پٹھان کا ’’بے شرم رنگ‘‘ اور بھارتی انتہاپسندی

وقار احمد شیخ  جمعرات 5 جنوری 2023
فلم کے محض ایک گانے نے بھارتی سیاسی تنظمیوں کی انتہاپسندی عیاں کردی ہے۔ (فوٹو: فائل)

فلم کے محض ایک گانے نے بھارتی سیاسی تنظمیوں کی انتہاپسندی عیاں کردی ہے۔ (فوٹو: فائل)

25 جنوری کو شاہ رخ خان کی فلم ’’پٹھان‘‘ ریلیز ہونے جارہی ہے لیکن اس فلم کا ابتدائی ٹیزر جاری ہونے سے ’’بے شرم رنگ‘‘ گانے کے ٹریلر تک بھارت بھر (ایک مخصوص طبقہ) میں شاہ رخ خان اور فلم پٹھان کے خلاف احتجاج کیا جارہا ہے۔ خاص طور پر بھارتی انتہاپسند سیاسی جماعت بی جے پی کے رہنما اور کارکن ’’بائیکاٹ پٹھان‘‘ مہم میں پیش پیش دکھائی دے رہے ہیں۔

فلم ’’پٹھان‘‘ میں شاہ رخ خان اور دیپیکا پڈوکون پر فلمائے گئے گانے ’’بے شرم رنگ‘‘ کو کچھ طبقوں اور سیاستدانوں کی جانب سے ’اشتعال انگیز‘ اور ’ہندو جذبات کو ٹھیس پہنچانے والا‘ کہہ کر تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اعتراض یہ کیا جارہا ہے کہ گانے میں دیپیکا نے جو زعفرانی رنگ کا لباس پہنا ہے، جسے بھگوا رنگ بھی کہتے ہیں اور ہندو مذہب میں یہ رنگ سادھو سنت پہنتے ہیں، گانے کے بول کے ذریعے اس رنگ کو ’’بے شرم‘‘ کہا جارہا ہے اور عریاں انداز میں فلما کر اس رنگ کا ’’اپمان‘‘ کیا جارہا ہے۔

فلم کو گجرات میں بین کرنے کا مطالبہ بھی کیا جارہا ہے۔ ویشوا ہندو پریشد اور بجرنگ دل نے کہا ہے کہ گجرات میں فلم ریلیز ہوئی تو کسی بھی بڑے حادثے کےلیے تھیٹر مالکان ذمے دار ہوں گے۔ یہ سیدھی سادی دھمکی ہے۔ اس سے قبل مدھیہ پردیش کے وزیر نروتم مشرا نے بھی دھمکی دی تھی کہ اگر فلم میں ملبوسات اور مناظر کو تبدیل نہیں کیا گیا تو وہ پٹھان کو ریاست میں ریلیز نہیں ہونے دیں گے۔

فلم کے محض ایک گانے نے بھارتی سیاسی تنظمیوں کی انتہاپسندی عیاں کردی ہے۔ بے جی پی وہی جماعت ہے جو ابتدا سے اپنے مسلم مخالف ایجنڈے پر سیاست کرتی آئی ہے اور ہر بار انتخابات سے قبل مذہبی کارڈ کا استعمال کرتی ہے جس میں انڈیا کی دیگر اقلیتوں اور خصوصاً مسلمانوں کے خلاف نفرت کو اجاگر کیا جاتا ہے۔ فلم پٹھان کی مخالفت کے پیچھے بھی یہی مفاد کارفرما ہے۔ کیونکہ فلم کا صرف نام ہی مسلمانوں کی طرف اشارہ نہیں کرتا بلکہ فلم کا مرکزی کردار بھی ایک مسلمان اداکار نباہ رہا ہے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھنے والے موجودہ بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کو خود انڈیا میں بھی کئی طبقے ’’گجرات کا قسائی‘‘ کہتے ہیں۔ بی جے پی کی انتہاپسندی اب کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ یہ پارٹی ہمیشہ مسلم مخالف جذبات بھڑکانے میں پیش پیش رہی ہے۔ فلم کی ریلیز سے قبل ہی بی جے پی رہنماؤں کی جانب سے انتہاپسندانہ اور نفرت پر مبنی بیانات دیے جارہے ہیں۔

پٹھان کے ’بے شرم رنگ‘ گانے کے تنازعے کو روز بروز بھڑکایا جارہا ہے، گانے کے خلاف آئے روز نئی شکایتیں درج ہورہی ہیں اور نئی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ہندوستان کو ہندو راشٹر قرار نہ دینے پر ’جل سمادھی‘ کا اعلان کرنے والے پرمہانس اچاریہ کی دھمکی آمیز ویڈیو وائرل ہورہی ہے، جس میں وہ کہہ رہے ہیں ’’آج ہم نے فلم کے پوسٹر جلائے۔ فلم پٹھان نے زعفرانی رنگ کی توہین کی ہے۔ اگر مجھے جہادی شاہ رخ خان کہیں بھی ملے تو میں اسے زندہ جلادوں گا۔‘‘ پرمہانس اچاریہ نے بھی کہا کہ اگر کوئی اور ان سے پہلے شاہ رخ کو قتل کردیتا ہے تو وہ اس کا مقدمہ لڑیں گے۔ اس سے قبل ہنومان گڑھی کے پجاری مہنت راجو داس نے بھی لوگوں سے ان تھیٹروں کو جلانے کا کہا تھا جہاں پٹھان ریلیز کی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ بالی ووڈ اور ہالی ووڈ ہمیشہ ہندو مذہب کا مذاق اڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔ دیپیکا پڈوکون نے جس طرح بھگوا رنگ کو بکنی کے طور پر استعمال کیا ہے وہ ہمارے لیے تکلیف دہ ہے۔ بھگوا رنگ کو بکنی کے طور پر پہننے کی کیا ضرورت تھی؟ ان تھیٹروں کو جلا دو جہاں فلم دکھائی جائے گی کیونکہ بصورت دیگر وہ نہیں سمجھیں گے۔ برائی کا مقابلہ کرنے کےلیے آپ کو برا ہونا پڑے گا۔

صرف ہندو پنڈتوں کی طرف سے ایسے بیانات نہیں دیے جارہے بلکہ شاہ رخ خان کی مخالفت میں بالی ووڈ انڈسٹری کی وہ شخصیات جن کی سیاسی وابستگی بی جے پی سے ہے یا وہ خود انتہاپسندانہ جذبات رکھتے ہیں، مسلسل نفرت انگیز بیانات دے رہے ہیں۔ کمال راشد خان مسلمان ہونے کے باوجود صرف شاہ رخ خان کی مخالفت میں گانے کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں جب کہ اپنے اسکینڈلز سے متنازعہ رہنے والی اداکارہ شرلین چوپڑا بھی زہر اگلتی نظر آرہی ہیں۔

گزشتہ سال بھارت کی سب سے زیادہ کمائی کرنے والی ہندی فلموں میں سے ایک فلم ’’کشمیر فائلز‘‘ کے ڈائریکٹر ویویک اگنی ہوتری کا دوغلا پن بھی اس تنازعے پر خوب خبروں میں ہے۔ ویویک اگنی ہوتری نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر بے شرم رنگ گانے کے ساتھ ملا کر ایک بچی کی ویڈیو شیئر کی ہے، جس میں وہ بچی کہہ رہی ہے کہ اس طرح کے گانے بنانے والے دیس کی لڑکیوں کے قاتل ہیں۔

یاد رہے کہ ویویک اگنی ہوتری وہی ڈائریکٹر ہیں جنھوں نے ماضی میں نیم عریاں فلمیں بنائی ہیں اور انھیں یہ کہہ کر پروموٹ کیا ہے کہ ’’جب تک کوئی آرٹسٹ ’ایروٹیکا‘ نہیں بناتا تب تک وہ مکمل آرٹسٹ نہیں بنتا، کیونکہ وہ بھی ایک آرٹ فارم ہے۔‘‘ ویویک نے اس جملے سے آگے جو باتیں کیں وہ یہاں لکھنے میں ہمیں بھی جھجک کا سامنا ہے، اس سے آپ ویویک کی سوچ کا اندازہ کرسکتے ہیں، لیکن اب وہی اگنی ہوتری فلم پٹھان کے اس گانے پر معترض نظر آتے ہیں جبکہ یہ ویویک اگنی ہوتری ہی تھے جنھوں نے فلم ’’ہیٹ اسٹوری‘‘ بنائی تھی، اور اس فلم میں عریانیت اور بے ہودگی کی انتہا کردی گئی تھی، لیکن اُن دنوں ویویک اپنی فلم میں نازیبا مناظر کا دفاع کرتے رہے۔ اُن دنوں ویویک نے اپنی ٹویٹر پوسٹ میں اس بات کا بھی اعتراف کیا تھا کہ انھوں نے اپنی فلم ’ہیٹ اسٹوری‘ بیچنے کےلیے ’’سیکس‘‘ کا استعمال کیا۔ جبکہ بھارتی اداکارہ تنوشری دتہ بھی اپنے ایک انٹرویو میں یہ الزام عائد کرچکی ہیں کہ ویویک نے انھیں برہنہ ہوکر ناچنے کا کہا تھا۔

یہ بھی طرفہ تماشا ہے کہ بی جے پی کے کچھ وزرا خود بالی ووڈ میں اداکار یا پروڈیوسر ڈائریکٹر رہ چکے ہیں، اور ان میں سے اکثر خود ان ہی افعال میں ملوث رہے ہیں جن پر آج اعتراض کیا جارہا ہے۔ سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے بی جے پی اور ان معترضین کی سابقہ زندگی اور بیانات کے دوغلے پن کو خوب مذاق کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ دیپیکا کے جس گیروے رنگ کے مختصر لباس پر مذہب کا نام لے کر اعتراض کیا جارہا ہے خود بی جے پی کے وزرا اس رنگ میں ملبوس عریانیت اور فحاشی کا مظاہرہ کرچکے ہیں۔ سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے ماضی کی وہ ویڈیوز شیئر کی جارہی ہیں جس میں اسی زعفرانی رنگ کے لباس کا استعمال کیا گیا ہے۔ بی جے پی سے تعلق رکھنے والے اداکار روی کشن شکلا بارش میں گیروے رنگ میں ملبوس رومانوی گانا فلما رہے ہیں، جبکہ منوج تیواری کا گانا بھی تنقید کی زد میں ہے جس میں وہ گیروے رنگ ملبوس ’’بے بی بیئر پی کے ناچے چھما چھم‘‘ گا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا صارفین ان ویڈیوز اور سابقہ بیانات کو شیئر کرکے تنقید کررہے ہیں کہ پٹھان سے پہلے ان گانوں پر اعتراض کیوں نہیں کیا گیا، اس وقت کسی کے مذہبی جذبات کیوں مجروح نہیں ہوئے؟

بی جے پی کی اس منافقت پر بالی ووڈ کے دیگر فنکاروں اور سیاستدانوں کی طرف سے بھی تنقید کی جارہی ہے۔ کانگریس، ترنمول کانگریس اور کئی دیگر اپوزیشن جماعتوں کے لیڈروں نے اس بحث کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔ چھتیس گڑھ کے وزیراعلیٰ بھوپیش بگھیل نے اس معاملے پر کہا کہ ’’یہ رنگ پہننا اور دھارن کرنا دو الگ باتیں ہیں۔ زعفرانی رنگ آگ اور شعلوں کا رنگ ہے اور قربانی کی علامت ہے۔ اس کو بامعنی بناتے ہیں سادھو، سنت، جب وہ پورے سماج اور خاندان کو چھوڑ دیتے ہیں۔ تب کہیں جاکر وہ بھگوا رنگ یا زعفرانی رنگ قبول کرتے ہیں۔‘‘ انھوں نے بجرنگ دل کے کارکنوں کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ جو بجرنگی غنڈے بھگوا گمچھا پہن کر ’’بھتہ خوری‘‘ کرتے ہیں، انھوں نے کیا قربانی دی ہے؟ بگھیل نے یہ بھی کہا کہ اگر رنگ کی بات کی جائے تو بھارتیہ جنتا پارٹی میں جو آج کل ایم پی اے اور ایم ایل اے بنے ہوئے ہیں وہ بھی ہیرو رہ چکے ہیں اور ہیروئنوں کے ساتھ بھگوا رنگ کے کپڑے پہن کر ڈانس کررہے ہیں، ان کے بارے میں کیا خیال ہے۔ رنگوں سے کسی کی ذات اور مذہب کا فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔

ماضی کی سینئر اداکارہ آشا پاریکھ نے بھی گانے پر تنقید کرنے والوں پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ بہت غلط بات ہے، فلم تو فلم ہے، جس کا مقصد انٹرٹینمنٹ ہے۔ اب کسی اداکارہ نے اورنج کلر پہن لیا یا فلم کا نام کچھ ایسا رکھ دیا گیا تو آپ اس پر پابندی لگانا شروع کردیتے ہیں؟ یہ مناسب طرزِ عمل نہیں ہے۔

ان سب اعتراضات کے بعد بھارتی سینٹرل فلم سرٹیفکیشن بورڈ نے فلم کے ڈائریکٹر کو فلم اور گانوں میں کچھ تبدیلیوں کی ہدایت کرتے ہوئے پروڈکشن کمپنی یش راج فلمز کو بورڈ گائیڈ لائنس کے مطابق تبدیل شدہ ورژن جمع کرانے کا کہا ہے۔ کیونکہ ابھی تک فلم کو سنسر بورڈ کا سرٹیفکیٹ نہیں دیا گیا۔ واضح رہے کہ شاہ رخ خان کی آخری فلم ’’زیرو‘‘ 2018 میں ریلیز ہوئی تھی اور اس فلم کے مرکزی کردار کے ذریعے شاہ رخ خان چار سال بعد کم بیک کررہے ہیں۔ فلم پٹھان کا بجٹ تقریباً دو سو پچاس کروڑ ہے۔ اور اس کے میڈیا رائٹس تقریباً سو کروڑ میں بیچے گئے ہیں۔ اس تنازعے کی ابتدا کے بعد سے فلم کے گانے ’’بے شرم رنگ‘‘ کو صرف دو ہفتے میں پندرہ کروڑ ویوز ملے ہیں۔ اس بات سے فلم کی ریلیز سے قبل ہی اس کی مقبولیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

شاہ رخ خان کی فلم پر اعتراض دراصل کپڑوں یا نیم عریانیت پر نہیں بلکہ یہ سب مسلم دشمنی اور ’’راج نیتی‘‘ کا کھیل ہے۔ ’’دھرم خطرے میں ہے‘‘، ’’مذہب کو خطرہ ہے‘‘ جیسے نعرے محض اپنے ذاتی مفادات حاصل کرنے کے لیے لگائے جاتے ہیں، ان کا نعروں کا حقیقت اور عوام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا لیکن مذہب کے نام پر ذرا سی بات پر مشتعل ہوجانے والے بھولے عوام ہمیشہ ان نعروں کے چنگل میں آجاتے ہیں۔ بھارت کے ساتھ پاکستان کے عوام کا بھی یہی حال ہے کہ انھیں بھی مذہب کے نام پر ’’بے وقوف‘‘ بنایا جاسکتا ہے۔ یہاں بھی سیاست میں منافقت کا وہی چلن ہے کہ اپنی جوانی میں ’’پلے بوائے‘‘ کا کردار ادا کرنے والے ہاتھ میں تسبیح لیے ’’ریاست مدینہ‘‘ کا نعرہ بلند کرتے ہیں اور عوام اندھی تقلید میں پیچھے چل پڑتے ہیں یہ کہتے ہوئے کہ ’’اللہ کسی کو بھی کبھی بھی ہدایت دے سکتا ہے‘‘۔ اندھی تقلید کا یہ بھی عالم ہے کہ برسوں سے سیاست میں رہنے اور کئی کئی باریاں لے کر حکومت کرنے والوں، ملک کو لوٹنے والوں کو بار بار موقع دیا جاتا ہے تاکہ وہ اس ملک کو مکمل برباد کرسکیں۔ اپنے ذاتی مفادات اور سیاست پر جان گنوانے والوں کو ’’شہید‘‘ اور ہمیشہ ’’زندہ‘‘ کا لقب دے کر پرستش کی جاتی ہے اور ان کی اولاد ایک سیاسی موت کا فائدہ کئی پشتوں تک اٹھاتی ہے۔

بہرحال بات ہورہی تھی بھارتی فلم پٹھان اور بھارت میں انتہاپسندی کی۔ بھارتی فلموں میں عریانیت کوئی نئی بات نہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بھارت کی ان عریاں اور بے لگام عشق و محبت کی فلموں نے ہی پاکستان کے کلچر کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ بھارت کی سینما انڈسٹری ہر دور میں عریانیت کا شکار رہی ہے۔ اور افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستان کی فلم انڈسٹری بھی اس یورش کو روک نہیں پائی اور اسی رنگ میں ڈھل گئی۔ جبکہ پاکستانی ڈراموں کے معیار کی آج بھی مثال دی جاتی ہے۔

فلم عوام کی تفریح طبع کا ذریعہ ہے۔ بے شک یہ ایک آرٹ ہے۔ لیکن آرٹ میں برہنگی اور عریانیت لازم نہیں۔ رقص میں مناسب لباس بھی پہنا جاسکتا ہے۔ اشتعال انگیز کپڑے اور مناظر فلم کی کامیابی کے لیے ضروری نہیں۔ ذومعنی اور بے ہودہ ڈائیلاگز کے بغیر بھی تفریح کا مقصد پورا کیا جاسکتا ہے۔ آخر فلموں میں صاف ستھرا مواد کیوں نہیں دکھایا جاسکتا؟ انڈسٹری سے وابستہ لوگ ایسی اشتعال انگیز فلمیں اور مواد نہ بنائیں۔ دراصل یہ وہ اعتراضات ہیں جو پٹھان سمیت دیگر فلموں پر کیے جانے چاہئیں اور ان اعتراضات کو دور بھی کیا جانا چاہیے۔ لیکن سیاست اور مسلم دشمنی میں ان اعتراضات کو ایک غلط سمت دے کر بھارت میں نفرت کی آگ بھڑکائی جارہی ہے جو پہلے سے انارکی کے شکار بھارت کو مزید خونریزی میں دھکیل دے گی۔ لیکن یہاں ہمیں پڑوسی ملک کی حالت پر خوش ہونے کے بجائے اپنے گریباں میں بھی جھانکنے کی ضرورت ہے اور ان عوامل اور طرزِ عمل کو ترک کرنے کی ضرورت ہے جس پر کوئی ہم پر بھی انگلی اٹھا سکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

وقار احمد شیخ

وقار احمد شیخ

بلاگر جامعہ کراچی سے بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز اور گزشتہ بیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ کالم نگاری کے علاوہ کہانیوں کی صنف میں بھی طبع آزمائی کرتے رہے ہیں۔ اپنے قلمی نام ’’شایان تمثیل‘‘ سے الگ پہچان رکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔