ہوشربا مہنگائی اور بے بس عوام

جاوید نذیر  جمعـء 16 ستمبر 2022
رواں سال کی مہنگائی اپنی بلند ترین سطح کو چھو رہی ہے۔ (فوٹو: فائل)

رواں سال کی مہنگائی اپنی بلند ترین سطح کو چھو رہی ہے۔ (فوٹو: فائل)

گزشتہ چند برسوں سے ہمارے ملک میں مہنگائی کا جن بوتل سے باہر آیا تو وہ واپس جانے کا نام ہی نہیں لے رہا اور حالیہ دور کی مہنگائی میں اُس جن کا حجم اتنا بڑھ چکا ہے کہ لگتا ہے وہ شاید بوتل میں واپس جا ہی نہ سکے۔

رواں سال کی مہنگائی اپنی بلند ترین سطح کو چھو رہی ہے۔ مہنگائی کا مورد الزام کسی ایک حکومت کو ٹھہرانا ٹھیک نہ ہوگا بلکہ اس میں موجودہ اور سابقہ حکومتیں سب برابر کی حصے دار ہیں۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ کسی کا حصہ زیادہ اور کسی کا کم ہے، جیسے سابقہ حکومت (پی ٹی آئی) نے مہنگائی کو بام عروج تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا اور اُن کی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے آج غربت کی شرح اس قدر بلند ہوچکی ہے کہ اب صحیح معنوں میں دو وقت کی روٹی میسر آنا بھی غنیمت ہے اور وٹامن فراہم کرنے والے پھل اور دیگر غذائیں خریدنے کا تصور کرنا بھی عام آدمی کےلیے ناممکن ہے۔

حیران کن بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت اور اُن کے اتحادی سابقہ حکومت کو مہنگائی کی وجہ سے خوب لتاڑتے تھے لیکن عوام دیکھ رہے ہیں کہ وہی اتحادی اب حکومت میں آکر اقتدار اور وزارتوں کو انجوائے تو کر رہے ہیں لیکن عوام کے اولین مسئلے مہنگائی پر قابو پانے کےلیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کررہے۔

مہنگائی کی وجہ جہاں کمزور معاشی پالیسی بتائی جارہی ہے وہیں ملک بھر میں آنے والے سیلاب کی وجہ سے بھی مہنگائی میں بے حد اضافہ ہوا ہے۔ لیکن عوام سوال کر رہے ہیں کہ ملکی اور غیر ملکی گرانٹ اور امداد کی شکل میں دادرسی کی جارہی ہے تو پھر مہنگائی میں کمی کیوں نہیں ہورہی؟ دوسرا حکومت نے واویلا مچایا ہوا تھا کہ آئی ایم ایف کی قسط کی ریلیز کے بعد نہ صرف ڈالر کی قیمت نیچے آجائے گی بلکہ مہنگائی کا طوفان بھی تھم جائے گا لیکن ایسا بالکل نہیں ہوا۔ آئی ایم ایف کی قسط جاری ہونے کے باوجود نہ صرف ڈالر کی قیمت بتدریج بڑھ رہی ہے بلکہ مہنگائی کی شرح بھی بڑھتے ہوئے کوہ ہمالیہ کی شکل اختیار کرچکی ہے۔

عوام اندازہ لگارہے تھے کہ آئی ایم ایف کی قسط ملنے کے بعد بجلی کے بلوں میں کمی ہوگی لیکن ایسا نہیں ہوسکا اور رواں ماہ بجلی کے بل پچھلے ماہ کی نسبت بھی زیادہ آئے ہیں۔ اب موجودہ حکومت کےلیے ایک بیانیہ بن رہا ہے کہ شاید میاں شہباز شریف بطور وزیراعظم اس طرح پرفارم نہیں کرپارہے جس طرح وہ سابقہ ادوار میں بطور وزیراعلیٰ کیا کرتے تھے۔ کوئی اس کی وجہ حکومتی اتحادیوں کی بلیک میلنگ بتا رہا ہے، کوئی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی غلط تقرری کا الزام لگا رہا ہے۔ بہرحال وجہ کچھ بھی ہو، عوام کو تو غرض ہے کہ مہنگائی کم ہو اور ان کو دال روٹی مل سکے۔

مہنگائی اور خصوصاً بجلی اور پانی کے بلوں کے حوالے سے دہلی، انڈیا کی صورتحال پر ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ ایک رپورٹر عوام سے بجلی اور پانی کے بلوں کے بارے میں پوچھ رہا ہے۔ عوام کا کہنا ہے کہ انہیں بجلی اور پانی دہلی سرکار بالکل مفت فراہم کررہی ہے اور حکومت کی طرف سے رعایتی یونٹ ختم ہونے کے بعد اُنہیں جو بل آتا ہے وہ بہت کم ہوتا ہے، جبکہ پانی کا بل بالکل نہیں آتا۔ اس کی وجہ عوام نے یہ بتائی کہ دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال نے ہر ترقیاتی منصوبے سے پیسے بچا کر اُن پیسوں سے عوام کو سبسڈی دی ہے۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہمارے عوام سوال کر رہے ہیں کیا ہمارے حکمران بھی کبھی ایسا کرپائیں گے؟ یہاں تو صورتحال یہ ہے کہ سندھ میں فریال تالپور کے شوہر منور تالپور سیلاب متاثرین کو پچاس پچاس روپے دیتے دکھائی دیے۔ غریبوں کی غربت کا مذاق کب تک اڑایا جاتا رہے گا؟

حکومتی رپورٹوں کو دیکھیں تو ایسا لگتا ہے چاروں صوبے مالی طور پر انتہائی مستحکم ہیں اور عوام کو کسی قسم کے مسائل کا سامنا نہیں ہے۔ غربت بالکل نہیں ہے، صحت کے مسائل نہیں ہیں، تعلیم کی شرح بلند ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن عملاً آپ ان شہروں اور دیہاتوں میں جائیں تو آپ کو تصویر کے بالکل برعکس ہی نظر آئے گا۔ سوال یہ ہے کہ غریب جائے تو جائے کہاں؟ اُس کی تان تو بالآخر سیاست دانوں پر ہی آکر ٹوٹتی ہے کہ وہ ہی ان کےلیے کچھ کریں گے اور اسی امید پر وہ انہیں ہر الیکشن میں ووٹ دینے پر مجبور ہیں۔

عوام نے تبدیلی کی دعوے دار سابقہ حکومت (پی ٹی آئی) کو موقع ضرور دیا تھا کہ شاید وہ ان کے دکھوں کا مداوا کرسکے لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات نکلا۔ سابقہ حکومت تو اپنی حریف جماعتوں سے بھی زیادہ نااہل ثابت ہوئی اور انہوں نے ملک کے ہر شعبے میں ایسی ایسی داستانیں رقم کیں کہ ان کی مثال ملنا ناممکن ہے۔ اب عوام کرے تو کیا کرے، کیونکہ ایک عام آدمی تو الیکشن لڑنے سے رہا۔ جس طرح کا سیاسی ماحول ان تمام طاقتور سیاستدانوں نے بنادیا ہے اس میں غریب سیاسی کارکنوں کےلیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ غریبوں کو تھوڑی سی سیاسی تسکین بلدیاتی انتخابات میں شامل ہوکر مل جاتی تھی لیکن پچھلے کچھ برسوں سے چونکہ بلدیاتی انتخابات نہیں ہوئے اس لیے عام آدمی اس سیاسی تسکین کو بھی پورا نہیں کر پا رہا۔ اس کے برعکس آپ انڈیا کی موجودہ صدر دروپدی مورمو کو دیکھیں جو ایک غریب خاندان سے ہے اور جس کا کُل اثاثہ ایک چھوٹا سا مکان اور محض چند لاکھ روپے ہیں۔

حکومت عوام کے مسائل کا تدارک کیوں نہیں کررہی؟ کیا ان کی ٹیم کمزور ہے؟ یا انہیں ایک دوسرے پر بھروسہ نہیں ہے یا پھر وہ کڑے فیصلے کرنے سے ڈرتے ہیں؟ عوام جاننا چاہتے ہیں کہ جب کبھی آئی ایم ایف اور وہ ممالک جن سے قرض لیا جاتا ہے، تو جب وہ یہ شرط عائد کرتے ہیں کہ عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھایا جائے تو آپ انہیں کیوں نہیں کہتے کہ ہم ایسا نہیں کرسکتے۔ اب پی ٹی آئی اور عمران خان کا جو بیانیہ سامنے آرہا ہے کہ ’’ہم کوئی غلام نہیں ہیں کہ جو آپ کہیں گے ہم کریں گے‘‘ اور Absolutely Not تو سابقہ حکومت نے یہ نعرے اس وقت نہیں لگائے جب آپ آئی ایم ایف اور دیگر ممالک سے کڑی شرائط پر قرض لیتے رہے۔ آپ تو اب بھی امریکی سفیر سے ملاقاتیں کررہے ہیں۔ اب آپ عوام کو نت نئی کہانیاں سنا رہے ہیں اور وہ عوام بالخصوص نوجوان جن کی رسائی محض سوشل میڈیا تک ہے، وہ بغیر سوچے سمجھے اپنے قائد کی ہر بات پر لبیک کہہ رہے ہیں۔

خدارا! اب وقت آ گیا ہے کہ اپنی آنکھیں کھولیں اور دیکھیں کہ آپ کے عوام کس قدر مسائل کا شکار ہیں۔ معلوم نہیں کہ حکمران طبقہ یا ان کے رفقائے کار وہ خبریں اور ویڈیوز دیکھتے ہیں یا نہیں کہ فلاں شخص نے غربت اور مہنگائی کے ہاتھوں انفرادی یا اجتماعی طور پر اپنے خاندان سمیت خودکشی کرلی۔ کتنے ہی ایسے واقعات منظرعام پر آچکے ہیں لیکن حکمرانوں کی بے حسی جوں کی توں ہے۔

یاد رکھیے محض ایک مخصوص سیکٹر کی تنخواہیں بڑھانے سے کام نہیں چلے گا یا صرف حکمرانوں کی طرف سے یہ بیانیہ بنانے کہ مارکیٹوں اور ریستورانوں میں لوگوں کا رش اور گاڑیوں میں اضافہ دیکھ کر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس ملک میں غربت نہیں ہے۔ یہ بالکل غلط ہوگا، کیونکہ تھوڑے سے طبقے کی پوش حالت دیکھ کر آپ پورے ملک میں ’’سب اچھا ہے‘‘ نہیں کہہ سکتے۔ آپ اس طبقے سے ہٹ کر متوسط اور اس سے نچلے طبقے کی حالت دیکھیں تو آپ کو علم ہوگا کہ وہ مہنگائی میں اضافے کی وجہ سے روز مرتے ہیں۔ مہنگائی کی وجہ سے غریب عوام میں ڈپریشن، بلڈ پریشر اور شوگر کے امراض میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے۔

عام مزدور، اسپتالوں، کلینکوں، نجی اسکولوں اور پرائیویٹ دفاتر میں کام کرنے والا طبقہ مہنگائی کی وجہ سے کس کرب سے گزر رہا ہے ذرا اس بات کا بھی خیال کیجیے، کیونکہ یہ لوگ تو ’’کم از کم اُجرت‘‘ کے قانون کے زمرے میں بھی نہیں آتے۔ اس لیے ان کا استحصال ایک یقینی امر ہے۔ کم تنخواہ، بارہ گھنٹے کے ڈیوٹی اوقات کار، کسی قسم کی مراعات (Benefits) کا نہ ملنا، مالکان کا سخت رویہ، نوکری ختم ہونے کی تلوار جو ہر وقت سر پر لٹکتی ہے، یہ وہ مسائل ہیں جو اکیسویں صدی میں بھی ہمارے ہاں ایک عام انسان کو درپیش ہیں۔ آج بھی ایک ایم اے پاس کو نجی اسکول میں غربت کی وجہ سے بہت معمولی تنخواہ پر کام کرنا پڑتا ہے۔ پرائیویٹ اسپتالوں اور کلینکوں میں درجہ چہارم کا ملازم طبقہ انتہائی کسمپرسی میں ڈیوٹی کررہا ہے اور ان کی آواز سننے والا کوئی نہیں۔ اگر وہ خود آواز اٹھاتے ہیں تو پھر انہیں ملازمت سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے وہ بے روز گاری کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ مہنگائی کے عفریت نے اُن سے اپنے جائز حقوق کے احتجاج کا حق بھی چھین لیا ہے۔

موجودہ حکمرانوں سے درخواست ہے کہ مہنگائی کے سدباب کےلیے صرف اسمبلیوں میں ہی اظہار خیال نہ کریں بلکہ اس کےلیے عملی طور پر بھی کچھ اقدامات کریں۔ سیاست میں عام آدمی کو شامل کرنے کےلیے انقلانی تبدیلیاں کریں۔ نجی اسپتالوں، کلینکوں اور اسکولوں کے اسٹاف کو کم از کم اجرت کے قانون کے تحت تنخواہیں دلوائیں اور جو مالکان ایسا نہ کریں ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ یاد رہے کہ ملک کو صحیح معنوں میں چلانے میں اشرافیہ کے ساتھ ساتھ مزدوروں اور عام لوگوں کی محنت بھی اپنی جگہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے۔ تو کیوں نہ ایسا منظم قدم اٹھایا جائے جس سے مہنگائی کا خاتمہ ہو اور ملک کا ہر شہری اپنے خاندان کی کفالت بہتر طور پر کرسکے اور اس کو کم از کم بنیادی ضروریات زندگی میسر آسکیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔