سارہ۔۔۔ ! تم واقعی پاگل تھیں

رئیس فاطمہ  جمعـء 7 اکتوبر 2022
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

یہ کیا ہو رہا ہے؟ معاشرہ کس طرف جا رہا ہے۔ نئی نسل نشے کی عادی ہو رہی ہے، آپ کسی بھی یونیورسٹی یا کالج میں چلے جائیے، کہیں نہ کہیں آپ کو طلبا نشہ کرتے نظر آئیں گے۔ نجانے کون کون سے نشے ملنے لگے ہیں۔ ہیروئن کا، چرس کا، بھنگ کا، شیشے کا یا آئس کا۔ سنا ہے کہ آئس کا نشہ بہت خراب ہوتا ہے، اس کا نشہ کرنے والے تشدد کرکے تسکین حاصل کرتے ہیں۔

ایک بار اسلام آباد خبروں کی سرخیوں میں آگیا۔ یہ شہر اقتدار پہلے بھی خبروں کی سرخیوں میں پہلے نمبر پر تھا۔ اور آج بھی کس قدر ہولناک واقعہ کہ رونگٹے کھڑے ہوجائیں۔ معروف صحافی ایاز امیر کے بیٹے شاہنواز نے جس طرح اپنی تیسری اہلیہ کو قتل کیا۔تمام تر تفصیلات سامنے آ رہی ہیں۔ ملزم گرفتار ہے۔یہ کیس بھی بالکل نور مقدم والے کیس سے ملتا جلتا ہے۔

بس فرق یہ ہے کہ نور مقدم کیس میں ظاہر جعفر اور نور مقدم دونوں اچھے دوست تھے۔ اس نے بھی جان بوجھ کر قتل کیا تھا اور وہ بھی نہایت بھیانک انداز میں۔

افسوس ہوتا ہے کہ پاکستان میں امیر زادوں کے لیے کوئی قانون نہیں۔ قتل کریں، ڈکیتیاں ڈالیں یا لڑکیوں کو اغوا کرکے والدین سے پیسے بٹوریں۔ قانون ان کے لیے محض ایک ٹشو پیپر کے سوا کچھ نہیں۔ تگڑے وکیل کیے جاتے ہیں جو کیس کو اتنا لمبا لٹکا دیتے ہیں کہ لوگ بھول جاتے ہیں، اور پھر مرضی کا فیصلہ سامنے آ جاتا ہے۔ یہاں ہر دولت مند انصاف خرید سکتا ہے۔ کیسے خرید سکتا ہے یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں رہی۔

ذرا غور کیجیے تو دعا زہرہ اور سارہ انعام کا کیس اس لحاظ سے ملتا جلتا ہے کہ دونوں کیسوں میں رابطہ سوشل میڈیا کے ذریعے ہوا۔ یہ صرف دو کیس نہیں ہیں بلکہ میرے علم میں تین اور بھی کیس ہیں۔ میرے جاننے والوں میں۔ ایک میں لڑکے کا رابطہ امریکا میں کسی لڑکی سے ہوا۔ دونوں شادی کے لیے رضامند، لڑکے کی والدہ اس رشتے کی مخالف تھیں، باپ بھی امریکا کی کسی ریاست میں تھے۔

ایک دن لڑکی پاکستان آگئی۔ پتا چلا کہ وہ ریستوران میں ویٹریس تھی۔ جب لڑکی آ ہی گئی تھی تو ماں نے دھوم دھام سے ولیمہ کیا۔ لیکن وہ لڑکی ایک سال بھی نہ ٹکی اور طلاق لے کر واپس چلی گئی۔ ایک اور جاننے والوں میں لڑکی کا رابطہ کسی لڑکے سے سوشل میڈیا پر ہوا۔ بات شادی تک جا پہنچی۔ لڑکی کے والدین تو تیار تھے کہ آج کل اچھے رشتے ملنا محال ہے کہ لڑکی اور لڑکی کے والدین بہت امیر کبیر گھرانے میں رشتہ چاہتے ہیں جب کہ لڑکے کے والدین تیار نہیں تھے۔

وہ جیسی بہو چاہتے تھے لڑکی ویسی نہیں تھی۔ نہ کھانا پکانا آتا تھا نہ کوئی اور کام۔ بس دن دن بھر موبائل اور وہ۔ بہرحال جب لڑکے نے حد سے زیادہ دباؤ ڈالا تو والدین بادل نخواستہ تیار ہوگئے۔ اب پہلے ہی دن سے رشتوں میں دراڑ پڑنی شروع ہوگئی۔ شادی کا جوڑا مہنگا نہیں ہے۔ بری میں سونے کا ایک بھی سیٹ نہیں چڑھایا وغیرہ وغیرہ۔ شادی کے بعد بھی لڑکی کے طور طریقے وہی رہے، یعنی دن بھر موبائل ہاتھ میں۔ شام کو شوہر گھر آئے تو بیگم کی فرمائشیں کہ شاپنگ کے لیے لے کر چلو، باہر کھانا کھلاؤ وغیرہ وغیرہ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایک سال کے اندر اندر لڑکی طلاق لے کر چلی گئی۔

میں یہ ضرور کہوں گی کہ شاہنواز کو والدین کے لاڈ پیار نے بگاڑا، جب وہ مختلف نشے کرتا تھا، کام کچھ نہیں کرتا تھا۔ تو یہ ساری سرگرمیاں والدین کے علم میں یقینا ہوں گی۔ اس نے اپنے اکلوتا ہونے اور ماں باپ کی ڈھیل اور لاڈ پیار کا فائدہ اٹھایا۔ اس کے نشوں کے لیے پیسے کون دیتا تھا؟ والدین کو نوٹس لینا چاہیے تھا۔ پھر دو دو شادیاں کیں۔ وہ ٹوٹ گئیں، اس پر بھی غور کیا جانا چاہیے تھا ۔

یہ بات طے ہے کہ لڑکیوں سے زیادہ لڑکوں کی پرورش مشکل ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ باہر جاتے ہیں۔ طرح طرح کے لوگوں میں اٹھتے بیٹھتے ہیں۔ صحبت کے اثر والی بات سو فیصد سچ ہے۔ کسی غنڈے بدمعاش موالی کے ساتھ بیٹھے تو اس کی عادتیں اپنالیں۔ نشہ بھی کرنے لگے اور قتل بھی۔ زمیندار اور جاگیردار گھرانوں میں لڑکوں کو کھلی چھوٹ دے دی جاتی ہے وہ جو چاہیں کریں۔

وہ کسی کے سامنے جواب دہ نہیں ہوتے۔ پتا نہیں لڑکیاں کب تک محبت کے جال میں پھنس کر اپنا تن من دھن خبیث مردوں پر لٹاتی رہیں گی۔ سارہ واقعی بے وقوف تھی کہ سب کچھ جاننے کے باوجود یہ خوش فہمی رکھتی تھی کہ وہ شاہنواز کی بری عادتیں چھڑوا دے گی۔ بھلا 37 سال کی عمر میں بھی کوئی اپنی وراثت میں ملی ہوئی عادتیں بدلتا ہے۔ سارہ تم تو پاگل بھی تھیں اور معصوم بھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔