ماں باپ اور استاد سب ہیں خدا کی رحمت

صدام ساگر  جمعـء 30 ستمبر 2022

اسلام میں جہاں مسلمانوں پر حصولِ علم کو فرض قرار دیا ہے ، وہاں اسلام کی نظر میں اُستاد کو بھی معزز مقام حاصل ہے، تاکہ اس کی عظمت سے علم کا وقار بڑھ سکے۔ اسلام میں استاد کا رتبہ والدین کے رتبے کے برابر قرار دیا گیا ہے۔

دنیا میں والدین کے بعد اگرکسی پر بچے کی تربیت کی ذمے داری عائد ہوتی ہے تو وہ معلم یعنی استاد ہے، کیونکہ ایک استاد پتھرکو تراش کر ہیرا بناتا ہے، بنجر زمین کو سینچ کر کھلیان بناتا ہے، چنانچہ اس لحاظ سے استاد واجب الاحترام شخصیت ہے۔  محمد سعید مرزا کا شمار بھی ایسی ہی واجب الاحترام شخصیات میں ہوتا ہے ، جنھوں نے 1999ء میں بچوں کے لیے ایک تعلیمی ادارے کی بنیاد رکھی۔ ایک ایسے ماحول میں جہاں تعلیم انفرادی و اجتماعی طور پر سب کے لیے نہایت اہم ہے۔

تعلیم معاشرے کو بہتر شہری، ذہین بچے اور باشعور بنا دیتی ہے۔ تعلیم ہر قوم کی بنیاد ہوتی ہے، جو قوم معاشی دولت، معاشرتی استحکام اور سیاسی قابلیت دیتی ہے، تعلیم ایک بہترین سرمایہ کاری ہے جولوگوں کو ملازمت کے مواقع مہیا کرتی ہے اور ایک اچھا انسان بننے میں مدد دیتی ہے۔ بقول حضرت علامہ اقبال کہ:

ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے

آتے ہیں جوکام دوسروں کے

باہمت لوگ کبھی ہارا نہیں کرتے یا تو وہ جیت جاتے ہیں یا وہ سیکھ جاتے ہیں۔ سعید مرزا بھی ایسی ہی عادات کے مالک ہیں۔ وہ زندگی کے کسی بھی مقصد میں ہارکر نہیں بلکہ باہمت لوگوں کی طرح جیت کر آگے بڑھنے کا عزم رکھتے ہیں۔ وہ ایک باذوق اور صاف گو آدمی ہیں۔

انھوں نے تعلیمی ادارے کا آغاز ایک مشن سمجھ کرکیا کہ اپنے علاقے کو تعلیم یافتہ بنایا جائے۔ افسوس کہ ان کی طویل انتھک جدوجہد کے باوجود بھی علاقے کا ماحول کسی صورت بھی نہ بدل سکا۔

جہاں اپنے علاقے میں بڑھتے ہوئے جرائم اور بچوں کے ہاتھوں میں کتابوں کی جگہ نشے کے سگریٹ دیکھ کر غم زدہ ہو جاتے ہیں وہیں وہ بہت سے شاگردوں کو بینک ملازم ، پولیس آفیسر ، ادب و صحافت اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ دیکھ کر خوش ہوجاتے ہیں اور فخریہ اپنی خوشی کا یوں اظہار کرتے ہیں کہ’’ میرے بچوں ڈٹ کر محنت کرو اور زندگی بھر ثابت قدم رہیں اور ایمانداری کا دامن مضبوطی سے تھام کر رکھیں۔‘‘

میرے خیال میں علم کی قدر اُسی وقت ممکن ہے جب استاد کو معاشرے میں عزت کا مقام دیا جائے، جو طالبعلم استاد کا ادب و احترام کرنا جانتے ہیں اور ان کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے استاد کا کہنا مانتے ہیں وہ ہمیشہ کامیاب و کامران ہوتے ہیں اور دنیا میں بھی عزت و مقام حاصل کرتے ہیں جو انھوں نے اپنے استادوں کو دی۔

اسی لیے کسی سیانے نے کیا خوب کہا ہے ’’با ادب با مراد، بے ادب بد نصیب۔‘‘سعید مرزا جہاں بچوں کی تعلیم و تربیت فریضہ ادا کر رہے ہیں وہیں وہ بچوں کو خوشی خطی، کرکٹ اور پودوں کی آبیاری کے متعلق بھی آگاہی فراہم کرتے ہیں، وہ خود بھی کسی زمانے میں کرکٹ کھیلتے رہے انھوں نے سٹی آئی اسکول سیالکوٹ کی طرف سے ڈسٹرکٹ کرکٹ ٹورنامنٹ ۱۹۸۷ء میں جیتا۔ اسی زمانے میں اُن کی بہت سے قومی کرکٹرز کی ساتھ قریبی ملاقاتیں بھی رہی۔ اُن کے پسندیدہ کرکٹرز میں جاوید میانداد اور عمران خان شامل ہیں۔

وہ گوجرانوالہ ایجوکیشن فورم کے ممبر ایگزیکٹو کونسل بھی رہے جس کے سرپرست گوجرانوالہ کے ممتاز شاعر پروفیسر اکرم رضا تھے۔ سعید مرزا آج کل تعلیمی ادارے کی سرگرمیوں کی ساتھ ساتھ بچوں اور بڑوں کو پودوں کی پرورش کے حوالے سے موٹی ویٹ کر رہے ہیں۔ مرزا صاحب لوہے اور کھیتی باڑی کے ہنر سے خوب واقف ہیں۔ اسی لیے وہ لوہے کو تپا کر کندن بنانا، پتھر کو تراش کر ہیرا بنانا اور بنجر زمین کو سینچ کر کھلیان بنانا خوب جانتے ہیں۔

میری کامیابی کی پہلی سیڑھی یہی وہ تعلیمی ادارہ ہے جہاں سے میں فیض یاب ہُوا۔ خوشخطی، کرکٹ اور بہترین زندگی کے آداب یہی سے سیکھنے کو ملے۔ سعید مرزا میرے اسکول ٹیچر ہیں۔ مجھے ان کی مار ، ڈانٹ اور محبت نے ایک کامیاب زندگی سے آشنا کیا۔ میں جب بھی کسی دوسری جگہ تعلیم کے سلسلے میں جاتا تو کچھ دنوں تک پھر واپس یہیں آ جاتا جس پر میری والدہ محترمہ کہتی ’’باجی شازیہ اس نے آپ کے سوا کسی سے نہیں پڑھنا‘‘ جس پر میری ٹیچر مجھے پھر پڑھنے کے لیے آمادہ ہو جاتی۔ کیونکہ میرے والدین نے مجھے زمین پر اتارا اور استاد نے آسمان کی بلندی تک پہنچا دیا ۔ الطاف حسین حالی کی منظر کشی دیکھے کہ:

ماں باپ اور استاد سب ہیں خدا کی رحمت

ہے روک ٹوک ان کی حق میں تمہارے نعمت

یہ ایک نا قابلِ فراموش حقیقت ہے کہ دنیا کا کوئی بھی نظام علم کے بغیر نا مکمل ہے، کوئی بھی قوم علم کے بغیر وقار حاصل نہیں کر سکتی، علم ایک ایسی روشنی ہے جو جہالت کے اندھیروں کو مٹا دیتی ہے۔ اچھی تعلیم و تربیت ہی میں ملک و ملت کی ترقی و خوشحالی منحصر ہے۔

علم ہی وہ چراغ ہے جس کی مدہم سے مدہم لو کو بھی دنیا اُسے بجھا نہیں سکتی۔ایک زمانہ تھا جب طالبِ علم حصولِ علم کی تلاش میں میلوں کی مسافت طے کر کے اسکول پہنچتے اور سبق نہ یاد کرنے پر استاد کی مار اور ڈانٹ بھگتتے اور سزا جھیلتے تب کہیں جا کر نگینہ بنتے مگر اس دور کے طالبِ علم با ادب اور با تمیز ہوتے تھے۔ استاد کے قدموں میں بیٹھنا ، استاد کی باتوں کو خاموشی سے سننا، استاد کے سامنے چوں تک نہ کرنا ، باتکرنے سے بھی ڈرتے ، یہاں تک کے دور سے دیکھ ہی اُن کے احترام میں کھڑے ہو جاتے۔ مگر اب وقت کے ساتھ سب کچھ بدل گیا ہے ہماری سوچیں اور ہمارے رویے بھی۔ بہرحال میرے نزدیک جب تک اساتذہ کرام کا احترام ہوتا ہے تب تک معاشرہ ترقی پاتا ہے ، جب اساتذہ کرام کا احترام اور تقدس ختم ہو جاتا ہے معاشرہ زوال پذیر ہو جاتا ہے۔

دنیا بھر میں پانچ اکتوبر کے دن کو ’’استاد ڈے‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس دن کی مناسبت سے جتنا بھی لکھا جائے کم ہیں ، مگر اتنا ضرور کہوں گا کہ اپنے اساتذہ کا دل سے ادب و احترام کریں اور اُن کی بارگاہ میں محبت و خلوص کے گلدستے پیش کریں۔کیونکہ ہماری درسگاہ میں جو یہ استاد ہوتے ہیں، حقیقت میں یہی قوم کی بنیاد ہوتے ہیں۔ اپنے اسکول ٹیچر کے متعلق یادوں پر مشتمل پہلا حصہ پیشِ خدمت ہے جب کہ ادب اور صحافت سے وابستہ جن اساتذہ سے فیض یاب ہو رہا ہوں ، اُن کاذکر آیندہ کسی اور کالم میں کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔آخر میں سید سروش آصف کا خوبصورت خیال ملاحظہ کیجیے:

میرے اُستاد نے اکثر یہ کہا ہے مجھ سے

وقت جیسا کوئی استاد نہیں ہو سکتا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔