطل رہے گی
- ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کراچی پہنچ گئے، مزار قائد پر حاضری
- مثبت معاشی اشاریوں کے باوجود اسٹاک مارکیٹ میں مندی کا رجحان
- اسلام آبادہائیکورٹ کے فل کورٹ اجلاس میں خط لکھنے والے 6 ججوں کی بھی شرکت
- اقوام متحدہ کے ادارے پر حماس کی مدد کا اسرائیلی الزام جھوٹا نکلا
- نشے میں دھت مسافر نے ایئرہوسٹس پر مکے برسا دیئے؛ ویڈیو وائرل
- سعودیہ سے دیر آنے والی خاتون 22 سالہ نوجوان کے ساتھ لاپتا، تلاش شروع
- بیوی کی ناک اور کان کاٹنے والا سفاک ملزم ساتھی سمیت گرفتار
- پنجاب میں پہلے سے بیلٹ باکس بھرے ہوئے تھے، چیئرمین پی ٹی آئی
- ٹریفک وارڈنز لاہور نے ایمانداری کی ایک اور مثال قائم کر دی
- مسجد اقصی میں دنبے کی قربانی کی کوشش پر 13 یہودی گرفتار
- پنجاب کے ضمنی انتخابات میں پولیس نے مداخلت کی، عمران خان
- 190 ملین پاؤنڈز کیس؛ وکلا کی جرح مکمل، مزید 6 گواہوں کے بیان قلمبند
- حکومت تمام اخراجات ادھار لے کر پورا کررہی ہے، احسن اقبال
ایم کیو ایم پاکستان کی قیادت کامران ٹیسوری کی واپسی پر اختلافات کا شکار
کراچی: متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی رابطہ کمیٹی اور ممبران قومی و صوبائی اسمبلی پر مشتمل قیادت کامران ٹیسوری کی واپسی پر اختلافات کا شکار ہو گئی ہے۔
ذرائع کے مطابق اہم پارٹی عہدیداروں نے کامران ٹیسوری کی واپسی پر تحفظات کا اظہارکرتے ہو ئے کہا کہ اگر پارٹی کے فیصلے 4 لوگوں نے کرنے ہیں تو ہم گھر بیٹھ جاتے ہیں۔
پارٹی ذمہ داران کا کہنا ہے کہ ایک متنازعہ شخص کو واپس لیا اور اہم عہدہ بھی دے دیا گیا، پارٹی قیادت نے اپنے فیصلے پر نظر ثانی نا کی تو ہم فیصلہ کرنے میں آزاد ہوں گے۔
اراکین رابطہ کمیٹی اور ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کا کہنا ہے کہ مشکل حالت میں پارٹی کے ساتھ کھڑے رہے لیکن پارٹی میں فرمائشی پروگرام نہیں چلے گا۔
ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم پاکستان کی قیادت کے 4 اہم رہنماؤں نے چند روز قبل کامران ٹیسوری کو پارٹی میں واپس لیا اور ڈپٹی کنوینئر کا عہدہ بھی دے دیا۔
ناراض پارٹی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ 5 فروری 2018 کو کامران ٹیسوری کی وجہ سے ایم کیو ایم بہادر آباد اور پی آئی بی میں تقسیم ہوگئی تھی جس کا خمیازہ 2018 کے عام انتخابات میں نتائج کی صورت میں بھگتنا پڑا۔
ذرائع نے بتا یا کہ 4 اہم رہنماؤں نے باہمی مشاورت سے یہ فیصلہ کیا اور رابط کمیٹی، اراکین اسمبلی، سینیٹرزاور پارٹی کے ذمہ داران کی رائے لینے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی۔
ایم کیو ایم کا بڑا حصہ کامران ٹیسوری کی واپسی پر ناراض ہے چند اہم رہنماؤں نے واضع طور پر 4 اہم رہنماؤں کو پیغام دے دیا ہے کہ اگر کامران ٹیسوری کو ڈپٹی کنوینر اور پارٹی سے فارغ نہیں کیا گیا تو وہ فیصلہ کرنے میں آزاد ہیں۔
ذرائع کے مطابق کامران ٹیسوی کو واپس لانے والے رہنماؤں نے ناراض قیادت کو بتایا ہے کہ صرف 15 دن انتظار کریں بہت مثبت پیش رفت ہوگی، فیصلہ بہت سوچ بیچار کرکے کیا گیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہےکہ ایم کیو ایم کی قیادت میں شدید نوعیت کے اختلافات ہوگئے ہے جن کو بہتر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، وفاقی وزیر امین الحق نے اورنگی ٹاون میں میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ایم کیو ایم جمہوری پارٹی ہے اس میں رابطہ کمیٹی کے اراکین اختلاف رائے کا اظہار کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کامران ٹسوری اور حالیہ اجلاس کے فیصلوں پر ایک اور فل کورم اجلاس بلایا جائے گا، فل کورم رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں اراکین کے اختلافات اور فیصلوں پر بات چیت ہوگی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایم کیو ایم میں لوگ آتے اور جاتے رہے لیکن پارٹی اسی طرح قائم رہی،نائن زیرو ہو یا کوئی بھی اور جگہ اگر کہیں مشکوک واقعہ ہوتا ہے تو اسکی غیر جانبدار تحقیقات ہونی چاہیئے۔
دوسری جانب رابطہ کمیٹی ایم کیو ایم پاکستان نے اپنے ایک اعلامیہ میں کہا ہے کہ رابطہ کمیٹی میں اختلافات کی خبریں بے بنیاد ہیں ایسی تمام گمراہ کن خبروں کی سختی سے تردید کرتے ہیں اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے۔
رابطہ کمیٹی کے تمام اراکین کو اپنی رائے دینے کا حق حاصل ہےکوئی بھی متفقہ فیصلہ اجتماعی مفادات اور مضمرات کو پیش نظر رکھ کر کیا جاتا ہے، رابطہ کمیٹی اپنے تمام تر فیصلے باہمی مشاورت سے کرتی ہے۔
رابط کمیٹی نے میڈیا نمائندگان سے گزارش کی ہے کہ کوئی بھی خبر نشر کرنے سے پہلے اسکی تصدیق ضرور کریں،
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔