پانی، ویرانی اور بے سروسامانی !

رضوان طاہر مبین  اتوار 11 ستمبر 2022
سیلاب زدگان کی مدد کے لیے متحرک فلاحی تنظیموں کے رہنماؤں سے گفتگو۔ فوٹو: فائل

سیلاب زدگان کی مدد کے لیے متحرک فلاحی تنظیموں کے رہنماؤں سے گفتگو۔ فوٹو: فائل

 کراچی: ”اللہ میاں پانی دے!
سو برس کی نانی دے!“

بچپن میں ساون کے موسم اور اس میں گِھر گِھر کے آنے والی گھٹاﺅں پر بچوں کو اِن فقروں پر جھومتے گاتے ہوئے بہت سوں نے دیکھا ہوگا مگر ہم ٹھیرے ذرا مختلف مزاج کے بہت زیادہ تیز بارش اور اس پر بادلوں کی زور دار گھن گرج ہمیں کافی خوف زدہ کر دیتی تھی پھر بات بھی کچھ ایسی تھی کہ پرانے گھر کے کچھ حصے بارش میں ٹپکنے بھی لگے تھے، سو تبھی سے ہم یہ بات بہت اچھی طرح سمجھ سکتے تھے کہ تیز بارش ہر ایک کے لیے خوشی اور رحمت کا باعث نہیں ہوتی، اور جو کچے مکانات والے اور کسی سائبان سے محروم لوگ ہیں، ان کے لیے تو ابرِ رحمت سراسر مسئلہ ہی مسئلہ ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ جن کے گھر ذرا نیچے ہو گئے ہیں، یا وہ نشیبی علاقوں میں رہتے ہیں، ان کے گھروں کے اندر پانی بھرنے کا بھی بہت بڑا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے، ہمارا محلہ اس اعتبار سے خوش نصیب تھا کہ قدرے بلندی پر تھا اور اس میں ہماری چھے نمبر گلی بھی نسبتاً اونچائی پر تھی، جس کے بعد ڈھلان بہ تدریج گلی نمبر ایک اور دو تلک جاتی تھی، سو اکثر برسات کے بعد انھی ابتدائی گلیوں کا علاقہ ایک جھیل کا سا منظر پیش کرتا تھا، لیکن لیکن یہاں بھی پانی کبھی ایک، آدھ فٹ سے زیادہ جمع نہیں ہواگھر بھی اونچے تھے، جن کے آگے تھلّے اور چبوترے بھی بنے ہوئے ہوتے تھے، اس لیے کبھی صورت حال اتنی پریشان کُن نہیں ہوتی تھی۔

پھر وقت کے پھیروں میں ہم بھی بڑے ہوگئے، پرانی گلی اور گھر بھی چُھوٹا، لیکن اب موجودہ گھر میں بھی کچھ عرصے بعد برساتی پانی کے مسئلے مسائل پیدا ہونے لگے، بہت زیادہ دیر بارش ہو تو ایک کمرے کی چھت ٹپکنے لگتی، گھر کے کھلے حصوں سے بارش کا پانی اندر آتا تو دوسرے کمرے کا قالین گیلا ہوتا اور پھر موسلا دھار بارش کے بعد چھت کا دیر تک ٹپکتے رہنا، گھر بھر کے اُٹھے ہوئے بِچھونے کے باعث ہونے والی بے آرامی درپیش رہی۔ پھر خدا خدا کر کے چھت کی مرمت کرائی گئی، لیکن اس کے باوجود پانی تو پانی ہے گذشتہ مہینے وقتاً فوقتاً مسلسل برسات کا سلسلہ رہا، ایک دن تو جب لگاتار 15، 16 گھنٹے تک بارش تھمنے کا نام نہ لیتی تھی، تو اس وقت قدرے خوف سا آیا تھا در و دیوار کی سطح مسلسل برستے مینہ کے سبب کائی زدہ ہونے لگی تھی، مرمت شدہ پکی چھتیں بھی اب جا بہ جا ’سیلی‘ ہوگئی تھیں، بہت سی جگہوں سے پانی بھی ٹپکنے لگا تھا ظاہر ہے کئی دنوں سے مسلسل بھیگے رہنے والے پکے سیمنٹ پر جب مستقل پانی برسے گا، تو ایک وقت آئے گا کہ وہ بھی متاثر ہونے لگتا ہے

لیکن ہماری یہ پریشانیاں اور یہ مسئلے مسائل ان لوگوں کے مسائل کے آگے کچھ بھی نہ تھے کہ کراچی میں بھی جن کے گھروں میں پانی بھر آیا تھا اور پھر جو ملک بھر میں سیلابی صورت حال پیدا ہونے کے سبب خوف ناک تباہی ہو رہی ہے، اس کے آگے ہمارے شہر میں ٹوٹی پھوٹی سڑکوں، گندے پانی، کوڑا کرکٹ کے انبار اور کیچڑ کی غلاظتوں کی کیا حیثیت ہے! وہ غریب، جن بے چاروں کی عمر بھر کی پونجی لٹ گئی، کچے گھر ڈھے گئے، مال مویشی بھی منہ زور سیلابی ریلے کی نذر ہوگئے ہیں لہٰذا ملک بھر کی طرح کراچی سے بھی درجنوں فلاحی ادارے میدان عمل میں آئے اور ان کے سینکڑوں رضا کار نامساعد حالات کے باوجود ان مصیبت زدہ علاقوں کی طرف گئے اور سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے پوری طرح جُت گئے۔

”ایکسپریس“ نے ایسے ہی کچھ فلاحی اداروں کے ذمہ داران اور رضا کاران سے سیلاب زدہ علاقوں کی آنکھوں دیکھی صورت حال، مشاہدات اور تجربات وغیرہ کی بابت خصوصی گفتگو کی، جس میں احمد ایدھی (اسسٹنٹ زونل انچارج کراچی، ایدھی فاﺅنڈیشن)، خیر محمد تنیو (ڈائریکٹر ڈیزاسٹر مینجمنٹ، الخدمت فاﺅنڈیشن، سندھ)، ریحان یسین (ڈائریکٹر، عالمگیر ویلفیئر ٹرسٹ انٹرنیشنل)، ظفر عباس (روح و رواں، جے ڈی سی)، سید محمد ارسلان (ڈائریکٹر، ایچ آر، ہمدرد فاﺅنڈیشن)، جبران حیدر (چیئرمین، اقرا فاﺅنڈیشن)، طلحہ عالم (سیکرٹری جنرل طوبیٰ فاﺅنڈیشن) اور راشد مکرم (صدر الخدمت فاﺅنڈیشن، سکرنڈ) شامل ہیں، جب کہ ’خدمت خلق فاﺅنڈیشن‘ (کے کے ایف) کی امدادی سرگرمیوں کے حوالے سے جب ’ایم کیو ایم‘ کے ذرایع سے رابطہ کیا گیا، جس سے یہ تاثر ملا کہ ’کے کے ایف‘ اس وقت فعال نہیں، اس لیے امدادی سرگرمیاں براہ راست ’ایم کیو ایم‘ ہی کے زیر اہتمام کی جا رہی ہیں۔
٭ شاید وہاں کوئی نہ پہنچ سکا ہو!

سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے حوالے سے ہمیں مجموعی طور پر جو معلومات حاصل ہوئیں، اس سے یہ خدشہ ہے کہ بہت سے دور افتاد یا دشوار گزار علاقوں میں کوئی بڑا المیہ نہ جنم لے لے کہ کوئی دور پرے کی بستی پانی میں محصور نہ رہ گئی ہو، کہیں کسی علاقے کی آبادی رابطہ نہ ہونے کے سبب شدید نوعیت کے مسائل سے دوچار نہ ہو۔ احمد ایدھی بتاتے ہیں کہ سندھ میں جوہی کا علاقہ مکمل طور پر ڈوب چکا ہے۔ شہداد کوٹ کی تحصیل ’واڑہ‘ اور ’مہر‘ میں سب سے بدتر صورت حال سامنے آئی۔ جہاں بہت سے سرکاری اسکول بھی قابل پناہ نہیں رہے، لوگ سڑکوں پر اپنے بچے کچھے سامان کے ساتھ موجود ہیں اور سیلابی صورت حال کے باعث راستے بھی منقطع ہو رہے ہیں۔ گاڑیوں سے جانا تقریباً ناممکن ہے۔ ہم اپنی چھے گاڑیوں میں سامان لے کر گئے، جس میں سے تین گاڑیاں پانی کے باعث راستے ہی میں بند ہوگئیں۔ سندھ میں دراصل بلوچستان سے بھی سیلابی پانی آرہا ہے اور ساتھ ہی سرکاری طور پر جو ’بند‘ سے کٹ لگا کر نکاسی کی گئی ہے، اس کی وجہ سے مسلسل سیلابی پانی کی آمد جاری ہے۔ امدادی سرگرمیوں کے دوران پانی کی سطح بلند ہونے پر بھی ہمیں وہاں سے لوٹنا پڑا، کیوں کہ یہ خدشہ پیدا ہوگیا تھا کہ بچا کچھا واحد زمینی راستہ بھی مکمل طور پر نہ کٹ جائے۔ سیلاب سے بڑے پیمانے پر فصلوں کی تباہی کے ساتھ مویشی تو ہر جگہ مرے ہیں، لیکن ’واڑہ‘ میں اس قدر جانور ہلاک ہوئے ہیں کہ سارا پانی سخت تعفن زدہ ہو چکا ہے۔

’طوبیٰ فاﺅنڈیشن‘ کے جنرل سیکریٹری طلحہ عالم نے بھی کچھ ایسے ہی خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہ خراب صورت حال کے باعث دشوار گزار علاقوں کے زمینی راستے بھی منقطع ہیں، اس لیے بھی اصل متاثرین کی بہت بڑی تعداد امدادی سرگرمیوں سے محروم رہ رہی ہے۔ ٹنڈو جان محمد چک 244 کے قریب غالباً جمنا آباد کے علاقے میں پانی کی سطح 12 فٹ تک بلند ہے، وہاں کا پل بھی ٹوٹ گیا ہے۔ جس کے باعث آگے جانا ممکن ہی نہیں ہو رہا۔ ہم بہت سی جگہوں پر سامان بانٹنے اپنے ٹریکٹروں پر گئے، جہاں نشیبی علاقوں میں یہ حالت تھی کہ ہمارے ٹریکٹر کا پورا پہیا پانی میں ڈوب رہا تھا۔

کراچی سے جبران حیدر (چیئرمین اقرا فاﺅنڈیشن) بھی سماجی سرگرمیوں کے لیے سیلاب زدہ علاقوں میں موجود ہیں، جہاں مستقل سیلابی پانی میں بھیگے رہنے کے باعث ان کے پیروں کی جلد خاصی خراب ہو چکی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ سندھ کے زیر آب بیش تر علاقے دیہی ہیں، جن میں فصلیں اور زرعی زمینیں ہیں۔ پہلے برسات کے سبب خیموں کی زیادہ ضرورت تھی، اب برسات تو نہیں ہو رہی، لیکن پانی اب بھی کھڑا ہوا ہے، لاڑکانہ کے مرکزی شہر کے کچھ علاقے ابھی محفوظ ہیں، قمبر شہداد کوٹ کی طرف راستے منقطع ہیں، وہاں سے انتظامیہ کے مسئلے شروع ہو رہے ہیں۔ مختلف رضا کار یہیں تک ہی ساری سرگرمیاں اور علاج معالجہ کر رہے ہیں اور جو علاقے کٹ چکے ہیں۔ وہاں حکومت اور فلاحی ادارے نہیں پہنچ پا رہے ہم نے وہاں کشتی کے ذریعے جا کر کام کرنے کی کوشش کی ہے اور کیمپ لگائے ہیں۔ اب پانی کھڑے رہنے سے الرجی، بخار، اسہال جیسے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔

سید محمد ارسلان (ڈائریکٹر ایچ آر ’ہمدرد‘ فاﺅنڈیشن) نے پیشین (بلوچستان) میں سیلابی صورت حال بدترین قرار دی، جہاں نکاسی بالکل نہیں تھی، یہاں حفاظتی انتظامات نہ ہونے کے باعث بھی انھیں آگے جانے میں دشواری رہی۔
راشد مکرم (صدر ’الخدمت‘ سکرنڈ) بتاتے ہیں کہ اس وقت پورا سندھ زیر آب ہے، انھوں نے سانگھڑ میں زیادہ تباہی دیکھی ہے، تحصیل قاضی احمد میں صورت حال کافی خراب دیکھی، متاثر تو سبھی ہوئے ہیں کوئی کم اور کوئی زیادہ۔

٭ پانی نے تو راستہ گھیرنے کا انتقام لیا مگر

سیلابی صورت حال کے حوالے سے ایک بات تواتر سے کہی جا رہی ہے کہ یہ صورت حال پانی کی فطری گزر گاہیں روکنے کا شاخسانہ ہے۔ خیر محمد تنیو (ڈائریکٹر ڈیزاسٹر مینجمنٹ، الخدمت فاﺅنڈیشن، سندھ) اس حوالے سے کہتے ہیں کہ انگریزوں کی بنائی گئی آبی گزرگاہوں کو زرعی استعمال میں لے لیا گیا ہے۔ ’کارو نالا‘ روھڑی سے نکلتا تھا، جس سے پانی تھر کی طرف چلا جاتا تھا۔ اس پر اب فیکٹریاں اور ہوٹل بنا دیے گئے ہیں، جہاں جس کی زمین ہے وہاں اس نے قبضہ کیا ہے، جھل مگسی میں مگسیوں، پھر جمالیوں، چانڈیوﺅں، جتوئیوں اور دیگر قبائل کے قبضے ہیں۔ دراصل آدھے بلوچستان سے پانی کی گزرگاہ سندھ سے سمندر تک جاتی تھی، آج یہ فطری راستے بند ہونے سے بلوچستان بھی ڈوبا ہوا ہے۔

بلوچستان میں پانی کی گزرگاہوں کے حوالے سے ’عالمگیر ویلفیئر ٹرسٹ انٹرنیشنل‘ کے ڈائریکٹر ریحان یسین نے ہمیں بتایا کہ یہ گزر گاہیں 10سال سے خشک پڑی ہوئی تھیں، جس میں بس تھوڑا بہت ہی پانی ہوتا تھا۔ اس لیے وہاں آبادیاں ہوگئی تھیں۔ اب نالوں کے ذریعے آنے والے پانی نے اپنے راستوں پر ساری تجاوزات کو ملیا میٹ کر دیا ہے، وہ لوگ پہلے ہی پس ماندہ تھے، اب پس ماندہ ترین ہو چکے ہیں۔ بہت بڑے پیمانے پر رفاحی کام جاری ہے، بہت سی غیر سرکاری تنظیمیں وہاں مستعد ہیں اور جہاں تک پہنچ سکتے ہیں، وہاں تک پہنچ رہے ہیں۔

٭ نکاسی میں مہینوں لگ سکتے ہیں

’ایدھی فاﺅنڈیشن‘ کے بانی عبدالستار ایدھی کے نواسے احمد ایدھی (اسسٹنٹ زونل انچارج کراچی) ان دنوں سندھ کے سیلاب زدہ علاقوں میں موجود ہیں، انھوں نے ”ایکسپریس“ کو بتایا کہ اس وقت نواب شاہ کے شہری علاقوں میں تو پانی نہیں ہے، البتہ دیگر ملحقہ علاقوں میں پانچ سے چھے فٹ پانی موجود ہے، جس کی نکاسی میں مہینوں لگ سکتے ہیں۔ نواب شاہ میں تمام سرکاری اسکولوں کو متاثرین کے کیمپ میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔

’عالمگیر‘ کے ڈائریکٹر ریحان یسین نے ہمیں بتایا کہ وہ امدادی سامان لے کر سانگھڑ اور ملحقہ علاقوں تک ہو کر آئے ہیں، سندھ میں دادو، بدین، سیہون اور نواب شاہ، مٹیاری اور حیدرآباد وغیرہ ہیں، جہاں زیادہ پانی کھڑا ہوا ہے، ندی نالے بھرے ہوئے ہیں، پانی کو نکالنا بہت مشکل امر ہے، کیوں کہ اس پانی کو نکالنے کے لیے بہت ساری زمینوں کو قربانی دینی ہوگی، جس میں سیاسی مسائل ہیں، کہیں پیپلز پارٹی کے وڈیروں کی زمین ہے اور کہیں پیر پگارا کے علاقے ہیں، اس میں بڑے مسائل ہیں۔

’الخدمت‘ فاﺅنڈیشن (سندھ) کے ڈائریکٹر ڈیزاسٹر مینجمنٹ خیر محمد تنیو نے سیلابی صورت حال کے حوالے سے ہمیں بتایا کہ سکھر سے بلوچستان کا ریل گاڑی کا راستہ منقطع ہے، اور اس راستے پر سیلاب کے متاثرین افراد ٹھیرے ہوئے ہیں۔ یہ سیلاب 2010ءکے سیلاب سے تین گنا زیادہ ہے، وہ چھے اضلاع میں تھا یہ پورے سندھ میں ہے۔ اس وقت پانی نشیبی علاقوں میں پانچ فٹ اور دیگر جگہوں پر ڈھائی سے تین فٹ پانی موجود ہے۔ کئی جگہوں پر تو تا حدِ نگاہ پانی ہے، مویشیوں کے لیے بھی کوئی پناہ نہیں۔ مجبوراً لوگ اپنے سامان لیے سڑک کے کنارے اور پٹریوں پر موجود ہیں۔ چاول کی فصلوں کے علاقوں جیسے کشمور، جیکب آباد، شکار پور، شہداد کوٹ، لاڑکانہ وغیرہ، میں جہاں فصل کی ضرورت کے لیے پہلے ہی پانی جمع تھا، اب سیلاب سے پانی دگنا ہوگیا، نہروں میں بھی پہلے سے پانی موجود تھا، جس سے سیلاب اور منہ زور ہوا۔

’ہمدرد‘ فاﺅنڈیشن کے ڈائریکٹر ’ایچ آر‘ سید محمد ارسلان نے ’ایکسپریس‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ سیلاب زدگان کی مدد کے لیے سندھ میں حیدرآباد، ماتلی اور بلوچستان میں بیلہ اور پشین گئے۔ ماتلی میں انھوں نے سب سے زیادہ خراب صورت حال دیکھی، وہاں زمینی راستے ناممکن ہوئے، تو مقامی وڈیرے کی وسیع رہائش کو اپنے سامان کے ذخیرے کے طور پر استعمال کیا۔ ہم نے پوچھا کہ بہت سے وڈیرے تو خود سیلابی صورت حال میں مسائل کا باعث ہیں اور آپ نے وہیں اپنا سامان رکھوا دیا۔ تو انھوں نے بتایا کہ یہ سہولت صرف سامان رکھنے کے لیے ہے، اور یہاں ’ہمدرد‘ کے رضا کار پہلے ہی مستحقین کو متعلقہ سامان کی پرچیاں دے کر آگئے تھے، وہ اب صرف یہاں سے اپنا سامان حاصل کریں گے۔ اس کے علاوہ سید ارسلان کا کہنا تھا کہ حیدرآباد شہر میں لوگوں کی مشکلات کا ابھی اندازہ نہیں کیا جا رہا، وہاں کے شہری علاقوں لطیف آباد، حالی روڈ وغیرہ جیسے علاقوں میں صورت حال یہ ہے کہ مکین فلیٹوں میں مقید اور بالائی منزلوں پر محصور ہیں، سڑکوں پر پانی بھرے ہونے کے باعث وہاں ایک ہفتے سے بجلی معطل تھی، تاکہ کسی بھی مزید حادثات یا جانی نقصان سے بچا جا سکے۔

داﺅد انجینئرنگ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل نوجوان اور ’طوبیٰ فاﺅنڈیشن‘ کے جنرل سیکریٹری طلحہ عالم کہتے ہیں کہ فلاحی سرگرمیوں کے لیے لاڑکانہ، سانگھڑ اور ملحقہ علاقوں پر توجہ زیادہ دیکھی گئی ہے، جب کہ میرپور خاصِ، حیدرآباد اور ٹنڈوجام پر بھی توجہ دینے ی ضرورت ہے۔ نوآموز رضاکاروں کے لیے طلحہ عالم صلاح دیتے ہیں کہ ”مقامی معاونت اور بھروسے مند افراد کے تعاون کے بغیر یہاں نہ آئیں، ورنہ ساری امدادی سرگرمیاں بے معنی اور ضایع ہو سکتی ہیں، کیوں کہ کراچی سے اگر آپ ایسے ہی سامان لے کر یہاں جاتے ہیں، تو کوئی راہ نمائی نہیں ملتی کہ کہاں جانا ہے، کسے دینا ہے، کون مستحق ہے اور کون فقط سامان پر ہاتھ صاف کرنا چاہتا ہے۔“

٭ ”پانی کا رخ موڑا گیا ہے!“ 

ملک میں سیلابی صورت حال کے دوران ایسی بہتیری شکایات سامنے آئیں کہ سندھ کے بااثر شخصیات اور وڈیروں نے اس میں اپنا اثر رسوخ استعمال کرتے ہوئے پانی کا رخ موڑا ہے اور مختلف جگہوں پر شگاف اور نقب لگائے گئے ہیں۔ اس حوالے سے ’الخدمت فاﺅنڈیشن‘ سکرنڈ کے صدر راشد مکرم نے ’ایکسپریس‘ کو بتایا کہ بڑے زمیں داروں نے نے اپنی زمینیں بچانے کے لیے دیہی آبادی کی طرف پانی موڑ دیا ہے۔ سکرنڈ کے قریب ’چھنڑ موری‘ توڑی گئی ہے۔ جسے بند کرنے کے لیے مشینری کا وعدہ وفا نہ ہوسکا اور پانی مسلسل آتا رہا۔ اس سے درجنوں دیہات ڈوب گئے، لوگ سڑکوں کے کناروں پر آگئے ہیں۔ یہ سیلاب پچھلے سیلابوں سے چار گنا تک زیادہ ہے۔ کچے مکانات منہدم اور پختہ مکانات مخدوش ہو چکے ہیں، نشیبی علاقوں میں تین فٹ تک پانی موجود ہے۔ دیگر ارکان اسمبلی کی طرح سید غلام مصطفیٰ شاہ نے بھی اپنی زمینیں بچائیں، دراصل یہ خود تو یہاں موجود نہیں ہوتے، یہ کام ان کے منشی کرتے ہیں اور ان کا بھی یہاں وڈیروں جیسا خوف یا احترام ہوتا ہے۔ ہم نے راشد مکرم سے پوچھا کہ جو زمینیں بچائی جا رہی ہیں وہ بھی تو تیار فصلوں ہی کے تحفظ کے لیے ہیں؟ وہ اثبات میں جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہاں وڈیرہ وہ کہلاتا ہے، جو ایک ہزار ایکڑ سے زائد زمین کا مالک ہو، جب کہ یہ لوگ 30، 30 ہزار ایکڑ زمین کے مالک ہیں، اور اپنی زمینیں بچانے کے لیے چھوٹے کاشت کاروں اور کسانوں کی فصلوں کو تباہ کر دیتے ہیں۔ اسی پس منظر میں ’مختیارِ کار‘ کی تبدیلیاں بھی کی جا رہی ہیں۔ سیلاب کی تباہ کاری میں وڈیروں کی ’کچے‘ کی زمین بچائی جاتی ہے، جو دراصل دریا کی زمین کا وہ زرخیز حصہ ہوتا ہے کہ جو 10 سال میں ایک مرتبہ پانی میں آتا ہے۔ اب یہاں یہ سوال ایک علاحدہ بحث ہے کہ یہ پانی کی فطری گزرگاہ ہے، یہاں کاشت کرنی چاہیے یا نہیں؟ دراصل یہاں کاشت کی گئی فصل معیشت میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے، لیکن اس کا فائدہ انھی وڈیروں اور بااثر شخصیات تک ہی محدود رہتا ہے، عوام تک نہیں پہنچتا۔ سیلاب میں ایسی بے شمار اراضیوں کو بچانے کے لیے جگہ جگہ نقب لگائے گئے ہیں، تاکہ پانی یہاں نہ آئے، بھلے دیگر عام لوگوں اور چھوٹے کاشت کاروں کی فصلوں کی طرف چلا جائے۔“
’ایدھی فاﺅنڈیشن‘ کے احمد ایدھی نے بتایا کہ ”حکومت کی جانب سے بڑے شہروں کو بچانے کے لیے بند توڑے جا رہے ہیں، جس سے پانی کی سطح بلند ہو رہی ہے، اور اب بے گھر متاثرین کی دادو، سیہون، جام شورو، حیدرآباد اور کراچی کی طرف بڑے پیمانے پر نقل مکانی جاری ہے، ایک ہی ٹریکٹر پر خواتین، بچے، جانور اور گھروں کا سامان ایک عجب وحشت ناک منظر پیدا کر رہا ہے، جیسے 1947ءکی تصویر میں دیکھی ہجرت آج اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہوں، بالکل ویسی ہی پریشانی کا منظر یہاں ہے، جب کہ سیلابی پانی کو نکالنے کے لیے لوگ مکمل طور پر حکومت ہی کے رحم وکرم پر ہیں۔“

٭ ’کراچی‘ ہمیشہ کی طرح مددگار ہے! 

ایک طرف سندھ میں سیلاب زدگان کے مسائل منہ زور ہیں، تو دوسری طرف ایک معروف ڈراما نگار اپنے ’فیس بک‘ کے ذریعے مسلسل یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہیں کہ جیسے اہل کراچی سیلاب زدگان کی مدد کے لیے سرگرم نہ ہوں۔ 30 اگست 2022ءکو انھوں نے کراچی ہی کے ایک معروف سماجی کارکن کی تصویر لگا کر اپنے فیس بک پر لکھا ”تم سلامت رہو، تعصب، نفرت اور بے حسی کی آگ پر تم انسانیت کی ٹھنڈک ہو۔“ جس سے ایسا محسوس ہوا کہ خدانخواستہ مذکورہ بالا منفی جذبات سیلاب زدگان کی امداد میں اس قدر آڑھے آچکے ہیں کہ کوئی ان ستم زدگان کے لیے کچھ کر ہی نہیں رہا۔ پھر کچھ خواتین کے زچگی کے مسائل کے حوالے سے بھی انھوں نے اس طرح ’فیس بک‘ پر اپیل درج کی، جس سے یہی تاثر مضبوط ہوا کہ شاید اس مصیبت کی گھڑی میں یہاں کوئی بھی مدد دست یاب نہیں! ہم نے ’جے ڈی سی‘ کے مرکزی ذمہ دار ظفر عباس سے بطور خاص یہ سوال بھی پوچھا کیوں کہ خود اُن کی بُہتیری ویڈیو میں ہم بھی یہ محسوس کر چکے تھے کہ شاید انھیں امدادی کارروائیوں کے سلسلے میں کسی قسم کی کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جس پر انھوں نے بتایا کہ ”شہر کی معاشی ابتری نے لوگوں کی استطاعت کو ضرور متاثر کیا ہے، لیکن کراچی کے شہری ہمیشہ کی طرح کسی سے بھی پیچھے نہیں ہیں، یہاں کے لوگوں کا امداد سے ہاتھ کھینچے کا تاثر بالکل غلط ہے۔ یہاں اور ہے ہی کون، جو ان سیلاب زدگان کی مدد کر رہا ہے، ہم جو 150 ٹرک روزانہ بھیج رہے ہیں، وہ اسی شہر ہی سے تو جمع کر رہے ہیں۔ امداد کے لیے اُن کی بار بار اپیل دراصل حکمراں حلقوں کو جھنجھوڑنے کے لیے ہوتی ہے۔ “

٭ تیار ’کپاس‘ اتارنی ہی تھی کہ 

سیلاب سے دیہی علاقوں میں لوگ ہی بے گھر نہیں ہوئے، بلکہ تیار فصلوں کا بھی بہت زیادہ نقصان ہوا ہے۔ عالمگیر ویلفیئر ٹرسٹ انٹرنیشنل کے ڈائریکٹر ریحان یسین کہتے ہیں کہ ”سندھ میں اکثر متاثرین کسان ہیں، ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں کسانوں نے پچیس، پچاس اور پچھتر فی صد کے تناسب پر زمیں دار سے زمینیں لی ہوئی تھیں، اس پر فصل کاشت کرتے ہیں اور پھر جب فصل تیار ہوتی ہے، تو اپنا حساب کرلیتے ہیں، لیکن سیلاب سے یہ دُہری مشکلات میں پڑ گئے ہیںِ، پہلے ہی ادھار پر کام کر رہے تھے اور اب کسی کے پاس کچھ بھی نہیں ہے، زمین دار کے پاس بھی دینے کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔ ان کسانوں میں ہندو برادری کے علاوہ سرائیکی علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل ہیں۔ ان کے پاس کھانے تک کو کچھ نہیں، یہ رہتے بھی انھی کھیتوں ہی میں تھے، اب سب کچھ پانی کی نذر ہو چکا ہے، اور وہ سب سڑکوں پر ہیں۔“
راشد مکرم (صدر ’الخدمت فاﺅنڈیشن‘ سکرنڈ) نے کھڑی فصلیں تباہ ہونے کو زبردست معاشی نقصان قرار دیتے ہوئے بتایا کہ ”آپ اندازہ لگائیے کہ کپاس کی فصل کِھل چکی تھی اور فقط اس بات کا انتظار تھا کہ کپاس چُننے والے افراد مل جائیں، تو کام شروع ہو، لیکن اس کی مہلت ہی نہ ملی اور سب کا سب سیلاب کی نذر ہوگیا۔ “
٭ جعلی متاثرین کی لوٹا ماری!

راشد مکرم سیلاب زدہ علاقوں کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ ”اس افتاد میں متاثرہ علاقوں میں ایک افراتفری کی صورت حال ہے، چوری چکاری اور لوٹا ماری بہت بڑھ گئی ہے، لوگ امدادی سامان تک لوٹ رہے ہیں، کوئی تحفظ نہیں ہے، پولیس ہے، لیکن دوسری طرف وہ وڈیروں اور با اثر منتخب نمائندوں کی پشتی بان بنی ہوئی ہے۔“

جعفریہ ڈیزاسٹر سیل (جے ڈی سی) کے روح و رواں ظفر عباس نے ’ایکسپریس‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ”سیلاب زدہ علاقوں میں صورت حال بدترین کی طرف گام زن ہے، کوٹری اور حیدرآباد کے اطراف کے علاقوں کی طرف پانی بڑھ رہا ہے اور لوگ بھوک کے مارے اب خوراک پر حملے کر رہے ہیں۔ ہماری امدادی گاڑیوں پر بھی حملے ہو رہے ہیں، پولیس کی جانب تعاون کا یقین دلایا گیا ہے، لیکن یہ لوگ سونا چاندی تو نہیں لوٹ رہے، اپنا حق لے رہے ہیں، میں کیا کروں؟ بھوک مٹانے کے لیے ان ستم زدہ لوگوں سے مارپیٹ تو نہیں کر سکتا۔“

’طوبیٰ فاﺅنڈیشن کے جنرل سیکریٹری طلحہ عالم نے یہ انکشاف کیا کہ ”ہائی وے اور سندھ کی مرکزی شاہ راہوں پر ’نمائشی متاثرین‘ بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں، جو کراچی سے امدادی سامان آگے جانے ہی نہیں دیتے، کراچی سے جو نوجوان رضاکار اور طلبہ سامان وغیرہ لے کر جاتے ہیں، وہ ان ”متاثرین“ سے دھوکا کھا جاتے ہیں، جب کہ یہ سارے پیشہ وَر لوگ صرف امدادی سامان جمع کرنے کے لیے یہاں بیٹھے ہوئے ہیں اور سامان کی لوٹا ماری اور چھینا جھپٹی کے بیش تر واقعات بھی زیادہ تر انھی بناوٹی متاثرین کے ذریعے ہی ہو رہے ہیں۔“

٭ متاثرہ علاقوں ہی سے امداد کی خریداری!

ایک طرف جہاں امدادی سرگرمیوں کے لیے کراچی سے بڑے پیمانے پر اجناس اور دیگر ضروری سامان کے ٹرک متاثرہ علاقوں کی طرف روانہ ہو رہے ہیں، وہیں ’عالمگیر ویلفیئر ٹرسٹ‘ کی جانب سے زیادہ انحصار وہیں سے سامان اور اجناس کی خریداری پر کیا جا رہا ہے، اس حوالے سے ’عالمگیر‘ کے ڈائریکٹر ریحان یسین نے ہمیں بتایا کہ ”ہم نے ڈیرہ اسماعیل خان سے بدین اور میرپور خاص تک 17 کیمپ قائم کیے ہیں۔ جن علاقوں میں دست یابی کے مسائل نہیں، وہاں راشن اور خشک اجناس وہیں سے خرید کر دے رہے ہیں۔ سنت نبوی بھی یہی ہے کہ جہاں آفت آئے، وہیں معاشی سرگرمی بھی ہو، اس سے ہمارا آمدورفت کا خرچ بھی بچ جاتا ہے۔ کراچی سے سامان لے کر جانے میں کافی مسائل ہیں، اگرچہ رینجرز تحفظ دے رہی ہے، لیکن وہ کہتے ہے کہ آپ کچھ امدادی سامان ہمیں بھی دیں، ہم بھی پہنچائیں گے اور آپ بھی بھیجیے! اب وہاں ڈاکٹروں کی عدم دست یابی کا مسئلہ ہے۔ مختلف جِلدی بیماریاں سامنے آرہی ہیں اور خواتین کے حوالے سے بھی بہت مسائل ہیں۔“

سیلاب زدگان کی ضرورت کے حوالے سے سید محمد ارسلان (ڈائریکٹر ایچ آر ’ہمدرد‘ فاﺅنڈیشن) کہتے ہیں کہ ”کھانے پینے کے ساتھ دوسرا بڑا مسئلہ جلد اور پیٹ کے امراض کا ہے۔ بہت سی رضا کا تنظیمیں مچھر دانیوں پر کافی زیادہ مرکوز ہیں، جب کہ یہ پس ماندہ علاقوں میں رہنے والے بے چارے ان مچھروں کے تو عادی ہیں، اور پھر ایک گھر میں 20، 20 افراد ہیں، انھیں انفرادی مچھر دانیاں دینا ناکافی بھی ہے، اس وقت انھیں اپنے خشک پڑاﺅ پر چٹائیوں کی زیادہ ضرورت ہے، ساتھ ہی انھیں اب کھانا پکانے کے بندوبست کے بعد چولھوں کی بھی ضرورت پڑ رہی ہے۔“

٭ سیلاب سے محفوظ علاقوں کی ’لاتعلقی‘! 

سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے مشاہدات ساجھے کرتے ہوئے طلحہ عالم (جنرل سیکریٹری ’طوبیٰ فاﺅنڈیشن‘) نے بتایا کہ ”مجموعی طور پر سندھ کے دیہی علاقے شدید متاثر ہیں، جب کہ بہت سے شہری علاقے نہ صرف محفوظ ہیں، بلکہ وہاں معمولات زندگی رواں دواں ہے، اسکول کھلے ہوئے ہیں، بچے معمول کے مطابق تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ان شہروں سے دس، بیس کلو میٹر کے فاصلے پر سیلاب کی تباہ کاریاں ہیں، لیکن اِن علاقوں میں بالکل لاتعلقی کا ماحول ہے، کہیں بھی کوئی امدادی کیمپ یا امدادی سرگرمیاں دکھائی نہیں دیتیں۔ میرپور خاص میں ایک ’تین تلوار چورنگی‘ ہے، جہاں کراچی کے صدر کے علاقے جیسی گہما گہمی ہوتی ہے، یہاں زندگی بالکل معمول کے مطابق تھی، ایسا معلوم ہی نہیں ہوتا تھا کہ کچھ ہی فاصلے پر کتنے افراد بے گھر اور ڈوبے ہوئے ہیں۔“

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔