ٹرانسجینڈر ایکٹ ...جسے خود ٹرانسجینڈرز قبول کرنے کو تیار نہیں

محمد فیصل سلہریا  اتوار 13 نومبر 2022
الگ شناخت چاہیے تو 2010ء کے عدالتی حکم نامہ کی روشنی میں تیسری شناخت کو قانونی حیثیت حاصل ہو چکی ہے۔ فوٹو: فائل

الگ شناخت چاہیے تو 2010ء کے عدالتی حکم نامہ کی روشنی میں تیسری شناخت کو قانونی حیثیت حاصل ہو چکی ہے۔ فوٹو: فائل

ٹرانسجینڈر ایکٹ 2018ء کے مضمرات کا جائزہ لینے سے قبل تین حقائق تسلیم کر لینا قرین انصاف ہے۔پہلا مسئلہ کی نوعیت کوئی بھی ہو اس کی نشاندہی کا بیٹرا اب سوشل میڈیا نے اٹھا لیا ہے،مذکورہ ایکٹ کا مسودہ بل 2017ء میں قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا۔

سینٹ سے منظوری اور صدر مملکت کے دستخط کے بعد یہ بل قانون (ایکٹ) کا درجہ پا کر 2018ء سے نافذ العمل ہے، جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان کے بقول 30 ہزار افراد اس قانون کے تحت خود کو رجسٹرڈ کر اچکے ہیں۔

سینیٹر مذکور اس قانون میں ترمیم کرانا چاہتے ہیں کہ جنس کا تعین کسی فرد کی صوابدید پر چھوڑنے کے بجائے منظور شدہ میڈیکل بورڈ کو تفویض کیا جائے ،ستمبر 2022ء میں سینٹ کی انسانی حقوق کمیٹی نے ان کی ترمیم کو بحث کیلئے منظور کر لیا، تب سوشل میڈیا پر اس کے حق اور مخالفت میں ٹرینڈ چلے۔

یوں عام پاکستانی کو خبر ہوئی کہ اسلامی جمہوریہ میں کوئی خالصتاً مغرب زدہ قانون بھی نافذ العمل ہو چکا ہے،دوسرا تاج برطانیہ سے آزادی لیے 76 برس بیت گئے مگر ہمارا قانونی ڈھانچہ تاحال فرنگی سحر سے آزاد نہ ہو سکا۔

عدالت عظمیٰ کا 2010ء میں جاری کردہ اس حکم نامہ کو بھی ایکٹ کا حصہ بنایا گیا ہے جس میں خواجہ سراؤں کے شناختی کارڈ بنانے اور انہیں ووٹر فہرستوں میں شامل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے،گویا اللہ کی یہ جیتی جاگتی مخلوق 2010ء تک ہمارے قانون سازوں کی نظر سے اوجھل رہی یا ہم نے انگریز بہادر کی غیر مرئی مرعوبیت کے زیر اثر اس مخلوق کو درخوراعتنا ہی نہ سمجھا۔ تیسرے نمبر پر یہ کہ ٹرانسجینڈر ایکٹ خواجہ سرا کمیونٹی کو حقوق دینے سے زیادہ مغربی رجحان کا حصہ بننے کی کاوش لگتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ ٹرانسجینڈر خواتین و حضرات تیسری شناخت کے خواہاں نہیں بلکہ ’میل‘ اور ’فی میل‘ میں سے کوئی ایک خانہ ہی اپنانے کے متمنی ہیں تو پھر الگ شناخت پر اصرار کیوں،اس امر سے قطع نظر کہ ازخود تعین کردہ جنس خلاف شرع ہی نہیں خلاف فطرت بھی ہے،جب کوئی فرد اپنی مرضی سے مرد یا خاتون بننا پسند کرتا ہے تو پھر وہ انہی مسائل اور حالات کے ساتھ بقیہ زندگی گزارے جن کا پیدائشی مرد وخواتین کو سامنا ہے۔

الگ شناخت چاہیے تو 2010ء کے عدالتی حکم نامہ کی روشنی میں تیسری شناخت کو قانونی حیثیت حاصل ہو چکی ہے،اسے اختیار کر لینے میں کیا حرج ہے،لیکن قرائن نے ثابت کر دیا کہ حرج تو بہرحال ہے کیوں کہ تیسری جنس کی نمائندگی کرنے والی خواجہ سرا برادری بھی باضابطہ طور پر اس مغربی قانون کے خلاف سراپا احتجاج ہے،گویا ٹرانسجینڈر خواتین و حضرات جس شناخت پر مصر ہیں وہ چوتھی اور پانچویں کا درجہ رکھتی ہے یعنی ٹرانسجینڈر مرد اور ٹرانسجیندر عورت،پاکستان اتنی اجناس کا بوجھ کیونکر اٹھا سکتا ہے جبکہ اس پر اسلامی نظریاتی ملک ہونے کی ذمہ داری پہلے سے عائد ہے۔

اب آئیے زیر جائزہ متنازع قانون کے مضمرات پر ایک نظر ڈالتے ہیں،ٹرانس جینڈر (تحفظ حقوق) ایکٹ میں ٹرانسجینڈرز کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ازخود اپنی جنس کا تعین کر کے اسے تبدیل کرا سکتے ہیں،تمام سرکاری ادارے اس شناخت کو تسلیم کرنے کے پابند ہوں گے اور اسی کے مطابق شناختی کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس اور پاسپورٹ بنائے جائیں گے۔ بحیثیت پاکستانی شہری ان کے تمام حقوق تسلیم کیے گئے ہیں۔

سرکاری ملازمتوں، حصول تعلیم اور صحت کی سہولتوں تک فراہمی کو قانونی حیثیت دی گئی ، وراثت میں ان کا قانونی حق بھی تسلیم کیا گیا ہے،ٹرانسجینڈرز کو کوئی سہولت دینے سے انکار اور امتیازی سلوک پر مختلف سزائیں بھی تجویز کی گئی ہیں۔اس ایکٹ میں ٹرانسجینڈر کی تعریف کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ تین طرح کے ہو سکتے ہیں، پہلے نمبر پر انٹر سیکس ہیں۔

جن میں مرد و خواتین دونوں کی جینیاتی خصوصیات پائی جاتی ہوں یا جن میں پیدائشی ابہام ہو۔دوسرے نمبر پر ایسے افراد ہیں جو پیدائشی طور پر مرد پیدا ہوتے ہیں مگر بعد میں اپنی جنس کی تبدیلی کے عمل سے گزرتے ہیں۔ تیسرے نمبر پر ایسے لوگ ہیں، جو پیدائشی جنس سے خود کو مختلف سمجھتے ہیں۔

مذکورہ قانون کے حوالے سے مہم چلانے والوں کے مطابق انٹر سیکس سے مراد پیدائشی مخنث ہیں۔ دوسرے نمبر پر ان مردوں کی تشریح کی گئی ہے جو اپنے جنسی اعضا کی طبی طریقے سے ترمیم کراتے ہیں،تیسرے نمبر پر ایسے افراد ہیں جو پیدائشی جنس سے متضاد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں،جیسے پیدائشی لڑکا دعویٰ کرے کہ وہ لڑکی ہے یا اس کے برعکس۔

سینیٹر مشتاق احمد خان کا کہنا ہے وہ اس قانون کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں،اس قانون کے تین حصے ہیں۔ اس کے ایک حصے پر انہیں کوئی اعتراض نہیں مگر اس کے دو حصوں کو ترمیمی بل کے ساتھ ٹھیک کرنا چاہتے ہیں۔ یہ قانون کئی ترمیمی مراحل کے بعد بہتر ہو سکتا ہے۔

اِس کے نام کے حوالے سے بھی انہیں شدید تحفظات ہیں،اس قانون کے حوالے سے انٹرنیشنل کمیشن آف جیوریسٹ (آئی سی جے) کی طرف سے بھی اعترضات آئے ہیں ،سینیٹر مشتاق کی تجویز ہے کہ جنس تبدیلی کا معاملہ میڈیکل بورڈ کی اجازت سے مشروط کیا جائے، میڈیکل بورڈ کی رائے کے بغیر کسی کو بھی جنس تبدیلی کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، اپنی مرضی سے صنفی شناخت اختیار کرنا نہ صرف خلافِ شریعت ہے بلکہ یہ اسلام کے قانون وراثت سے بھی متصادم ہے۔

خواتین کے عفت و پاک دامنی اور ہماری روایات کے بھی خلاف ہے،ان کی رائے ہے کہ اس پورے قانون کو از سر نو مرتب ہونا چاہیے، قانون دان، علما کرام اور انٹر سیکس افراد کے حقوق کے لیے کام کرنے والے افراد، طبی ماہرین اور اسلامی نظریاتی کونسل کی رہنمائی اور سفارشات کی روشنی میں اسے تیار ہونا چاہیے۔

مشتاق احمد خان کا دعویٰ ہے کہ سرکاری رپورٹس کے مطابق 30 ہزار افراد نے نادرا کے سرکاری ریکارڈ میں جنس تبدیل کرائی ہے،ان میں بڑی تعداد مردوں کی ہے، جنھوں نے اپنی شناختی دستاویز میں جنس تبدیل کرائی، اس سے معاشرے میں انتشار پھیل رہا ہے۔ ہم نے اپنے معاشرے کو اس انتشار سے بچانا ہے۔

جماعت اسلامی اور معروف دانشور اوریا مقبول جان کی طرف سے وفاقی شرعی عدالت میں دائر درخواست میں اس ایکٹ کو آئین پاکستان کی روح کے منافی بیان کیا گیا ہے۔ درخواست گزاروں نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ انسان کو تخلیق کرنے کا حق صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔

اللہ نے عورت اور مرد کو تخلیق کیا، قدرت کی تخلیق میں حکمت ہے، ایک عورت کو اپنی مرضی سے مرد اور ایک مرد کو عورت بننے کا کوئی اختیار نہیں۔ ایسا کرنا خلاف شرع اور برائیوں کا باعث بن رہا ہے۔

اسلام میں انٹر سیکس افراد کو بھی حقوق دیئے گئے ہیں، انٹر سیکس مردوں کے قریب ہے تو وہ مرد ہو گا، عورتوں کے قریب ہے تو وہ عورت ہو گا،ایک نامکمل مرد یا عورت یا انٹر سیکس کو کسی علاج، آپریشن کے ذریعے مکمل مرد اور عورت بنایا جا سکتا ہے تو اس کی اجازت موجود ہے مگر ایک مخنث عورت اور مرد اپنی مرضی سے اپنی جنس کو تبدیل نہیں کر سکتے ہیں۔

سینیٹر فرحت اللہ بابر وفاقی شرعی عدالت میں اس قانون کا دفاع کر رہے ہیں،ان کے مطابق یہ بل اسلام مخالف نہیں، تاہم ہر قانون میں بہتری کی گنجائش موجود رہتی ہے،انہوں نے سینیٹر مشتاق احمد خان کا یہ دعویٰ مسترد کیا کہ اس پر اسلامی نظریاتی کونسل کو اعتراض تھا۔وہ کہتے ہیں کہ جب یہ بل پیش ہو رہا تھا تو اسلامی نظریاتی کونسل نے اس پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا،یہ سینیٹ کے ریکارڈ پر ہے۔

اس قانون کے پوشیدہ ہدف کو خواجہ سرا برادری نے ہی عیاں کر دیا،17 اکتوبر 2022ء کو ملک بھر کے خواجہ سراوں نے ٹرانس جینڈر ایکٹ کو مسترد کردیا،اگلے روز اس کے خلاف احتجاج بھی کیا گیا جس میں اس قانون کی کاپیاں پھاڑی گئیں،نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں ’شی میل فار فنڈامنٹل رائٹس‘ کے زیراہتمام نیوز کانفرنس کے دوران خواجہ سرا رہنما الماس بوبی نے دوٹوک انداز میں کہا کہ یہ قانون غیر ملکی طاقتوں کے اشارے پر نافذ کیا گیا جس کا مقصد ہم جنس پرستی کو فروغ دینا ہے۔

حکومت خواجہ سراوں کے حقوق پر عوام کو بہکا کر فارن فنڈنگ وصول کر رہی ہے،خواجہ سراوں کے حقوق کی آڑ میں ہم جنس پرستی کا قانون نامنظور ہے، ہماری شرعی حیثیت کو بحال کیا جائے اور ٹرانس جینڈر ایکٹ کو ختم کیا جائے،خواجہ سراوں کوتعلیم و صحت اور دوسرے بنیادی حقوق کی فراہمی کا تحفظ آئین پاکستان دیتا ہے۔

الماس بوبی نے مطالبہ کیا کہ ایکس کارڈ کی وجہ سے خواجہ سراوں کو حج اور عمرے کی اجازت نہیں دی جا رہی، ایکس کارڈ کے بجائے معمول کا کارڈ جاری کیا جائے،اس موقع پر الماس بوبی نے اپنی برادری کے خلاف مقدمات کا ذکر کرتے ہوئے اسے دلچسپ سیاسی رنگ بھی دے دیا،ان کا کہنا تھا کہ خواجہ سراوں کے خلاف اگر بھیک مانگنے پر مقدمات بن سکتے ہیں تو ہمارے حکمرانوں پر بھی کیس بننے چاہئیں جو عالمی مالیاتی اداروں اور ممالک سے مانگنے جاتے ہیں۔

27 سمبر2022ء کو اسلامی نظریاتی کونسل نے ٹرانسجینڈر ایکٹ کو غیر شرعی قرار دے دیا۔کونسل نے حقیقی انٹرسیکس افراد کے حقوق کے تحفظ کی ضرورت پر زور دیا گیا اور تجویز دی کہ ٹرانسجینڈر افراد کے بارے میں موجودہ ایکٹ کا جائزہ لینے کے لیے کمیٹی تشکیل دی جائے، کمیٹی خواجہ سراؤں کے بارے میں موجودہ قانون کا تفصیلی جائزہ لے تاکہ اس مسئلے کے ہر پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے جامع قانون سازی کی جا سکے،کونسل نے نشاندہی کی کہ موجودہ ایکٹ میں مجموعی طور پر متعدد دفعات شرعی اصولوں سے ہم آہنگ نہیں، جو نت نئے معاشرتی مسائل پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔