پختون قوم پرست پارٹی ؟

جمیل مرغز  منگل 10 جنوری 2023
jamilmarghuz1@gmail.com

[email protected]

پختون قوم پرست پارٹیوں کی تعداد ویسے بھی زیادہ ہے لیکن ان میں بھی شکست و ریخت کا سلسلہ مستقل جاری رہتا ہے‘حال ہی میں پختونخوا ملی عوامی پارٹی میں تقسیم ہوئی ہے۔

اس سے قبل عوامی نیشنل پارٹی اور پختون تحفظ مومنٹ میں تقسیم ہوئی ‘اس سے قبل پختون اولسی تحریک اور پھر نیشنل ڈیموکریٹک مومنٹ وجود میں آئیں‘قومی وطن پارٹی اگر چہ متحد ہے لیکن آمد و رفت کا سلسلہ یہاں بھی جاری رہتا ہے ۔

پختون قومی مسئلہ بہت اہم اورسنجیدہ ہے ‘اب یہ مسئلہ صرف پاکستان کے وفاق کا نہیں ہے بلکہ افغانستان کے ساتھ جڑاہوا پیچیدہ مسئلہ ہے‘اس پیچیدہ مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک مضبوط‘واضح موقف رکھنے والی ‘ قومی تحریک کی ضرورت ہے لیکن یہاں ہر ایک نے ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنائی ہے۔

اب بڑامسئلہ یہ ہے کہ اصل پختون قوم پرست پارٹی کون سی ہے؟ کیونکہ ہر ایک اپنے کو’’اصلی تے وڈی‘‘ قوم پرست پارٹی کہتی ہے ‘ہرپارٹی کا ہدف بھی الگ ہے بلکہ اگر کہاجائے کہ اکثر پارٹیاں پروگرام کے بارے میں کنفیوژن کا شکار ہیں تو غلط نہیں ہوگا۔

اب ایک پرانی بات اخباری اطلاعات کے مطابق اعظم خان ہوتی نے یکم اکتوبر 2013کو اپنی پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ’’ ولی باغ پختون قومی تحریک کا مرکز ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اسفندیار ولی خان میں اتنی اہلیت نہیں کہ وہ پختونوں کی قیادت کر سکیں‘قومی تحر یک کسی مر کز کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی‘‘ ۔

پختون قوم کی روایتی قوم پرستی کی واحد نمایندہ ہونے کی دعویدار عوامی نیشنل پارٹی ‘پانچ سال (2008-2013) حکومت کرنے کے بعد عام انتخابات میں شکست کی وجوہات تلاش کر رہی تھی‘ پارٹی کے اندر ہونے والے واقعات اندرونی معاملہ ہے اور ہم اس میں دخل در معقولات نہیں کرنا چاہتے لیکن اعظم ہوتی کا مندرجہ بالا بیان بہت اہم ہے اور اس کاجائزہ لینا ضروری ہے کیونکہ موجودہ صورت حال کے تناظر میں یہ اہم سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ ‘ کیا اے این پی کے کمزورہونے سے پختون قومی تحریک کمزور یا ختم ہونے کا اندیشہ ہے؟

کیا چھ کروڑ پختون قوم کی تقدیر صرف اے این پی سے وابستہ ہے ؟ان سوالات کا جواب اس لیے بھی لازمی ہے کہ معلوم ہونا چاہیے کہ قوم پرست تحریکیں کسی ایک جماعت اور قیادت کی محتاج ہوتی ہیں یا اس کی بنیادوں میںکچھ ٹھوس وجوہات بھی موجود ہیں؟۔

ڈارون نے جانوروں اور پودوں کی مختلف نسلوں کی بقاء اور بعض نسلوں کے معدو م ہونے کی وجوہات پر طویل تحقیق کی تو انھوں نے (Survival of the fittest) کا بنیادی اصول دریافت کیا۔ یہ اصول معاشروں‘ قوموں اور نظریات پربھی لاگو ہوتا ہے۔ انھوں نے اس اصول کو مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان کیا ہے۔

”It is not the strongest of the species that survives nor the most intelligent that survives.It is the one that is most adoptable to change”.

(فطرت میں اپنی بقاء کے لیے کسی نسل کا بہت طاقت ور یا بہت ہو شیار ہونا ضروری نہیں ہے کیونکہ یہ دونوں خصوصیات رکھنے والی نسلیں ختم ہو جاتی ہیں‘صرف وہ نسلیں قائم رہتی ہیں جو ماحول کے ساتھ تبدیل ہونے کی صلاحیت رکھتی ہوں )اس اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا اب وقت نہیں آگیا کہ ہم اپنے پختون قوم پرستی کے نظریے کا از سر نو جائزہ لیں اور وہ راستے اور طریقے اختیار کریں جن سے پختون قوم کے قومی مسائل حل کرنے کی طرف پیش رفت ہو سکے کیونکہ پختون قوم کو اب بھی کافی مسائل کا سامنا ہے۔

اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ روایتی پختون قومی تحریک باوجود بیش بہا قربانیوں کے قومی حقوق حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے شاید اس وجہ سے کہ یہ تحریک زمانے کے بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ اپنے آپ کو ڈھالنے میں ناکام رہی ہے۔

کیا یہ ایک المیہ نہیں ہے کہ تقریباً100سالہ جدوجہداور بے شمار قربانیوں کے باوجود6کروڑ پختون قوم آج بھی منتشر ہے اور آج بھی اپنی محرومیوں کا رونا رو رہی ہے۔

معاشرہ جامد نہیں ہے اب تو دنیا اور بھی بہت آگے جا چکی ہے اور اس کا سفر تیزی سے جار ی ہے تو کیا نیشلزم کا فلسفہ اور اس کے اہداف اور طریقہ کار جامد ہوگئے ہیں کیا ہمارا معاشرہ باقی دنیا سے کٹ گیا ہے ؟ اگر جواب نفی میں ہے تو پھر پختون قوم کو آج اس سوال کا سامنا ہے کہ کیا ہم آج بھی 1930 کے دور میں رہ رہے ہیں؟ یا حالات بدل چکے ہیں اور نیشلزم کی نئی تعبیر اور اس کے نئے اہداف وقت کی ضرورت ہے۔

پاکستان کے اندر روایتی قوم پرستوں کا دعوے ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد ایک حقیقی وفاقی نظام قائم ہو چکا ہے اور قومی تحریک اپنے اہداف حاصل کرچکی ہے تو سوال کیا جا سکتاہے کہ پھر کیوں پختون قوم آج بھی ان بنیادی قومی مسائل سے دو چار ہے جن کا ذکر اوپر ہو چکا ہے؟اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ روایتی قوم پرست تحریک ان مسائل کو حل کرنے اور نئے تقاضوں کے ساتھ چلنے کے قابل نہیں ہے‘ اب چونکہ تمام دنیا ایک گلوبل ویلج کی صورت اختیار کر گئی ہے۔

گلوبلائزیشن کی وجہ سے نہ صرف ریاستوں بلکہ قوموں کے مفادات آپس میں جڑچکے ہیں کسی قوم کی سماجی اور معاشی ترقی اور ان کے مفادات کا تحفظ روایتی قوم پرست سیاسی پارٹیوں کے بس کا کام نہیں بلکہ ان پارٹیوں کا وجود قوموں کی پسماندگی کا باعث بنی ہوئی ہے۔

اس لیے دور حاضر کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہوکر پختون قوم کے سماجی اور معاشی ترقی کے لیے اس خطے کے محروم پسے ہوئے طبقات‘ حقیقی قوم پرست قوتوں اور محب وطن درمیانے طبقہ کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے ان کی مایوسیوں اور محرومیوں کو طاقت میں تبدیل کرنے کے لیے جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔

تاکہ عصری تقاضوں کے عین مطابق روایتی سیاست سے ہٹ کر’’ قوم پرستی کے جدید نقطہ نظر‘‘ یا نیو نیشلزم کے مطابق اور بہتر حکمرانی (Good Governance) کے ذریعے اس خطے میں قومی حقوق ‘امن اور رواداری کا حصول ممکن بنایا جا سکے کیونکہ بین الاقوامی سازشوں اور ملکی مسائل کی آماجگاہ آج بھی پختون قوم کی سر زمین ہے۔

عالمگیریت (Globalization) کو پاکستان میںایک چیلنج کے طور پر لینا چاہیے نیونیشلزم کے جدید نقطہ نظر کی بنیادپر گلوبلائزیشن کے فائدہ مند چیزوں سے فائدہ حاصل کرتے ہوئے اپنی ریاستی خود مختاری ‘سماجی ‘معاشی ‘تہذیبی اور ثقافتی اقدار کا تحفظ کرنا بھی ضروری ہے۔ پارٹی اداروں میں جمہوری انداز فکر کو لاگو کرنااور محنت کش عوام کے ساتھ ساتھ تمام محروم طبقات کو پارٹی اداروںمیں سمونا ہوگا۔

پختونوں کے اتحاد اور حقوق کے لیے آوازبلندکرنااور مختلف خطوں میں تقسیم اس عظیم قوم کا اتحاد‘اس خطے میں آباد تمام قومیتوں اور نسلوں کے حقوق تسلیم کرتے ہوئے ان کے حقوق کی تحفظ کے لیے جدوجہدصوبائی خودمختاری اور صوبے کے وسائل پر خود اختیاری کے لیے عملی جدوجہد۔دہشت گردی کی پرزور مذمت اور خطے میں اس مسئلے کا سیاسی حل تلاش کرنا‘مرکزی حکومت اور اقوام عالم سے اس خطے کی سماجی اور معاشی ترقی کے لیے خصوصی پیکیج کا مطالبہ کرنا‘ جس میں اس خطے کی معاشی بحالی کے ساتھ ساتھ انفرااسٹرکچر کی بحالی پر بھی توجہ دی جاسکے اورجس سے حکومتی اداروں کے علاوہ نجی شعبے میں بھی خاطر خواہ روزگار پیدا کیا جا سکے۔

ان مقاصد کے علاوہ ایک نیا عمرانی معاہدہ (New Social Contract) جو کہ وفاق کو باہمی اشتراک پر قائم کرے تاکہ وطن عزیز میں آباد تمام قومیتیں خصوصاً پختون اپنے آپ کو وفاق کا حصہ سمجھیںاٹھارویں ترمیم کے نام پر چھوٹی قومیتوں کے ساتھ مذاق کی حقیقت اب کھل رہی ہے۔کیا ان مقاصد کا حصول صرف اے این پی کی موجودگی میں ممکن ہیں یا اس کے حصول کے لیے دیگر پختون قومی تحریکیں بھی موجود ہیں یا خدانخواستہ اے این پی کی ناکامی سے پختون قوم یتیم ہو گئی ہے اس سوال کا جواب آیندہ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔