کراچی کی سیاست

مزمل سہروردی  جمعـء 16 ستمبر 2022
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

کراچی کی سیاست میں ایم کیوایم اور مہاجر ووٹ بینک کی ایک اہمیت ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ کراچی میں اس ووٹ بینک کی اکثریت ہے۔ اس اکثریت نے ماضی میں ایم کیو ایم کو ووٹ دیا ہے جس کی وجہ سے ایم کیو ایم کی کراچی پر سیاسی حاکمیت رہی ہے۔

لیکن آج سوال یہ ہے کہ کراچی میں ایم کیو ایم کی حاکمیت ختم ہو رہی ہے اور اگر ختم ہو رہی ہے تو اس کی وجہ کیا ہے؟ ایم کیو ایم کا ووٹ بینک کیوں کمزور ہو رہا ہے؟

ایک رائے یہ بھی ہے کہ تقسیم در تقسیم کے عمل نے ایم کیو ایم کو کمزور کر دیا ہے۔ بہت سے دھڑے بن چکے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ ان دھڑوں کو بھی کوئی خاص پذیر ائی نہیں حاصل ہوئی ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کے الگ ہونے سے ایم کیو ایم پاکستان کمزور ہوئی ہے۔

سوال ان کی پذیرا ئی نہیں ہے، سوال ایم کیو ایم کی کمزوری ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی بھی دھڑا ایم کیو ایم پاکستان کی جگہ بھی نہیں لے سکا۔ کہیں نہ کہیں وہ ایم کیو ایم سے سیاسی طور پر چھوٹے ہیں۔ اس لیے ایم کیو ایم کے اندر یہ سوچ نظر آئی ہے کہ ہم سے الگ ہو کر کوئی کامیاب نہیں ہوا ہے۔ شاید ایم کیو ایم کی قیادت یہ نہیں سوچ سکی کہ سوال ان کی کامیابی کا نہیں ہے، سوال ان کی اپنی ناکامی اور کمزوری کا ہے۔

یہ درست ہے کہ پی ایس پی کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں کر سکی ہے۔ مصطفی کمال کی شدید کوشش کے باوجود وہ پی ایس پی کو ایم کیو ایم سے بڑی جماعت نہیں بنا سکے۔ ان کے ووٹ ایم کیو ایم کے مقابلے میں بہت کم رہے۔ مصطفی کمال بطور شخصیت بھی اپنے گرد ووٹر کو اس طرح جمع نہیں کر سکے جس کی توقع تھی۔ وہ یہ تو کہتے ہیں کہ انھوں نے کراچی میں بانی ایم کیو ایم کا ڈر اور خوف ختم کیا ہے۔ انھوں نے کراچی کی نئی نسل کو امن کا پیغام دیا ہے۔

لیکن کیا وہ کراچی میں بانی ایم کیو ایم کی جگہ لے سکے ہیں۔ تو جواب نفی میں ہی ہوگا۔ اسی طرح فارو ق ستار کی علیحدگی سے ایم کیو ایم پاکستان کمزور ضرور ہوئی ہے لیکن فاروق ستار بھی کوئی کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔ایک عمو می رائے یہی ہے کہ خالد مقبول صدیقی میں فاروق ستار والی صلاحیت نہیں ہے۔

لیکن فاروق ستار میں بھی ایسی کوئی صلاحیت سامنے نہیں آئی کہ وہ کراچی کے ووٹر اور ایم کیو ایم کے ناراض کارکن کو اپنی طرف متوجہ کر سکے ہیں۔ فاروق ستار اپنے ہی انتخابی حلقے میں کوئی خاص ووٹ نہیں لے سکے ہیں۔ لیکن وہ حلقہ ایم کیو ایم کے ہاتھ سے بھی نکل گیا ہے۔

حالیہ ضمنی انتخاب میں فاروق ستار سے مفاہمت کی کوششیں نظر آئی ہیں، لیکن اس کے کوئی مثبت نتائج سامنے نہیں آئے ہیں۔ فاروق ستار نے بھی اتنا سیاسی حوصلہ نہیں دکھایا کہ ایم کیو ایم کی حمایت کر دیتے۔ ایم کیو ایم پاکستان نے بھی اتنا حوصلہ نہیں دکھایا کہ غیر مشروط فارو ق ستار کی حمایت کر دیتے۔

حالانکہ اس سے ان کی سیاست کوئی ختم نہیں ہو جانی تھی۔ بلکہ ایک اچھا تاثر ہی جانا تھا۔ اگر ٹیسوری کو دوبارہ ڈپٹی کنونیر بنایا جا سکتا ہے تو فاروق ستار کی غیر مشروط حمایت کیوں نہیں کی جا سکتی۔ اگر ایم کیو ایم پاکستان فاروق ستار کی حمایت کر دیتی تو شاید پی ایس پی کو بھی کرنی پڑتی اور ایک متفقہ امیدوار سامنے آجاتا۔ یہ ایم کیو ایم پاکستان کی سیاست کے لیے اچھا ہوتا، اس کا انھیں سیاسی فائدہ ہوتا، بات جیت ہار کی نہیں تھی۔ بات ایک اتحاد کے پیغام کی تھی۔

مجھے سمجھ نہیں آتی جب سب نے مل کر ایم کیو ایم کے بانی کو خیر باد کہہ دیا ،کوئی بھی ان کے نام پر سیاست کرنے کے لیے تیار نہیں تو ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی الگ الگ مساجد کیوں ہیں۔ یہ ایم کیو ایم کے ووٹر کو منفی پیغام دے رہے ہیں۔ ایم کیو ایم کا ووٹ بینک کم ہو رہا ہے۔ یہ بحث نہیں کہ وہ ایم کیو ایم سے ناراض ہو کر ایم کیو ایم کے کسی دوسرے دھڑے کی طرف نہیں جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ آپ سب سے ناراض ہو رہا ہے۔ لڑتے لڑتے سب ہی ختم ہو رہے ہیں۔

کراچی کے ووٹر کو ایم کی ایم کی قیادت سے کوئی نیا پیغام چاہیے۔ ایم کیو ایم پاکستان کو ماننا ہو گا کہ وہ بہت کمزور ہو گئے ہیں۔ اسی کمزوری کی وجہ سے ان کے سیاسی فیصلے بھی کمزور نظر آئے ہیں۔ سوال یہ نہیں ہے کہ کیا موجودہ پی ڈی ایم کے ساتھ ان کا جانا غلط فیصلہ ہے۔

بلکہ 2018میں تحریک انصاف کے ساتھ جانا غلط فیصلہ تھا کیونکہ ووٹ بینک تو تحریک انصاف چھین رہی تھی۔ ایسے میں تحریک انصاف کے ساتھ جانا غلط تھا۔ اگر سیاسی فیصلے دباؤ میں کیے گئے ہیں تو ایم کیو ایم پاکستان کو سمجھنا ہوگا کہ وہ اکیلے اس دباؤ سے نہیں نکل سکتی۔ دباؤ کی سیاست سے نکلنے کے لیے ایم کیو ایم کو اپنے سیاسی حریف کم کرنے ہوںگے۔

ایم کیو ایم کراچی کو نئی نوجوان قیادت بھی نہیں دے سکی۔نئی نوجوان قیادت نظر نہیں آرہی۔ وہی پرانے چہرے شاید کراچی کے لوگ انھیں دیکھ کر دیکھ کر تھک گئے ہیں۔ شاید پارٹی اتنی کمزور ہو گئی ہے کہ ان کی جگہ نئے لوگ لانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ ڈر لگا رہتا کہ اگر اس کو ٹکٹ نہیں دیا تو ناراض ہو جائے گا۔ الگ ہو جائے گا۔ حالانکہ پڑھے لکھے نئے نوجوانوں کو ٹکٹ اور اتحاد ایم کیو ایم کو ایک نئی زندگی دے سکتا ہے۔

میں مانتا ہوں کہ لاپتہ نوجوانوں کا مسئلہ ہے۔ دفاتر بند ہونے کا مسئلہ ہے۔ یہ مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ لیکن ایم کیو ایم کو جب پتہ ہے کہ یہ مسائل حل نہیں ہو سکتے تو انھیں ایسا بیانیہ بنانا چاہیے تھا کہ ہمیں یہ دفاتر نہیں چاہیے۔

جب بانی ایم کیو ایم کو چھوڑ دیا تو دفاتر بھی چھوڑ دیے۔ متبادل بیانیہ کی کمی نے ایم کیو ایم پاکستان کو دفاعی پوزیشن میں لاکر کھڑا کر دیا ہے۔نئے بیانیہ نئی قیادت اور اتحاد سے سامنے آنے کی ضرورت ہے۔ سب کو اپنی انا کو چھوڑنا ہوگا۔ یہ اجتماعی بقا کا مسئلہ ہے۔ سب بڑے ٹکٹ نہ لینے کا اعلان کریں اور نئے نوجوانوں کے لیے راستہ چھوڑیں۔ نئے نوجوان نئی سوچ لائیں گے۔ نئی شکل دیں گے۔ لیکن اس کے لیے سب کو اپنی اپنی ذات کی نفی کرنا ہوگی۔ ایک رائے یہ ہے کہ ابھی تک ایم کیو ایم پاکستان اتنی بڑی قربانی کے لیے تیار نہیں ہے، وہ ذاتی اختلافات سے باہر نہیں نکل رہے جو افسوسناک ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔