سارے رنگ

رضوان طاہر مبین  اتوار 9 اکتوبر 2022
’’حیات جرم نہ ہو، زندگی وبال نہ ہو۔۔۔!‘‘ فوٹو : فائل

’’حیات جرم نہ ہو، زندگی وبال نہ ہو۔۔۔!‘‘ فوٹو : فائل

’’حیات جرم نہ ہو، زندگی وبال نہ ہو۔۔۔!‘‘

’’میرا بھائی سوا چھے سال سے لاپتا ہے۔۔۔!

والدہ انتظار میں اللہ کو پیاری ہوگئیں۔ ان کی پرسوں دوسری برسی گزری ہے، والد رات کو اٹھ کر روتے ہیں تو دل چاہتا ہے ساری دنیا کو آگ لگا دوں۔۔۔!‘‘

ایک سائل کی رقت آمیز صدا پر بھرے ہوئے ’عدالتی کمرے‘ میں سناٹا چھا گیا۔

عدالت کی جانب سے پوچھا گیا کہ کس نے اٹھایا ہے؟ تو ساتھ موجود دوسرا بھائی بولا کہ ’’آپ کو بھی پتا ہے کون ہے، میں نام لوں گا، تو ابھی جاتے ہوئے مجھے مار دیں گے، ساتھ ثاقب کو بھی اٹھایا تھا، وہ آگیا، وہ جانتا ہے کہ کس نے اٹھایا ہے، سفید موبائل تھی۔ اس کی دو سال کی بیٹی آج آٹھ سال کی ہوگئی، وہ پوچھتی ہے، تو ہم اسے جواب نہیں دے سکتے کہ بابا کہاں ہیں!

جج نے پوچھا آپ کا وکیل؟ تو وہ کہنے لگے کہ ہماری اتنی حیثیت نہیں ہے کہ وکیل کے پیسے دیں۔۔۔!!

جج نے متعلقہ افراد کو احکامات جاری کیے، ایسے ہی ایک اور مقدمے کی سنوائی میں تین خواتین سامنے آئیں، جس میں سے ایک لاپتا شہری کی بوڑھی والدہ تھیں، جو بیٹے کی بازیابی کے لیے جج کے سامنے ہاتھ جوڑ رہی تھیں کہ میرا بیٹا بازیاب کرا دو۔۔۔ چھے سال پہلے گھر سے رینجرز نے اٹھایا تھا۔‘‘ اس موقع پر پولیس نے بتایا کہ اُس کے اوپر قتل کے کیس ہیں، جس پر جج نے ماں سے کہا کہ اس پر تو قتل کے کیس ہیں۔ ماں نے کہا وہ جھوٹے ہیں۔ جج نے کہا کہ وہ تو ہر ماں کو ایسا ہی لگتا ہے۔ بہن بولی کہ ’’کسی کو ایسے لاپتا کردینا بھی تو غلط ہے ناں۔۔۔!‘‘

سندھ ہائی کورٹ میں 25 اگست 2021ء کو ایسے ہی کچھ مقدمات زیرِسماعت تھے، جو 13 اور 14 ستمبر 2022ء کو کراچی کی تین لاپتا سیاسی کارکنوں عرفان بصارت، عابد عباسی اور سہیل حسن سمیت چار افراد کی لاشیں برآمد ہونے پر ہمیں یاد آگئے۔ ایسے ہی ایک کیس شاہ لطیف تھانے سے متعلق تھا، جس میں خواتین گود کے بچوں کے ساتھ پیش ہوئیں، بتایا گیا کہ لاپتا شخص رکشا چلاتا ہے۔

عدالتی کارروائی کے دوران ’وقفہ‘ ہوا تو دیکھا دو ’سائل‘ خواتین کونے میں دبکی ہوئی بیٹھی تھیںِ عمر شاید کوئی 25 کے قریب قریب ہوگی، ایک لگ بھت چالیس سالہ شخص نے انھیں پانی اور جوس وغیرہ لا کر دیا اور ایک سفید بالوں والے صاحب پریشانی سے ’کورٹ روم‘ میں اندر باہر ہو رہے تھے۔

دیکھنے میں یہ بالکل الگ سے، سلجھے ہوئے، باوقار اور خاندانی معلوم ہو رہے تھے۔ تھوڑی دیر بعد وہ وہ چالیس سالہ ’سائل‘ اتفاق سے ہماری نشست پر اگلے کونے پر آ بیٹھا، تو ہم سوچتے سوچتے اور محتاط رہتے ہوئے اس کے قریب گئے اور لگے پوچھنے کہ آپ کا کون سا نمبر ہے، اور کیا کیس ہے وغیرہ۔ جواباً وہ کچھ جھجھکا اور الٹا ہم سے پوچھا، تو ہم نے بتایا کہ ہمارا ایسا کیس نہیں، بلکہ ایک دوسرا معاملہ ہے۔

وہ الٹا ہم سے اس سے متعلق گفتگو کرنے لگا، ہم نے دوبارہ گفتگو کا رخ اس کی طرف موڑتے ہوئے پوچھا، تو بقول اس کے کہ اس کے بہنوئی گذشتہ پانچ روز سے لاپتا ہیں۔ ہم نے پوچھا کیا معاملہ ہے کوئی سیاسی وابستگی وغیرہ۔۔۔؟ تو اس نے انکار کیا، پھر بولا اگر ہوگی، تو ہمیں نہیں پتا۔ ہم نے ایک مرتبہ بات گھما کر دوبارہ اسی سوال کی تکرار کی تو بولا آپ کو تو پتا ہی ہیں شہر کے حالات وغیرہ۔

یہ شخص شریف آباد (فیڈرل بی ایریا) کا رہایشی تھا، بی کام کیا ہوا، بتانے لگا کہ کبھی اکاؤنٹس کی شکل نہیں دیکھی، یہاں پڑھائی کچھ کرو نوکری وہ نہیں ملتی۔ اب وہ بجلی کا کام کرتا ہے، ساری رات کام کر کے صبح تلک سوتا ہے، آج پہلی بار عدالت بھی دیکھ لی ہے۔۔۔! پھر وغیرہ وغیرہ گفتگو، اپنی ایک بہت پرانی نوکری کی باتیں کہ جہاں اسے 300 روپے روز ملتے تھے وغیرہ وغیرہ۔

اِس شخص کی ہم سے احتیاط کا یہ عالم تھا کہ اس نے ہمیں اپنا نام تک نہ بتایا، ہم نے ایک آدھ بار اصرار کیا تو اس نے ہنستے ہوئے ہمیں غور سے دیکھا اور الٹا ہم سے نام وغیرہ پوچھا اور باقاعدہ بہت مشکوک سمجھتے ہوئے کہنے لگا کہ ’’ہو تو شرافت والے۔۔۔!‘‘ پھر معنی خیز انداز میں جھینپنے لگا اور خاموش ہوگیا۔ ہم نے کہا آپ غلط سمجھ رہے ہیں، بہرحال آپ کی مرضی ہے بتانا چاہیں، تو بتا دیجیے، نہیں تو دس، بیس منٹ میں کون کس پر بھروسا کرتا ہے، کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ گفتگو میں جب گھما پھرا کر کچھ مزید جاننا چاہا، تو وہ گہری مسکراہٹ کے ساتھ بولا ’’کھیلنے میں کچے ہو ابھی۔۔۔!‘‘

بہرحال اس دوران عدالتی وقفہ ختم ہوا اور پھر لاپتا افراد کے سلسلہ وار مقدموں کی شنوائی جیسے ہی ختم ہوئی وہ اچانک اٹھ کر باہر ہولیا اور اس کے ساتھ کے دیگر افراد بھی۔ پھر عدالت سے باہر دکھائی دیے۔ پتا نہیں اس کا کیس لگا یا نہیں یا پھر آخری والا کیس اسی کا تھا، جس میں پولیس کہہ رہی تھی کہ مذکورہ شخص کی دوسری شادی ہے ، تو اس کا ’روپوش ہونا‘ دراصل اسی شادی کا چکر ہے۔ جس پر جج نے کہا کہ کتنوں نے شادی کی ہے، مگر وہ تو لاپتا نہیں ہوئے!

شاید اس نے مجھ سے چھپایا ہو کہ اس کا متعلقہ فرد جو کہ اس نے اپنا بہنوئی بتایا، وہ جمعے سے نہیں، بلکہ زیادہ عرصے سے لاپتا ہو یا جانے کیا بات ہو۔ بہرحال اس نے ہمیں مشکوک سمجھا اور پھر وہاں سے چلا گیا۔

31مئی 2022ء کو شایع ہونے والی خبر کے مطابق وفاقی وزیرِقانون اعظم تارڑ کی سربراہی میں لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے ایک سات رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے۔ جس میں وزیرداخلہ رانا ثنا اللہ، وزیرمواصلات اسعد محمود،وزیر دفاعی پیداوار اسرار ترین، وزیر بحری امور فیصل سبزواری، وزیرسائنس اینڈ ٹیکنالوجی آغا حسن بلوچ اور شازیہ مری شامل ہیں، یہ کمیٹی انسانی حقوق کی تنظیموں کے نمائندوں اور جیورسٹ کو شامل کرسکے گی، کمیٹی کابینہ کو رپورٹ پیش کرے گی، وزارت داخلہ اس کمیٹی کو سیکرٹریٹ مہیا کرے گا۔

ہماری دعا ہے کہ وطنِ عزیز میں دائمی امن وامان اور مساوات اور انصاف قائم ہو اور کبھی کوئی کسی کا بیٹا، بھائی، باپ یا شوہر لاپتا ہو اور نہ کسی بھی طرح ماورائے عدالت جان سے جائے، بقول احمد ندیم قاسمی کے کہ ؎

خدا کرے کہ مرے اک بھی ہم وطن کے لیے

حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو۔۔۔!

۔۔۔

قابلیت نہیں,گریڈز چاہئیں
کلثوم مہر، کراچی

ہم اکثر اپنے بزرگوں اور اساتذہ سے سنتے ہیں کہ ’’ڈگری تو مل ہی جاتی ہے، علم اور قابلیت کا ہونا ضروری ہے‘‘ لیکن وہ ہمیں یہ بتانا بھول جاتے ہیں کہ یہ تو اب خوابوں خیالوں کی باتیں ہیں، حقیقی زندگی میں تو ہمارے گریڈ ہی کو اہمیت دی جاتی ہے۔

مجھے اکثر ان بچوں کو دیکھ کر پریشانی ہوتی تھی، جو امتحانات میں بہترین نمبر اور اچھی پوزیشن لانے کے لیے دن رات رٹا لگاتے تھے اور ان کے والدین سے شکوہ تھا اس طرح کے طریقۂ تعلیم کو استعمال کرکے وہ اپنے نونہالوں کی نفسیات پر برے اثرات مرتب کر رہے ہیں۔

اور ان نوجوانوں کو دیکھ کر بھی حیرانی ہوتی جو امتحانات میں نمبر حاصل کرنے کے لیے ہر طرح کا حربہ استعمال کر لیتے ہیں، لیکن مشاہدے اور حالیہ تجربے نے یہ ثابت کیا کہ ان بچوں اور نوجوانوں کا کوئی قصور نہیں، بلکہ یہ تو ہمارے دقیانوسی تعلیمی نظام کے ہاتھوں بے بس اور لاچار ہیں۔ یہ وہ نظام ہے جہاں ہمارے معیار کو ہمارے علم اور قابلیت سے نہیں، بلکہ ہماری اسناد میں شامل ہونے والے نمبروں سے پرکھا جاتا ہے۔

ہم واقعی ایک اصول پسند قوم ہیں، چاہے اصول بغیر کسی منطق کے بنائے گئے ہوں، ہمیں ان اصولوں کی پاس داری ہر صورت کرنی ہے تبدیلی لانے کے لیے ہمیں تگ و دو کرنے پڑے گی اور ہماری سہل پسند طبیعت کو یہ گوارا نہیں ہے۔

ہمارے تعلیمی اداروں میں انھی افراد کو جگہ دی جا سکتی ہے، جن کی اسناد ان کے غیر منطقی اور فرسودہ اصولوں پر پوری اترتی ہو، چاہے اس من پسند اسناد کو حاصل کرنے کے لیے کوئی بھی ناجائز ذرایع استعمال کیے گئے ہوں۔ ایسے اساتذہ ہمیں دل و جان سے عزیز ہیں، جن کے مزاج میں تکبّر اور آمریت ہو، جو نرگسیت اور احساس برتری میں مبتلا ہوں، اپنے طلبہ کو اپنی رعایا کا درجہ دیتے ہوں، لیکن ان افراد کا داخلہ ممنوع ہے، جو تدریس جیسے مقدس اور بلند پیشے سے مخلص ہوں، جن کی اسناد تو مرتب کردہ اصولوں کے مطابق نہ ہو، لیکن ان کی علمیت، قابلیت اور ایمان داری پر کسی شک و شبے کی گنجائش نہ ہو۔

جامعات کی سطح پر اکثر جو اسکینڈلز سامنے آتے ہیں ان کے پس پردہ نوے فی صد اسی طرح (نمبرز کے حصول کے لیے) کے معاملات کار فرما ہوتے ہیں، اپنا مستقبل مضبوط اور روشن بنانے کے لیے اسناد میں جو اعلیٰ درجے کے گریڈ کی ضرورت ہوتی ہے، اس کو حاصل کرنے کے لیے اکثر طلبہ کسی حد تک بھی جانے کو تیار رہتے ہیں۔

کچھ طلبہ اگر یہ راستہ اختیار نہ کرسکیں تو وہ اپنی جان لینے کے در پر ہوجاتے ہیں آئے دن کے ان واقعات کی خبریں بھی سننے کو ملتی ہیں۔ کچھ طلبہ شدید ڈپریشن کا شکار ہوکر کئی نفسیاتی امراض میں مبتلا ہوجاتے ہیں ان تمام حالات و واقعات میں نقصان ہمارے نوجوان طبقے کا ہی ہوتا ہے۔

میری حکام بالا اور با اختیار اساتذہ کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس تکلیف دہ قانون اور فرسودہ معیارات پر نظر ثانی کریں، جہاں ترقی یافتہ ممالک طلبہ کی ذہانت اور ان کی کارکردگی کو پرکھ رہے ہیں وہیں ہم نے اب تک اپنے نوجوانوں کو نمبروں کی دوڑ میں ہلکان کر رکھا ہے اگر ہمارا نوجوان ذہنی طور پر آسودہ نہیں ہوگا تو اپنی ذہانت کو بروئے کار کیسے لائے گا۔ جب تک تعلیمی نظام کو بہتر نہیں کیا جائے گا تب تک معاشرے میں سدھار پیدا نہیں ہو سکے گا۔

میرے بچپن کے دن ۔۔۔
بدر النسا
انسان کے لیے اس کے ماضی کو بھولنا مشکل ہی نہیں ناممکن بات ہے، کبھی یہ ماضی ہی ہوتا ہے، جو انسان کو تادیر زندہ رکھتا ہے، انسان جب بچپن میں ہوتا ہے، تو اسے زندگی میں سوائے دل کشی کے اور کچھ نظر نہیں آتا، وہ سمجھتا ہے کہ یہ کھیل کود، یہ رونق یہ تماشے جو زندگی کا حسن ہیں، یہی زندگی ہے، مگر جیسے جیسے وہ اپنے بچپن کو پیچھے چھوڑ کر شعور و آگہی کی منزلیں طے کرتا ہے، اسے اپنا بچپن اتنی شدت سے یاد آنے لگتا ہے کہ وہ یہ سوچتا ہے کہ کاش وہ زمانہ واپس آجائے۔

میں بھی آج تک وہ یادیں اپنے ذہن سے نکال نہیں سکی، بلکہ انھی لمحات میں زندہ ہوں، وہ اماں کی ڈانٹ، وہ نانی کا آم کا رس نکالنا، ہم ان کے گرد گھیرا ڈالے بیٹھ جاتے کہ آم کے چھلکے اور گٹھلی کون پہلے نانی کے ہاتھ سے لپکے گا۔

بڑے مزے کی چھوٹی چھوٹی لڑائیاں ہم بہن بھائی آپس میں کرتے، والد روزگار کے سلسلے میں بیرون ملک مقیم تھے، جب ان کا خط آتا، تو میری ڈیوٹی ہوتی کہ میں وہ خط امی کو پڑھ کر سنائوں، جب امی مجھ سے والد کے لیے خط لکھواتیں تو ہم اتنی تفصیل اور شوق سے لکھتے کہ وہ خط کم اور قصہ زیادہ لگتا، وہ اب اس دنیا میں نہیں، مگر ان کا ایک خط آج بھی میرے پاس محفوظ ہے، ایسا لگتا ہے کہ وہ یہیں آس پاس موجود ہیں۔

اس کے علاوہ ہمارے محلے میں ایک ضعیف خاتون تھیں، جنھیں ہم بوا کہتے تھے ان کے ہاتھ میں ہر وقت پان دان رہتا تھا، ایک دن ہم ان کے گھر گئے، تو وہ کھانا پکا رہی تھیں ہم سے کہا کہ فلاں سامان لادو، ہم نے ان کے دیے ہوئے پیسوں سے قلفی کھالی اور کہا کہ پیسے کہیں گر گئے ہیں اب تو بوا ہم پر وہ چیخیں کہ بس۔۔۔ ایسی بہت سی حسین شرارتیں ہیں، جو آج بھی ساتھ ہیں۔

’’ہر چمکتی چیز۔۔۔‘‘
کرن صدیقی، کراچی
احمر اور آصِف کی دوستی فیس بک پر ہوئی تھی۔ شروع میں ایک دوسرے کی پوسٹ پر تبصرے، پھر گفتگو، جو فیس بک کے ذاتی چوکھٹے یعنی ’اِن باکس‘ سے ہوتی ہوئی موبائل کے ’واٹس ایپ‘ تک آن پہنچی تھی اور اب تو دونوں کی بہت گہری دوستی ہوگئی تھی۔ دونوں ہم عمر اور سیکنڈ ایئر کے طالب عِلم تھے۔ دونوں ویڈیو کال پر باتیں کرتے ایک دوسرے کو اپنا گھر، گلی محلہ دکھاتے۔ اِن کی دوستی گھر والوں کے عِلم میں بھی تھی۔ کبھی کبھار احمر کی آصِف کے بھائی ساجد سے بھی گپ شپ ہو جاتی تھی۔ احمر اور آصِف ایک دوسرے سے مِلنے کی بہت خواہش رکھتے، لیکن مِلنا اِتنا آسان نہ تھا کیوں کہ آصِف دہلی میں رہتا تھا اور احمر کراچی میں۔ آصِف کو اگر پاکستان دیکھنے کا شوق تھا تو احمر کو ہندوستان جانے کی شدید خواہش تھی۔ وہ چوں کہ ہندوستانی فِلمیں شوق سے دیکھتا تھا اور جو کچھ اس میں دکھایا جاتا وہ اس سب سے بہت متاثر تھا۔ وہ اکثر آصِف سے اس بارے میں سوالات کرتا رہتا۔ آصِف اسے سمجھاتا کہ جو کچھ فِلموں میں دِکھایا جاتا ہے وہ سب سچ نہیں ہوتا، لیکن احمر کہتا سب نہ سہی کچھ نہ کچھ تو سچ ہی ہوگا ناں ورنہ فِلموں میں کیوں دِکھایا جاتا۔ دونوں میں اِس موضوع پہ بہت گفتگو ہوتی۔ اِس مرتبہ بقرعید پہ گائے کی قربانی ہوئی تو احمر نے وڈیو کال پہ آصِف کو بھی قُربانی دِکھائی۔ آصِف نے بُہت حیرت سے پوچھا۔

’’تم لوگ گائے کی قُربانی بھی کرتے ہو؟‘‘
’’ہاں کیوں اِس میں کیا ہے؟‘‘

’’وہ اصل میں یہاں نہیں ہوتی نا تو اِس لیے۔۔۔۔‘‘آصِف کہتے کہتے رک سا گیا۔

کچھ دیر وہ اِدھر ادھر کی باتیں کرتے رہے، پھر احمر نے آصِف کو خدا حافظ کہا کیوں کہ اسے رشتہ داروں اور مِلنے والوں کے یہاں گوشت دینے جانا تھا۔ آصِف نے کہا اْسے بھی اپنے تایا کو گوشت دینے جانا ہے۔ آصِف کے یہاں بکرے کی قُربانی ہوئی تھی۔ بقرعید کے دِن مصروفیت کے ہوتے ہیں۔ چند دن تک دونوں کی بات نہ ہو پائی۔ بقرعید کے چوتھے دِن کی بات ہے۔ احمر کے موبائل کی بیل بجی۔ یہ آصِف کے بھائی ساجد کی کال تھی۔

’’احمر بھائی آصِف کا انتقال ہوگیا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ احمر سن ہو کر رہ گیا۔
’’کب،کیسے؟؟؟‘‘

’’آصِف ہمارے تایا کے یہاں گوشت لے کے جا رہا تھا۔ دورانِ سفر بس میں رش کے باعث دھکا لگنے سے اُس کی ایک شخص سے لڑائی ہوگئی۔ اس شخص نے خود کو کم زور پاکر شور مچادیا کہ آصِف کی تھیلی میں گائے کا گوشت ہے۔ بس پھر کیا تھا سب مسافروں نے مشتعل ہو کر آصِف کو جان سے مار دیا۔ پولیس نے اس واقعے کی رپورٹ درج کرنے سے اِنکار کر دیا۔ ہم نے بھی یہ معاملہ اللہ پہ چھوڑ دیا ہے۔ وہی اِنصاف کرنے والا ہے۔‘‘

ساجد تو یہ بتا کے خاموش ہوگیا، لیکن احمر صدمے کے باعث کچھ بھی نہ بول پایا۔ اْس کے کانوں میں رہ رہ کے آصف کی آواز گْونج رہی تھی۔ ’’تم فِلموں میں جو کچھ دیکھتے ہو وہ سب حقیقت نہیں۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔