ذہنی دباؤ ہماری صحت پر کیسے اثرانداز ہوتا ہے؟

عائشہ شفیق  جمعرات 6 اکتوبر 2022
 ذہنی اور جذباتی دباؤ کے مریضوں کو ہفتے میں ایک ، دو دن مکمل آرام کرنا چاہیے ۔ فوٹو : فائل

 ذہنی اور جذباتی دباؤ کے مریضوں کو ہفتے میں ایک ، دو دن مکمل آرام کرنا چاہیے ۔ فوٹو : فائل

سیانے کہتے ہیں کہ ذہنی دباؤ آپ کے باس ، آپ کے بچوں ، رفیق حیات ، ٹریفک جام ، صحت کے مسائل اور دیگر حالات کی وجہ سے نہیں آتا ، بلکہ حالات کے بارے میں آپ کے خیالات کے سبب پیدا ہوتا ہے۔

شعبہ طب کی عظیم شخصیت ڈاکٹر ہنیس سیلے جنہوں نے دباؤ کے موضوع پر بے پناہ تحقیقی کام کیاہے ۔ انہوں نے ’ دباؤ‘ کی تعریف یوں کی ہے:

’’ دباؤ‘‘ ایک مخصوص مجموعہ علامت ہے جوکسی حیاتیاتی نظام میں غیر مخصوص تبدیلیوں کا مظہر ہوتا ہے۔ اس اصطلاح کا مطلب ایسی حالت کا پیدا ہونا ہے۔۔۔ جو جسم کوضرر پہنچاتی ہے۔۔۔یاچند خلیات کو موت کے حوالے کردیتی ہے۔ نظا م جسمانی ان نقصان رسیدہ خلیات کی فوری مرمت کرنے کی کوشش شروع کردیتا ہے لیکن یہ کوشش اسی صورت میں کامیاب ہوسکتی ہے جب غذا مناسب ہو ۔ اگر ان خلیات کی تعمیر نو کی رفتار ان کے تباہ ہونے کی رفتار سے کم ہو، تو بیماری لازمی پیداہوتی ہے۔

خلیات کی تباہی کی نتیجے میں جنم لینے والی بیماریوں میں عارضہ قلب ، ذیابیطس ، دردِ سر اور معدے کا السرخاص کر قابل ذکر ہیں۔ اس سے قولون کا زخم ، بدہضمی، دمہ ، خارش جیسے عوارض بھی لاحق ہوسکتے ہیں۔ دباؤ پیداہونے سے متعدد قسم کے ردِ عمل رونما ہوسکتے ہیں۔کوئی ’ دباؤ ‘ کسی خاص شخص میں جو ردِ عمل پیدا کرتا ہے ضروری نہیں کہ کسی دوسرے شخص میں ویسا ہی ردِ عمل پیدا ہو۔

جو عوامل عام طور پر’ دباؤ‘ کا باعث بنتے ہیں، ان میں والدین کیلئے اولاد کے مسائل، افسر کا تحکمانہ انداز یا ماتحتوں میں حکم عدولی کارجحان، آسائش زندگی کاحاصل ہونا یا اس سے محروم ہونا ، دولت زیادہ ہوجانا۔۔۔۔یا بالکل نہ ہونا ، فیصلہ کرنے میں مشکلات ، ملازمت کا نہ ہونا یا مستقبل کے تفکرات اوراندیشہ ہائے دوردراز،خاندانی مسائل اور ازدواجی زندگی سمیت ہروہ چیز شامل ہے جس سے کسی بھی انسان کو واسطہ پڑ سکتا ہے۔ ان چیزوں کے بارے میں زیادہ غورو فکر کرنے سے ذہن اوراعصاب پر’’دباؤ‘‘ پڑنے لگتا ہے جوآہستہ آہستہ نفسیاتی، جسمانی امراض میں بدلنے لگتا ہے۔

ذہنی دباؤ ، علامات

جب بھی جسم پر کوئی ’’دباؤ‘‘ پڑتا  ہے تودل ودماغ اس پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ جسم میں کئی تبدیلیاں آتی ہیں۔ دماغ اوراعصابی نظام کمزور ہوجاتے ہیں۔ آنکھ کی پتلیاں کشادہ ہوجاتی ہیں ، ہاضمے کاعمل سست پڑجاتا ہے، عضلات تن جاتے ہیں ،دل کی دھڑکنیں تیز ہو جاتی ہیں ، بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے، سانس تیز آنے لگتی ہے، اورپسینہ بہنا شروع ہوجاتا ہے۔

یہ تمام تبدیلیاں اعصابی نظام کی ہدایت پر ایک سکینڈ سے بھی مختصر لمحے میں رونما ہوسکتی ہیں۔ اگر’ دباؤ ‘ کاسبب بننے والے عوامل فوری طور پر غائب ہوجائیں توکوئی نقصان واقع نہیں ہوتا۔ اورتمام تبدیلیاں فوراً اپنے معمول پر واپس چلی جاتی ہیں لیکن’ دباؤ‘ برقرار رہے توبتدریج انسانی صحت پر اس کے برے اثرات پڑنے لگتے ہیں۔ ’دباؤ‘ اپنے ابتدائی مرحلے میں ہو تو اس سے نیند میں خلل واقع ہوجاتا ہے۔

مزاج برہم رہتا ہے، آدمی مسلسل بڑبڑاتا ہے، کام میں زیادہ دیر تک مصروف رہنے کے باوجود متوقع کامیابی نہیں ملتی ، بیوی بچوں سے جھگڑے ہونے لگتے ہیں، ہلکے بخار کی سی کیفیت طاری رہتی ہے، غائب دماغی کی حالت طاری ہوجاتی ہے ، ہاتھوں کی حرکت میں بے اختیاری کا احساس ہونے لگتا ہے جس کی وجہ سے کسی بھی لمحے حادثہ پیش آنے کاخدشہ پیدا ہوجاتا ہے۔

ماحول پر ناامیدی طاری ہوجاتی ہے، ساتھیوں کی جانب سے زیادتی کااحساس ہونے لگتا ہے ۔ ایسا آدمی یا تو زندگی کے خاتمے کی جانب مائل ہونے لگتا ہے۔۔۔ یا جذباتی فرار کیلئے نشے کی راہ پر چلنے لگتا ہے۔ اگر’’دباؤ‘‘ مسلسل برقرار رہے تو علامات مزید شدت اختیار کرجاتی ہیں، سرچکرانے لگتا ہے ، درد سر بڑھ جاتا ہے ، بینائی میں کمزور ی آجاتی ہے، سانس لینے میں دشواری پیدا ہوجاتی ہے، بدہضمی لاحق ہوجاتی ہے۔

دل بری طرح دھڑکنے لگ جاتا ہے، بلڈ پریشر بے ترتیب ہوجاتا ہے،کمر میں درد ہونے لگتا ہے، جلد جلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ اگر کوئی شخص ایسے جذباتی دباؤ کاشکار ہو جس کی علامات دوسرے کو واضح نظر آنے لگیں تو پھر ضروری ہے کہ مریض یا اس کے خیرخواہ ان علامات کو پہچان کر اس پر قابو پانے کیلئے مناسب اقدامات کریں۔ مثلاً کسی نفسیاتی معالج سے رجوع کریں ۔ اور صورتحال تشویش ناک ہو تو طبی معالج سے بھی رابطہ کرنا چاہیے۔

ذہنی دباؤ کے اسباب

’ دباؤ ‘ کے بہت سے اسباب و اعوامل ہوتے ہیں جن میں کچھ خارجی اورکچھ داخلی ہوتے ہیں ۔ خارجی عوامل میں شوروغل، اور بے ہنگم آوازیں ، چندھیا دینے والی روشنیا ں، شدید گرمی اورشدید سردی ، ایکس ریز اوردیگر تابکاری اثرات ، دواؤں اورکیمیکلز کے اثرات اور ناکافی غذائیں شامل ہوتی ہیں جبکہ نفرت ، رشک ، حسد اور خوف داخلی عوامل ہوتے ہیں۔ جو’ ذہنی دباؤ‘ اور’ جذباتی دباؤ‘ بڑھانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔

ذہنی دباؤ کا علاج

’’دباؤ‘‘ کے علاج کیلئے مریض کے طرز زندگی اورمعمولات ِ زندگی کو مکمل تبدیل کرنا پڑتا ہے،اسے ایسی خوراک استعمال کرنی چاہئے جو’ دباؤ‘ کے غذائی مطالبات کو پورا کرسکتی ہو۔ جس غذا میں بیج ، خشک میوؤں کی گریاں ، اناج ، پھل اورسبزیاں شامل ہوں۔ یہ سب خوراک کی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ جسمانی قوت بڑھانے میں بھی خاصی مددگار ثابت ہوتی ہیں۔

لہذاماہرین خوراک تجویزکرتے ہیں کہ دن کے تین وقت کے کھانوں میں ان میں سے ایک ، دو چیزیں لازماً شامل ہونی چاہئیں۔ اس کے علاوہ دودھ ، دہی ، پنیر اور شہد بھی استعمال کرنا چاہیے۔ وٹامن اے اور بی معدنی کیلشم ، پوٹاشیم دباؤ اوربے چینی پر قابو پانے کیلئے بے حد مفید ہیں۔

اگر ان اجزاء کو خوراک کے ذ ریعے حاصل کیا جائے تو یہ زیادہ فائدہ مند ہوتے ہیں۔ وٹامن اے سبز اور زرد مائل سبزپتوں والی سبزیوں میں موجود ہوتی ہے۔ سانس پھولنا ، تھکاوٹ ، بے خوابی اورلو بلڈ شوگر جسم میں پوٹاشیم کی کمی کی علامات ہیں جسے دور کرنے کیلئے ان بیماریوں پر قابو پایا جاسکتا ہے ۔ پوٹاشیم دل کے عضلات کی صحت کیلئے بھی ضروری ہے۔بادام، اخروٹ اورغیر مصفا اناج پوٹاشیم کے اچھے نتائج ہیں۔

کیلیشم بھی طاقت بخش منرل ہے، جو اعصاب کوسکون دیتی ہے۔ جسم میں اس کی کمی ہو تو تھکاوٹ ،گھبراہٹ اوراعصاب میں کھچاؤ طاری رہتا ہے اس کیلئے انڈے ، بادام اورسویابین مفید ہیں ۔ میگنیشیم بھی قدرت کی عطا کردہ سکون بخش منرل ہے اور ہارٹ اٹیک کو روکتی ہے۔ جسم میں میگنیشیم کی کمی ہو تو اشتعال ، برہمی اورخوف کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ یہ فروٹس اورسبزیوں، بیجوں، کھجور اورآلو بخارے میں پائی جاتی ہے۔

دباؤ اور بے چینی کے مریضوں کو کافی ، سوفٹ ڈرنکس ،سگریٹ اوردیگر نشہ آور چیزوں سے دور ہی رہنا چاہئے۔ معمولات زندگی میں تبدیلی لاکر باقاعدہ ورزش کرنی چاہئے۔ یاد رہے کہ ورزش سے ذہن ہشاش بشاش رہتاہے۔ ذہنی اور جذباتی دباؤ کے مریضوں کو سیر وتفریح اور آرام کیلئے مناسب پروگرام ترتیب دینے چاہئیں۔ ا نہیں ہفتے میں ایک ، دو دن مکمل آرام کرنے کے علاوہ خوش وخرم رہنے کے اسباب پیدا کرنے چاہئیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔