سیلاب زدگان، انجلینا جولی اور سیاست دان

اشفاق اللہ جان ڈاگیوال  جمعرات 29 ستمبر 2022
ashfaqkhan@express.com.pk

[email protected]

کوئی کہتا ہے انجلینا جولی انسانی تاریخ کی سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم نیٹو کے لیے برانڈنگ کا کام کرتی ہے۔ کوئی کہتا ہے اس کی فلموں میں سامراجی پراپیگنڈا پایا جاتا ہے۔ وہ اقوام متحدہ کے مہاجرین کمیشن کا حصہ ہے لیکن دنیا میں سب سے زیادہ انسانوں کو جبری در بدر کرنے والے ملک امریکا کی خارجہ پالیسی کے خلاف اس نے آج تک ایک بیان نہیں دیا۔

کوئی کہتا ہے اس نے ایک کالم میں نیٹو کو افغانستان پر بمباری کے دوران خواتین کے حقوق کا خیال رکھنے پر سراہا۔ کوئی کہتا ہے موصل میں اتحادی افواج کی بمباری کے بعد اس نے ملبے پر کھڑے ہو کر ایک ویڈیو جاری کی۔ اس میں کہا کہ لاشوں کی بو آ رہی ہے مگر لوگ خوش ہیں کہ وہ اب آزاد ہیں۔انجلینا ’’انسانی مداخلت‘‘ کے نام پر سامراجی یلغار کے لیے بھرپور پراپیگنڈہ کرتی رہی ہے۔

کوئی کہتا ہے انجلینا کے والد اسرائیلی ریاست کے کٹر حامی ہیں اور یہودیوں کا سالانہ جشن نخبہ بھی اسرائیل جا کر مناتے رہے ہیں۔ کوئی کہتا ہے پاکستان میں سیلاب نیٹو ممالک کی جانب سے ماحولیاتی آلودگی اور گلوبل وارمنگ کی وجہ سے آتے ہیں اور انجلینا جولی انھی قوتوں کی سیاہ کاریوں پر پردہ ڈالنے کے لیے آجاتی ہے اور تھوڑی بہت مدد کرکے حقائق پر پردہ ڈالنے کی اپنے تئیں پوری کوشش کرتی ہے۔

ممکن ہے ان میں سے ہر بات درست ہو، یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ باتین درست اور کچھ مفروضے ہوں۔ مگر میں دیکھتا ہوں کہ 2005 میں جب پاکستان کی تاریخ کا بدترین زلزلہ آتا ہے اور متاثرہ علاقوں میں انسانیت سسک رہی تھی تو یہی انجلینا جولی اقوام متحدہ کی نمایندہ بن کر آئیں اور متاثرین کے ساتھ آکر کھڑی ہو گئیں۔ میں دیکھتا ہوں کہ 2010 سیلاب نے جب صوبہ خیبر پختونخوا کو بری طرح تباہ و برباد کردیا تو بے یار و مددگار لوگوں کے درمیان انجیلنا جولی کھڑی نظر آئیں۔

میں دیکھتا ہوں کہ آج جب تاریخ کے بدترین سیلاب نے پاکستان کے چاروں صوبوں میں تباہی مچا دی، تین کروڑ سے زائد آبادی کے گھر بار، کھیت کھلیان اور سب کچھ سیلاب میں بہہ گیا، جب یہ تین کروڑ آبادی سڑکوں پر آکر کسی غیبی امداد کی منتظر تھے تو ایک بار پھر انجلینا جولی ان کے درمیان دکھائی دیں۔

اقوام متحدہ کے ادارے UNHCR کی خیرسگالی کی سفیر انجلینا جولی کے دورہ پاکستان کا مقصد عالمی برادری کی توجہ، پاکستانی سیلاب زدگان کی طرف مبذول کرانا ہے۔ وہ متاثرہ علاقوں میں امدادی کارکنوں سے بھی ملیں اور سیلاب متاثرین سے بھی ملیں، خاص طور پر خواتین کو درپیش مسائل جاننے کے لیے پانی میں گھری ہوئی بستیوں تک پہنچیں۔

انجلینا جولی سندھ کی کئی تحصیلوں کے گوٹھوں تک کشتیوں میں بیٹھ کر پہنچیں، وہاں مقامی لوگوں سے ان کے حالات پوچھتی رہیں، بچوں اور خواتین کے ساتھ ان کے درمیان بیٹھی رہیں۔

مترجم کے ذریعے بچوں سے باتیں کرتی رہیں۔ حالانکہ دن کے وقت ان علاقوں میں شدید گرمی ہوتی ہے، اس دن گرمی شدید تھی اور وقت بھی کم تھا جس کی سیکیورٹی والے انجلینا کو بار بار یاد دہانی کرواتے تھے لیکن وہ جگہ جگہ خواتین سے بات کرنے رک جاتی تھیں۔ میڈیا پر ان کے دورے کی تفصیل سے معلوم ہوا کہ جب خیر محمد مغیری گاؤں پہنچیں تو چاروں اطراف پانی تھا کچھ خواتین چھت پر کھڑی تھیں، کوئی جگہ نظر نہیں آ رہی تھی جہاں پر وہ اتر کر ان سے بات کر سکیں۔

لہٰذا کشتی قریب لے جائی گئی اور وہ کشتی کے سامنے والے حصے پر بیٹھ گئیں اور خواتین سے باتیں کرتی رہیں۔ کیا پاکستان کے کسی سیاستدان نے اس طرح سیلاب زدگان کی دل جوئی کی؟ کیا کوئی قومی لیڈر ایسے متاثرہ علاقوں کے دورے پر نکلا؟ انجلینا جولی نے سیلاب متاثرین کو بھرپور مدد کی یقین دہانی کرائی۔ مبصرین کہتے ہیں انجلینا جولی کے اس دورے کے نتیجے میں عالمی برادری کو بہتر طریقے سے احساس ہو سکے گا کہ وہاں لوگوں کو اب بھی مدد کی اشد ضرورت ہے۔

جب اس نے سیلاب کی تباہ کاریوں کو دیکھا اور سیلاب کے باعث لٹے پھٹے لوگوں کے تاثرات جاننے کی کوشش کی تو اس کے چہرے کے خدوخال گہرے دکھ اورکرب کا اظہار کررہے تھے۔ کاش خیبرپختونخوا، پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے سیاستدانوں کے چہرے پر بھی ایسے دکھ اور کرب کے آثار نظر آتے۔

انجلینا جولی ہزاروں میل کا سفر طے کرکے سیلاب متاثرین کی مدد کو پہنچ گئیں لیکن ہمارے سیاستدانوں نے ابھی تک اتنی بڑی آفت کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان تحریک انصاف، پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ (ق)، ایم کیو ایم، فنکشنل لیگ، اے این پی سمیت کون سی جماعت کس سیلابی علاقے میں کام کررہی ہے؟ کسی کو کوئی خبر نہیں، نہ اخبارات کوئی ان کی خبر دیتے ہیں، نہ ٹی وی چینلز پر کوئی ویڈیو چلتی ہے، نہ ہی سوشل میڈیاکوئی سرگرمی دکھا سکا۔

اگر کہیں کوئی ان مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کرتے دکھائی دیے ہیں تو دینی و فلاحی جماعتوں کے کارکن۔ کہیں جمعیت علماء اسلام کے کارکن تو کہیں جماعت اسلامی کے کارکن دکھائی دے رہے ہیں، کہیں وفاق المدارس العربیہ سے جڑے مدارس لوگ کام کررہے ہیں، کہیں تبلیغی جماعت کے ساتھی سرگرم ہیں۔

بے حسی کا مظاہرہ کررہے ہیں تو سیاستدان اور سیاسی جماعتیں۔ سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے کسی حکومت کے پاس کوئی پلان آف ایکشن دکھائی نہیں دے رہا۔ ملک کی بڑی جماعتیں کرسی کرسی کا کھیل کھیل رہی ہیں۔ ملک بھر میں مخیر حضرات سیلاب زدگان کی دل کھول کر مدد تو کررہے ہیں، لیکن ابھی بھی بے شمار ایسے متاثرین ہیں جنھیں مناسب خوراک، پینے کا صاف پانی، بیماریوں سے بچنے کے لیے ادویات، سر چھپانے کے لیے ٹینٹ کی ضرورت ہے۔

بہت سے علاقوں میں ابھی تک پانی کھڑا ہے، جگہ جگہ جانور مرے پڑے ہیں، ان مردہ جانوروں کے جسم سے تعفن پھیل رہا ہے، طرح طرح کی بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔ مچھر اور مکھیوں سے بچے بوڑے بیمار ہو رہے ہیں۔ اوپر سے موسم سرما کی دستک نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ رات کو خنکی کا آغاز ہوچکا ہے۔ آیندہ چند روز تک درجہ حرارت مزید گر جائے گا اور سردی بڑھ جائے گی۔

جو بے سروسامانی کے عالم میں پڑے لاکھوں سیلاب زدگان کی زندگیوں کے لیے بہت بڑا خطرہ بن سکتی ہے۔ اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے بڑی سیاسی جماعتوں کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

انھیں کم از کم دو ماہ کے لیے اپنی سیاسی سرگرمیوں کو منجمد کرکے تمام تر توانائیاں سیلاب زدگان کو موسم سرما سے بچانے اور انھیں ان کے گھروں میں منتقل کرنے پر لگانا ہوں گی۔ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جب ہم اپنے گھر میں سنجیدہ نہیں ہوں گے تو باہر سے ہماری کوئی مدد نہیں کرے گا۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اس قدرتی آفت کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے ایک پیج پر جمع ہوجائیں ورنہ کسی بڑے انسانی المیے کا خدشہ ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے سیلاب زدگان کے لیے ٹیلی تھون کی، مبینہ طور پر اربوں روپے کا فنڈ اکٹھا ہوا، مگر ابھی تک اس فنڈ کی ایک پائی بھی کہیں خرچ ہوتی نظر نہیں آئی، کسی سیلاب متاثرین کی مدد تو دور ابھی تک عمران خان نیازی کو جلسوں کے درمیانی وقفے میں متاثرین سے ملنے کی بھی فرصت نہیں ملی۔ سیلاب متاثرین اس وقت اذیت ناک صورت حال سے دوچار ہیں۔

ان کو اس وقت مدد کی شدید ضرورت ہے مگر ناقدین کا خیال ہے کہ عمران خان ان کے نام پر جمع ہونے والا پیسہ دبا کر بیٹھ گئے ہیں اور اس خدشے کابھی اظہار کررہے ہیں کہ کہیں سیلاب زدگان کے لیے جمع کیا گیا پیسہ عمران خان اپنے سیاسی جلسوں پر ہی خرچ نہ کردیں۔

اگر ایسا ہوا تو اس سے بڑا ظلم اور کوئی نہیں ہوگا۔ سیلاب زدگان کے نام پر جمع کی گئی ایک ایک پائی متاثرین کی امانت ہے اور وہ حقدار تک پہنچانا عمران خان کی ذمے داری ہے، اس صورتحال میں جلسے جلوس متاثرین کی زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے اور اگر تاثر یہ ہو کہ یہ جلسے ان کے لیے جمع کیے گئے خیراتی رقم سے ہو رہے ہیں تو اس کا انجام ایسا ہوگا کہ یہ ملکی سیاست کا نقشہ بدل کر رکھ دے گا۔

سیلاب میں ڈوبے ہوئے علاقوں سے ایسی ایسی ویڈیوز اور تصاویر آرہی ہیں جنھیں دیکھ کر دل دہلا جاتے ہیں۔ ابھی میری نظر سے ایک تصویر گزری جس نے ہلا کر رکھ دیا، سارا علاقہ سیلاب کے پانی کی لپیٹ میں ہے اور ایک بوڑھا شخص اپنی بارہ تیرہ سال کی پوتی کو کمر پر اٹھا کر کسی خشک جگہ پہنچنے کے لیے تگ و دو کررہا ہے۔ کوئی اس کا پرسان حال نہیں، کوئی مدد گار نہیں۔ بوڑھی ہڈیاں اتنا بوجھ اٹھائے پانی سے گزر رہا ہے۔

میں کسی ایک جماعت کو نہیں تمام سیاسی جماعتوں سے اپیل کروں گا کہ خدارا اس آزمائش کی گھڑی میں اپنے رویوں کو بدلیں، اپنی ترجیحات میں تبدیلیاں لائیں، سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے فوری اقدامات نہ کیے تو بہت دیر ہوجائے گی۔مشکل کی اس گھڑی میں میڈیا اور میڈیا پرسنز کو بھی اپنی ترجیحات بدلنا ہو ں گی۔

یہ ہنگامی صورتحال ہے، تباہی اور بربادی جو ہوگئی وہ تو ہوگئی مگر اس کو انسانی المیے میں بدلنے سے پہلے پوری قوم یک جا کرنے کے لیے آپ کو بھی کردار ادا کرنا چاہیے۔ 24گھنٹے سیاست سیاست کی رٹ چھوڑ کر ریاست اور اس کے بے یار و مددگار باسیوں کی جانب بھی وجہ دیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔