پنجاب میں حکومتی تبدیلی کے امکانات

سلمان عابد  جمعـء 16 ستمبر 2022
salmanabidpk@gmail.com

[email protected]

پاکستان کی سیاست کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم نے ماضی سے سبق سیکھنے کے بجائے وہی غلطیاں دہرانے کی کوشش کی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ یہاں قو می سیاست میں سیاسی و جمہوری استحکام پر کئی اہم سوالات اٹھتے ہیں۔

ہماری قومی سیاست کا ایک بڑا خاصہ سیاسی ایڈونچرز یا سیاسی مہم جوئی رہی ہے۔ سیاست دان ہوں یا پس پردہ کی قوتیں ہمارا محبوب مشغلہ اپنی مرضی اور خواہشات کی بنا پر حکومتوں کو بنانا او رگرانا ہوتا ہے۔حالیہ دنوں میں کچھ ایسی خبریں منظر عام پر آرہی ہیں کہ پنجاب میں ایک بار پھر تبدیلی کا کھیل سجایا جارہا ہے۔ اس کھیل کی خاص بات پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت کا خاتمہ او رمسلم لیگ ن کی حکومت کی بحالی سے جڑا ہوا ہے۔

پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت واقعی اس وقت تیرہ جماعتی حکمران اتحاد اوربالخصوص مسلم لیگ ن کے لیے ایک بڑا خطرہ بنا ہوا ہے۔ اسلام آباد تک محدود مسلم لیگ ن کی حکومت او رپنجاب کے اقتدار سے محرومی واقعی مسلم لیگ ن کو سیاسی طور پر تنہا کردیا ہے۔

اس وقت تحریک انصاف کی پنجاب میں حکومت چوہدری پرویز الٰہی جو وزیر اعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے کام کررہے ہیں کہ مرہون منت ہے۔مسلم لیگ ن او رپیپلزپارٹی کو یہ گلہ ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب تحریک انصاف کو دیوار سے لگادیا گیا تھا تو چوہدری پرویز الہی نے مسلم لیگ ن کے مقابلے میں تحریک انصاف کی کیونکر حمایت کی او رکیوں مسلم لیگ ن کی وزرات اعلیٰ کی پیش کش کو ٹھکرایا ۔

مسلم لیگ ن کی سیاسی پریشانی یہ ہے کہ ایک طرف پنجاب میں ان کے اقتدار کا خاتمہ اور  دوسری طرف پنجاب میں نئے انتخابات کے تناظر میں ’’ پانی پت کی نئی جنگ ‘‘ میں تحریک انصاف کی مقبولیت کا سیاسی مقابلہ کیسے کیا جاسکے گا۔ کیونکہ دونوں جماعتوں مسلم لیگ ن او رتحریک انصاف کی سیاست کا ایک بڑھ گڑھ پنجاب ہے او ریہ ہی پنجاب کا سیاسی میدان اگلے عام انتخابات کے نتائج کی صورت میں طے کرے گا کہ پنجاب کے حقیقی حکمرانی کس کے پاس ہوگی۔

یہ ہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ ن چاہتی ہے کہ فوری طور پر تحریک انصاف کا پنجاب میںاقتدار کا خاتمہ ہو اور یہاں دوبارہ مسلم لیگ ن کی حکومت بنے۔ کیونکہ عام انتخابات سے پہلے مسلم لیگ ن پنجاب میں دوبارہ اپنا اقتدار بحال کرنے کو ترجیح دے گی۔

یہ ہی وجہ ہے کہ پنجاب میںحکومت کی سیاسی تبدیلی کی افواہیں ایک بار پھر زیادہ شدت کے ساتھ سامنے آرہی ہیں۔ اس کھیل میں ایک بار پھر پیپلزپارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری کو اہمیت دی جارہی ہے او روہی پنجاب میں سیاسی ڈیرے لگا کر عمران خان کی حکومت کو ختم کرنا چاہتے ہیں ۔

مسلم لیگ ن او رپیپلزپارٹی پس پردہ قوتوں کو یہ تاثر دیتے ہیں کہ عمران خان کو کمزور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پنجاب میں ان کی حکومت کو ختم کیا جائے او ریہاں مسلم لیگ ن کی حکومت ہو۔کیونکہ حکمران جماعت کا بڑا چیلنج عمران خان کی سیاسی مقبولیت ہے اور ان کو لگتا ہے کہ فی الحال ان کی سیاسی مقبولیت کا مقابلہ سیاسی میدان میں ممکن نہیں ۔یہ ہی وجہ ہے کہ عمران خان کو اقتدا ر کی سیاست سے باہر نکالا جائے تاکہ ان کی سیاسی طاقت کو کمزور کیا جاسکے۔

ایک منطق چوہدری شجاعت حسین کی دی جارہی ہے کہ وہ اپنے دس ارکان پر نااہلی کا خوف ڈال کر ان سے پی ٹی آئی کی حمایت واپس لینا چاہتے ہیں۔ منطق یہ بھی دی جارہی ہے کہ دس ارکان کے چوہدری شجاعت اور مسلم لیگ ن سے رابطے ہیں اور وہ اہم موقع پر چوہدری پرویز الٰہی کی حمایت چھوڑ سکتے ہیں۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ خود تحریک انصاف میں سے کچھ لوگوں کو مختلف نوعیت کے لالچ دے کر اپنے قریب لانے کی کوشش بھی کی جارہی ہے۔

اسی کھیل میں گنتی پوری ہونے پر گورنر پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کو اسمبلی سے ووٹ لینے کا کہہ سکتے ہیں ۔جب ان کی عددی تعداد پوری نہیں ہوگی تو تحریک انصاف کی حکومت کا خاتمہ ہوگا۔ آصف زرداری کی یہ تجویز بھی گردش کررہی ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کو یہ آفر بھی دی گئی ہے کہ وہ تحریک انصاف کو چھوڑ کر مسلم لیگ ن کی حمایت کریں تو وہ ہی وزیر اعلیٰ پنجاب ہوںگے ۔ان ہی خدشات کی بنیاد پر خود عمران خان کہہ چکے ہیں کہ پنجاب میں ان کی حکومت کو ختم کرنے کے کھیل کا آغاز کردیا گیا ہے ۔

چوہدری پرویز الٰہی کے دو مسئلہ ہیں۔ اول وہ سمجھتے ہیں کہ تحریک انصاف کے مقابلے میں مسلم لیگ ن یا شریف خاندان پر بہت زیادہ بھروسہ نہیں کیا جاسکتا او راس کے پیچھے ماضی کے تجربات اور واقعات ہیں ۔ دوئم چوہدری مونس الٰہی بضد ہیں کہ ہم نے مستقبل کی سیاست عمران خان کی حمایت کے ساتھ ہی کرنی ہے اور اس کا اعتراف خود چوہدری پرویز الٰہی بھی کرچکے ہیں کہ ان کی پی ٹی آئی کی حمایت میں ان کے بیٹے کا اہم کردار ہے۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ خود چوہدری پرویز الٰہی کے اپنے بھی اسٹیبلیشمنٹ سے اچھے تعلقات ہیں توو ہ ان کی حکومت کو کیوں ختم کرنا چاہے گی ۔ چوہدری پرویز الٰہی اس وقت تحریک انصاف اور عمران خان کی حمایت سے کافی بہتر پوزیشن میں ہیں او ریہ پوزیشن ان کو مسلم لیگ ن میں نہیں مل سکے گی ۔

اس لیے یہ جو بھی منطق دی جارہی ہے کہ وہ تحریک انصاف کی حمایت چھوڑ کر مسلم لیگ ن کا حصہ بن سکتے ہیں درست تجزیہ نہیں ہوگا۔ اسٹیبلیشمنٹ کو تو پرویز الٰہی حکومت اس لیے بھی سوٹ کرتی ہے کہ اس میں براہ راست پی ٹی آئی او رمسلم لیگ ن نہیں اور دونوں جماعتوں کا بڑا انحصار چوہدری پرویز الٰہی پر ہی ہے ۔ یہ کہنا کہ مسلم لیگ ق میں چوہدری پرویز الٰہی کی سیاسی گرفت کمزور ہے ممکن نہیں پارٹی پر عملی کنٹرول چوہدری پرویز الہی کا ہی ہے ۔

اگر واقعی پنجاب میں کوئی تبدیلی آنی ہے تو یہ یقینی طو رپر یہ اسٹیبلیشمنٹ کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں ہوگی ۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ پنجاب میں تبدیلی کی صورت میں کوئی حالات بہتر ہوںگے وہ غلطی پر ہیں۔ یہ مہم جوئی ملک کے سیاسی حالات کو اور زیادہ بگاڑ کی طرف لے کر جائے گی اوراس کے نتیجہ میں صوبہ مزید محاذ آرائی کی شکار ہوگااور اس کا براہ راست اثر سیاست کے ساتھ ساتھ معیشت بھی بدحال ہوگی ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔