ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی!

امجد اسلام امجد  اتوار 18 ستمبر 2022
Amjadislam@gmail.com

[email protected]

وطن عزیز کے پچھترویں یوم آزادی کے حوالے سے جہاں اور بہت سی باتیں غور طلب ہیں وہاں ایک بہت اہم شعبہ تعلیم کا بھی ہے کہ بدقسمتی سے ان 75 برسوں میں ہم نے کہنے کو یونیورسٹیاں تو بہت سی بنا لی ہیں مگر عمومی طور پر ہمارا تعلیمی نظام اور معیار مسلسل مسائل کا شکار چلا آ رہا ہے۔

بالخصوص پرائمری ایجوکیشن اور پھر انگلش میڈیم کے بخار نے بہت سے پڑھے لکھوں اور ڈگری یافتہ بچوں کو بھی عملی طور پر جہلا میں شامل کر دیا ہے کہ اول تو تقریباً 30فیصد بچے اسکول ہی نہیں جا پاتے، باقی 70فیصد میں کم وبیش 40فیصد سرکاری اور اردو میڈیم اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور باقی کے 30 فیصد چند بڑے اداروں کو چھوڑ کر گلی محلے میں قائم نام نہاد انگریزی میڈیم اسکولو ںمیں ایک ایسی تعلیم حاصل کرتے ہیں جس میں ہماری تہذیب، اخلاق، کلچر اور تاریخ کو دیس نکالا ملا ہوا ہے کہ ان کی کتابیں آکسفورڈ یا کیمبرج سسٹم کے تحت بنتی اور کسی دوسرے ملک میں شایع ہو کر انتہائی مہنگے داموں ہمارے بچوں تک پہنچتی ہیں۔

چند برس قبل مجھے ایسی ہی ایک کتاب کو دیکھنے کا موقع ملا جس میں پاکستان کا ذکر پندرہ سطروں میں اور سنگاپور کا بیان تین صفحات پر پھیلا ہوا تھا۔ یہ ہزار مرتبہ کی دہرائی ہوئی بات ہے کہ آج تک کسی قوم نے کسی دوسری قوم کی زبان میں ترقی نہیں کی جب کہ یہ بھی طے ہے کہ انسانی بچے کا ذہن تین سے تیرہ برس کی عمر کے دوران اپنی شخصیت کے بنیادی خدوخال متعین کر لیتا ہے۔

اب تصور کیجیے کہ ایک پہلی جماعت کا بچہ جو ابھی اپنے اردگرد بولی جانے والی زبان کو سیکھنے کے عمل میں ہے، اسے ہر مضمون انگریزی میں پڑھایا جاتا ہے اور یوں وہ ایک نامانوس زبان کو سمجھنے میں اس قدر پریشان رہتا ہے کہ اس زبان کی معرفت زندگی کے بارے میں اس کے Concepts بھی بننے اور واضح ہونے کے بجائے مزید دھندلا جاتے ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ بیشتر انگلش میڈیم اسکول کا اسٹاف بھی انگریزی یا کسی بھی زبان میں پڑھانے کے لائق نہیں ہوتا۔

برٹش انڈیا میں اور آزادی کے بعد بھی 1980 تک یہ انگلش میڈیم ادارے نہ صرف بہت محدود تھے بلکہ ان کا ماحول اور تعلیمی میعار بھی نسبتاً بہت بہتر تھا اور میری اطلاعات کے مطابق ان میں بچوں کو ان کی مادری زبان اور علاقائی تہذیب سے بھی آشنا رکھا جاتا تھا لیکن اس کے بعد گزشتہ تقریباً چالیس برسوں سے بچوں کو صرف انگریزی زبان بولنا سکھانے کے لیے والدین سے انتہائی بھاری فیسیں لی جاتی ہیں جب کہ چند فیصد بچوں کے علاوہ باقی سب کے سب تعلیم کا ایک مجہول سا تصور لے کر عملی زندگی میں داخل ہوتے ہیں۔

جہاں تک اسکول کی سطح پر بورڈنگ کا تعلق ہے، چند کیڈٹ اسکولوں اور ایچی سن، برن ہال اور گھوڑا گلی لارنس کالج وغیرہ سے قطع نظر اچھے اسکول نہ ہونے کے برابر تھے مگر ان میں بوجوہ کسی غریب یا نچلے متوسط طبقے کے بچوں کا داخلہ تقریباً ناممکن تھا۔ کوئی دس بارہ برس قبل مجھے مریدکے کے قریب واقع چاند باغ اسکول کی ایک تقریب میں شمولیت کا موقع ملا تو وہاں کے ماحول، فضا اور ڈسپلن نے بہت متاثر کیا مگر قیام کے مختصر دورانیے کی وجہ سے اسکول بورڈنگ اور وہاں کی دیگر کئی خوبیوں کو پوری طرح سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع نہ مل سکا لیکن ہمارے عمومی منفی اور تنقیدی رویوں کے برعکس جب بھی، جہاں بھی اور جس سے بھی چاند باغ بورڈنگ اسکول کے بارے میں بات ہوئی، اس کے بارے میں اچھا اور تعریفی تاثر ہی سننے کو ملا لیکن وہ جو فارسی میں کہتے ہیں کہ ’’دیدہ کے بود مانند دیدہ‘‘ تو اس مثالی اور غیرمعمولی تعلیمی ادارے کا اصل تعارف کوئی ایک ماہ قبل ہوا جب میرے بیٹے علی ذی شان نے اپنے بیٹے ابراہیم ذی شان کو اس ادارے میں داخل کرانے کا فیصلہ بہت تحقیق اور سوچ سمجھ کے بعد کیا کہ اپنی تمام تر ذہانت اور محبوب شخصیت کے باوجود منع کرنے کے اسکول سے گھر آنے کے بعد اس کا بیشتر وقت موبائل وغیرہ کے ساتھ ہی گزرتا تھا جس کا اثر اس کے ساتویں کے نتیجے میں بھی نظر آیا۔

اس لیے ضروری سمجھا گیا کہ اسے ایسے ماحول میں رکھا جائے جہاں نہ صرف وہ اس عادت سے محفوظ رہ سکے بلکہ دن اور رات کا ہر لمحہ ایک مقرر شدہ ڈسپلن کے مطابق گزارے۔

دوسری طرف یہ اندیشہ بھی تھا کہ اس کی ماں کے لیے اس کی جدائی اور خود اس کے لیے گھر کے ماحول سے دوری اور ڈسپلن کی پابندی کہیں کچھ اور مسائل نہ پیدا کر دے۔ اب یہ کمال اسکول کی انتظامیہ، اساتذہ، ماحول اور فضا کا ہے کہ بچہ بہت جلد ذہنی طور پر آمادگی کے رخ پر چلنا شروع کر دیتا ہے جب کہ بورڈنگ کے انچارج اور ماحول اس پر پڑنے والے اداسی کے منطقی دوروں کو خصوصی توجہ اور بچوں کی نفسیات کے شعور کے باعث بہت جلد معقول حد تک کنٹرول کر لیتے ہیں۔

پرنسپل محمد افضل اور برسر کرنل ریٹائرڈ ظفر صاحب سے ملاقات کے دوران پتہ چلا کہ یہ اسکول اصل میں بھارت کے شہر ڈیرہ دون کے کچھ سابق طالب علموں کی اپنے اسکول اور تعلیم سے محبت کا آئینہ دار ہے۔ اسی کی دہائی میں جنرل غلام جیلانی اور ان کے کچھ سابقہ کلاس فیلوز نے مل کر اس کی بنیاد رکھی اور اس کا اولین نام بھی ’’دون اسکول‘‘ تھا مگر بعد میں اس کا نام کاپی رائٹ کی پابندی کے حوالے سے ’’چاند باغ‘‘ اسکول رکھ دیا گیا جس میں اس وقت کل ملا کر اے لیول اور لیول تک تقریباً تیرہ سو بچے زیرتعلیم ہیں جن میں سے چار سو سے زیادہ بورڈنگ میں رہائش پذیر ہیں۔

اسکول اور بورڈنگ کا معیار اور فضا ایسی دل کشا تھی کہ یہ یقین کرنا مشکل ہو جاتا تھا کہ ایسی دوردراز جگہ پر ایسا اچھا ادارہ قائم کیسے ہوا اور اب تک اتنی کامیابی سے چل کیسے رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی دل میں بہت زور سے یہ خواہش بھی ابھری کہ اگر ان گزشتہ 75 برسوں میں ہم نے وطن عزیز کے ہر ضلع میں اس طرح کا ایک ایک اسکول بھی بنا لیا ہوتا تو آج ہماری نوجوان نسل کی کارکردگی دنیا میں کسی سے کم نہ ہوتی۔

اس کے ساتھ ہی مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے کارپردازان سے بھی یہ درخواست کرنے کو جی چاہتا ہے کہ وہ اپنے تعلیم کے محکمے کے افسران اور وزراء کو چاند باغ اسکول کے تجربے سے سیکھ کر وطن میں تعلیم کی سطح، ماحول اور وقار میں اس اضافے کا باعث بنیں کہ جس کے بعد قوم کے ہر بچے کو بہترین تعلیم کے ساتھ ساتھ اعلیٰ تربیت بھی مل سکے اور آنے والے کل میں ہم ایک مہذب اور ترقی یافتہ قوم کی شکل میں دیکھے اور پسند کیے جا سکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔