وزیراعظم کا یو این جنرل اسمبلی سے خطاب

ایڈیٹوریل  اتوار 25 ستمبر 2022
دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کو پاکستان کے مسائل کا یقینا ادراک ہے۔ فوٹو: فائل

دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کو پاکستان کے مسائل کا یقینا ادراک ہے۔ فوٹو: فائل

وزیر اعظم شہباز شریف نے گزشتہ روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا۔ اپنے اس خطاب میں انھوں نے پاکستان میں آنے والے سیلاب اور اس کے نتیجے میں تباہی کا بڑی تفصیل سے ذکر کیا۔

پاکستان پر گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلیوں کے جو تباہ کن اثرات ظاہر ہوئے ہیں، اس کی وجوہات اور اس کے ذمے داروں کے حوالے سے کھل کر اظہار خیال کیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے تنازع کشمیر پر پاکستان کا مؤقف دو ٹوک انداز میں بیان کیا اور کہا کہ بھارت پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق تنازع کشمیر کے حل پر تیار ہو۔ اس کے علاوہ انھوں نے فلسطین اور افغانستان کے حوالے سے بھی پاکستان کا مؤقف بیان کیا تاہم ان کی تقریر کا سب سے اہم ترین حصہ پاکستان میں سیلاب سے ہونے والی تباہی پر مشتمل رہا۔

انھوں نے کہا ہے کہ ہمارے گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں، جنگلات جل رہے ہیں اور گرمی کی لہر 53 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر چکی ہے جو اسے کرہ ارض کا گرم ترین مقام بنا رہی ہے۔ عالمی حدت کے تباہ کن اثرات سے آنے والے سیلاب کے سبب پاکستان کا ایک تہائی حصہ اس وقت پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔

پاکستان میں زندگی ہمیشہ کے لیے تبدیل ہو چکی ہے، یہ وہ عالمی تباہی ہے جس کی قیمت پاکستان کے عوام ادا کر رہے ہیں، ہمارے لیے قومی سلامتی کی تعریف اب بدل گئی ہے، ہمارے عوام پوچھتے ہیں کہ یہ تباہی کیوں ہوئی؟ ناقابل تردید حقیقت یہ ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے، ہماری وجہ سے ہے، اب عالمی رہنما اکٹھے ہو کر قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی حکمت عملی وضع کریں ورنہ جنگوں کے لیے اس دنیا میں کوئی میدان باقی نہیں رہے گا۔

وزیراعظم پاکستان نے کہا آج جب میں اپنے ملک پاکستان کا احوال سنانے کے لیے یہاں کھڑا ہوں لیکن میرا دل و دماغ اس وقت بھی میرے ملک میں ہے۔ ہم جس صدمے سے گزر رہے ہیں، اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ 40دن اور 40 راتوں تک ایک تباہ کن سیلاب ہم پر مسلط رہا جس نے صدیوں کا موسمیاتی ریکارڈ توڑ دیا ہے،سیلاب کے باعث1500 سے زائد لوگ جاں بحق ہو چکے ہیں جن میں 400سے زیادہ بچے ہیں،خواتین اور بچوں سمیت 33 ملین افراد اب صحت کے خطرات سے دوچار ہیں جن میں ساڑھے 6 لاکھ حاملہ خواتین ہیں۔

بہت سے لوگ بیماری اور غذائی قلت کا شکار ہیں۔بے گھرافراد کے لیے خیمہ لگانے کوخشک جگہ نہیں،370پل تباہ ، 10 لاکھ مویشی ہلاک ہوئے ہیں۔ابتدائی تخمینے بتاتے ہیں کہ سیلاب کے باعث 13 ہزار کلومیٹر سے زیادہ سڑکوں کو نقصان پہنچا ہے،چار ملین ایکڑ فصلیں بہہ گئیں۔

ہماری طرف سے اپنے وسائل کے مطابق ریلیف کی کوششیں جاری ہیں لیکن نقصان کا تخمینہ ہماری پہنچ سے باہر ہے ،لگتا ہے کہ ایک کروڑ11 لاکھ مزید لوگ غربت لکیر سے نیچے چلے جائیں گے۔پاکستان میں اس طرح کی قدرتی آفت کو کبھی نہیں دیکھا، ہمیں پہلے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور اب سیلاب کا سامنا ہے حالانکہ دنیا میں جو کاربن فضا میں بھیجی جارہی ہے ، پاکستان کا اس میں حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے ، ہمیں جن مساہل کا سامنا ہے اس کی وجہ ہم نہیں ہیں۔

ایک بات بہت واضح ہے کہ جو کچھ پاکستان میں رونما ہوا ہے وہ پاکستان تک محدود نہیں رہے گا۔ ہم ترقیاتی فنڈ کا حصہ بھی ریسکیو اور ریلیف کے کاموں پر خرچ کر رہے ہیں ،سیلاب متاثرین میں 70 ارب کی رقم تقسیم کی گئی۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس ناگہانی آفت کے ہمارے ملک میں صحت اور اقتصادیات پر اثرات کا تخمینہ لگانا اس وقت مشکل ہے۔

پاکستان اور دنیا کے دیگر ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک میں گلوبل وارمنگ اور دیگر موسمیاتی وماحولیاتی تبدیلیوں نے تباہ کن اثرات مرتب کیے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجوہات کے حوالے سے بات کی جائے تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ اس کی ذمے داری نسل انسانی کے انتہائی ترقی یافتہ حصے پر عائد ہوتی ہے۔

امریکا، مغربی یورپ، چین، روس اور دیگر ترقی یافتہ ملکوں کی ترقی کی قیمت پورے کرۂ ارض کو ادا کرنی پڑ رہی ہیں۔ اسے قدرتی آفات اس لیے قرار نہیں دینا چاہیے کیونکہ ترقی یافتہ دنیا کے سائنس دانوں اور ماہرین کو پورا ادراک ہے کہ انسان ترقی کے جس سفر پر سرپٹ دوڑ رہا ہے، اس کے نتیجے میں ایکو بیلنس متاثر ہو رہا ہے۔

ماہرین کی بار بار وارننگز کے باوجود ترقی یافتہ ممالک کسی ایسے معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے تیار نہیں جس کے نتیجے میں گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلیوں کو روکا جا سکے۔ جہاں تک پاکستان کی بات ہے تو اس حوالے سے ہمارے ارباب اختیار کو بھی خوداحتسابی کے عمل سے گزرنا چاہیے۔

پاکستان میں زمینوں کی بندربانٹ، جنگلات کی بے دریغ اور بے رحمانہ کٹائی، انفرااسٹرکچر کی تعمیر کے وقت ماحولیاتی پہلو کو نظرانداز کرنا، شہروں میں گرین بیلٹس پر تجاوزات کا قائم ہونا، شاہراہوں کے ساتھ گرین بیلٹ اگر رکھی بھی گئی ہے تو وہ انتہائی مختصر ہے جہاں پودوں کا درخت میں تبدیل ہونا انتہائی مشکل کام ہے۔

زیرزمین میٹھے پانی کا بے دریغ استعمال اور ضیاع، گھریلو سیوریج کے پانی اور ویسٹ کو غرقی کے ذریعے میٹھے پانی کے ساتھ مکس کر دینا، یہ سب پاکستان کے لیے تباہی اور بربادی کا باعث بنے ہیں۔ سیاسی حکمران، آمر حکمران، بیوروکریسی اور دیگر فیصلہ ساز اداروں کے کرتادھرتاؤں کی ذہنی استعداد انتہائی سطحی ہونے کی وجہ سے پاکستان میں انتظامی زوال کا آغاز ہوا اور اس کے ساتھ ساتھ ہی تعلیمی زوال بھی شروع ہو گیا۔

پاکستان کے اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقات کی ذہنی اپروچ انتہائی نچلی سطح پر آ گئی۔ پاکستان آج جس قسم کے مسائل کا شکار ہے، اس کی وجہ یہی ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقے اور تعلیم یافتہ طبقے کی ذہانت اس سطح کی نہیں ہے کہ وہ سسٹم کو نقائص اور ابہام سے پاک کر سکے۔ بہرحال وزیراعظم نے عالمی فورم پر پاکستان کا انتہائی مثبت انداز میں مقدمہ لڑا ہے اور اس کے اثرات بھی یقینی طور پر اچھے نکلیں گے۔

ادھر ایک خبر کے مطابق اقوام متحدہ نے سیلاب کی تباہ کاریوں کے باعث معیشت پہنچنے والے نقصان کے پیش نظر عالمی اداروں سے پاکستان کو قرضوں کی ادائیگی میں ریلیف دینے کی تجویز دے دی ہے، برطانوی اخبار فنانشنل ٹائمزکے مطابق اقوام متحدہ ڈویلپمنٹ پروگرام (UNDP) کے میمورنڈم میں زور دیا گیا ہے کہ مالی بحران کے شکار پاکستان کے قرضوں کی تشکیل نو کی جانی چاہیے، فنانشل ٹائمز کے مطابق یو این ڈی پی رواں ہفتے مذکورہ میمورنڈم پاکستان کے حوالے کرے گی جس میں کہا گیا ہے کہ قرض دہندگان کو سیلاب کے پیش نظر پاکستانی قرضوں میں ریلیف پر غور کرنا چاہیے۔

اقوام متحدہ نے کہا کہ پاکستان کو قرض دینے والے ممالک کو قرضوں کی واپسی میں ریلیف دینے پرغور کرنا چاہیے تاکہ پاکستانی حکام سیلاب متاثرین کے لیے امدادی سرگرمیوں پر توجہ زیادہ مرکوز کرسکیں۔ وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے بھی کہا ہے کہ پاکستان نے عالمی مالیاتی اداروں اور دوست ممالک سے کہا ہے کہ سیلاب کے باعث پاکستان کو قرضوں میں ریلیف دیا جائے۔ انھوں نے کہا کہ آئی ایم ایف اور عالمی بینک سے قرض کی شرائط میں نرمی کرنے کا کہا ہے جس پر آمادگی کا اظہار کیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف نے اگلی قسط بھی بڑھانے کی حامی بھری ہے۔

دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کو پاکستان کے مسائل کا یقینا ادراک ہے۔ پاکستان کو غیرملکی قرضوں میں یقینی طور پر اچھا خاصا ریلیف ملنا چاہیے۔ اقوام عالم کی طرف سے پاکستان کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا جا رہا ہے جو ایک بڑی مثبت بات ہے۔ پاکستان جس قسم کے مالی اور معاشی مسائل کا شکار ہے، اس کی وجہ سے پاکستان کی حکومت کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ اتنی بڑی تباہی سے عہدہ برآ ہو سکے اور سیلاب متاثرین کی بحالی کا کام مکمل کر سکے۔ اس کے لیے عالمی مدد کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔

عالمی مالیاتی اداروں کے پالیسی سازوں کے علم میں بھی ساری صورت حال ہے، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس خود پاکستان تشریف لائے اور سیلاب کی صورت حال اور متاثرین کا خود جائزہ لیا اور دنیا کو اس سے آگاہ کرتے ہوئے پاکستان کی مدد کی اپیل کی۔ امید یہی ہے کہ پاکستان کو عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے بھی مثبت جواب ملے گا۔ پاکستان کے پالیسی سازوں کو بھی چاہیے کہ وہ سیلاب متاثرین کی بحالی کے کام کو شفاف میکنزم کے تحت تیزرفتاری سے مکمل کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔