بزنس کمیونٹی کو اسحاق ڈار سے بہت سی امیدیں وابستہ

سلمان صدیقی  بدھ 28 ستمبر 2022
پالیسی بیانات سے انداز ہوگا وہ مستقبل میں ملک کو کہاں لے جائینگے، عقیل کریم ڈھیڈھی
(فوٹو : فائل)

پالیسی بیانات سے انداز ہوگا وہ مستقبل میں ملک کو کہاں لے جائینگے، عقیل کریم ڈھیڈھی (فوٹو : فائل)

 کراچی:  مسلم لیگ ن کے دوسرے طاقتور ترین رہنما اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار 5سال کی خود ساختہ جلاوطنی کے بعد پاکستان واپس آگئے۔

انھوں نے منگل کو سینیٹر کے طور پر حلف اٹھالیا اور ملکی معیشت میں شدید بحران کے درمیان آج اگلے وزیر خزانہ بننے کے لیے تیار ہیں۔ان کے ماضی کے تجربے، کارکردگی اور ماضی میں اسی پوزیشن پر ہونے والے ٹریک ریکارڈ کودیکھتے ہوئے کاروباری برادری کو ان سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں  تاہم اس بار تھوڑا سا ہچکچاہٹ کا شکار ہیں کیونکہ معیشت کو بہت زیادہ چیلنجز درپیش ہیں،خوش قسمتی سے اس کی واپسی کا وقت اس کے لیے سازگار ہے۔

دنیا سیلاب کی تباہ کاریوں کو شکست دینے کے لیے پاکستان کی مدد کے لیے کھڑی ہے۔ دوم عالمی اجناس کی قیمتیں کم ہونا شروع ہو گئی ہیں ۔پاکستان بزنس کونسل (PBC) کے سی ای او احسان ملک نے کہا کہ ان کی واپسی نے کاروبار کے لیے رجحانات کو مثبت میں بدل دیا ہے۔

تاہم دنیا سے ایک اعتماد حاصل کرنا ان کے لیے چیلنج بن سکتا ہے۔انھوں نے کہا کہ سیلاب نے رواں مالی سال 2023 میں 3-3.5 بلین ڈالر مالیت کی کپاس اور گندم کی اضافی درآمد کا مطالبہ کیا حالانکہ عالمی اجناس کی قیمتیں کم ہونا شروع ہو گئی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان کے غیر ملکی قرضوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان کے ڈیفالٹ کا خطرہ مسلسل منڈلا رہا ہے اور بیرونی دنیا اب بھی یقین ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ ہو جائے گا۔ڈار ڈالر کے مقابلے میں روپے کو مضبوط رکھنے کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ تاہم اس بار ملک کے پاس انٹربینک مارکیٹ میں روپے کے دفاع کے لیے زرمبادلہ کے ذخائر نہیں ہیں۔

دوسرایہ کہ  مرکزی بینک کو آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت اس بار روپے کو کنٹرول کرنے کی اجازت نہیں ہے۔پاکستان اب درآمدات کو کنٹرول میں رکھنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ آدھی صنعتیں یا تو بند پڑی ہیں یا پیداوار میں کٹوتی کا سامنا ہے۔

برآمد کنندگان نے یورپ میں کساد بازاری کے دوران آرڈرز کھونے کی اطلاع دینا شروع کر دی ہے جو کہ پاکستان کی اہم برآمدی منڈی ہے۔تجربہ کار بزنس مین عارف حبیب نے کہا کہ پاکستان میں سب سے بڑا چیلنج روپے کا مستحکم ہونا ہے۔ ڈار ایک تجربہ کار وزیر خزانہ رہے ہیں ، وہ ماضی میں بھی ایسا کر چکے ہیں ۔دوم یہ کہ  عالمی اجناس میں نمایاں کمی اسے درآمدی بل کو کم کرنے اور درآمدی مہنگائی کو بھی کم کرنے میں مدد دے گی۔بزنس ٹائیکون عقیل کریم ڈیڈھی نے اسحاق ڈار کے ماضی کے ٹریک ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے ان کی قیادت پر اعتماد ظاہر کیا۔ تاہم انھوں نے کہا کہ ان کے مستقبل کی کارکردگی پر تبصرہ کرنا قبل از وقت ہے۔انھوں نے کہا، انھیں ایک سے دو ہفتے کام کرنے دیں۔

انھیں پالیسی بیانات دینے دیں تاکہ ہم اس پر بات کر سکیں کہ وہ مستقبل میں ملک کو کہاں لے جائیں گے۔تاہم معلوم ہوا ہے کہ ستمبر میں اس وقت وزیر خزانہ کی تبدیلی منطقی ہے،اپریل میں وزیر خزانہ کا عہدہ سنبھالنے والے مفتاح اسماعیل کو ہر صورت اکتوبر میں جانا تھا کیونکہ وہ 6ماہ سے زیادہ اس عہدے پر نہیں رہ سکتے تھے۔ وہ غیر منتخب وزیر تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔