خوش حال اور مستحکم معاشرے کا نشان ۔۔۔ مضبوط خاندان

ایاز مورس  اتوار 15 جنوری 2023
پائے دار، انفرادی اور اجتماعی ترقی میں خاندان کا مرکزی کردار ہوتا ہے ۔ فوٹو : فائل

پائے دار، انفرادی اور اجتماعی ترقی میں خاندان کا مرکزی کردار ہوتا ہے ۔ فوٹو : فائل

ترقی یافتہ معاشرہ تربیت یافتہ انسانوں سے بنتا ہے اور تربیت یافتہ انسان خاندان سے بنتا ہے۔ ایک کہاوت کا مفہوم ہے، ایک بچے کی پرورش کے لیے پورے گاؤں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔

تعلیم و تربیت یعنی ٹریننگ کتابوں اور ٹریننگ سیشنز میں نہیں، بلکہ گھروں میں خاندان کے تعلقات، کردار اور ماحول سے ہوتی ہے۔

میں نے اپنی اب تک کی زندگی کے مشاہدے اور براہ راست زندگی کے تجربات کے مطالعے سے اخذ کیا ہے کہ بہت سارے باصلاحیت اور ذہین لوگ گھریلو مسائل، لڑائی جھگڑوں، الجھنوں اور خاندانی سیاست اور سازشوں کی وجہ سے اپنی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی میں آگے نہیں بڑھ پاتے ہیں۔

میرا ماننا ہے اگر آپ کو خاندان کی جانب سے سپورٹ نہ ہو تو آپ کی زندگی کا سفر بہت دشوار ہوجاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں ہماری آدھی سے زیادہ زندگی، توانائی اور وقت اپنے خاندان اور رشتہ داروں کو منانے، کھلانے اور سمجھانے میں ہی صَرف ہوجاتا ہے۔

ذرا غور کریں، جس معاشرے میں کسی بھی آرٹسٹ کو ابتدا میں گھریلو اعانت نے ملے وہ بے چارہ اپنی گھریلو ذمے داریوں میں ہی پس جاتا ہے۔ ایسے مادہ پرست معاشرے میں وقتی اور معاشی طور پر گزر بسر کرنے کے لیے اپنی فن کارانہ صلاحیتوں کا جوہر دکھانے والے پھر نمائشی اور وقتی فن کار تو ہو سکتے جینوئن اور حقیقی آرٹسٹ نہیں بن سکتے۔

اس مضمون میں ہم کسی بھی معاشرے کی بنیادی اکائی خاندان کے فرد واحد کی ذاتی اور پیشہ ورانہ ترقی میں کردار پر گفتگو کریں گے۔ ساتھ ہی بدلتے وقت، معاشی اور عصری تضاضوں نے کس قدر خاندانی اقدار، اتحاد اور بنیادی کردار کو متاثر کیا ہے، پر بھی بات کریں گے ۔

جدید ٹیکنالوجی، معاشی ترقی اور تیزرفتار زندگی نے سب سے زیادہ جس چیز کو متاثر کیا ہے وہ خاندان ہے۔ مغرب ہو یا مشرق سب جگہ خاندان کی اہمیت اور حیثیت متاتر ہوئی ہے۔

خاندانی نظام اور نظم وضبط پر بھی سوال اُٹھے ہیں، خاندان کے مقصد اور افادیت پر سوالیہ نشان ہیں، لیکن اس کے باوجود کسی بھی طرح سے نہ معاشرے اور نہ ہی فرد واحد کی زندگی میں اس کی اہمیت کم ہوئی ہے، بلکہ اس وقت معاشی ابتری، ذہنی و نفسیاتی کشمکش اور اخلاقی ومذہبی اقدار کی پامالی کی بڑی وجہ مستحکم، مضبوط اور متوازن خاندان کا نہ ہونا ہے۔

اس میں دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ جس خاندانی نظام اور اُصول وضوابط کا تصور ہمارے ذہنوں میں ہے یا ماضی میں ہمارے معاشرے کا حصہ رہا ہے ، اب ایسا تصور مشکل اور ناممکن سی بات ہے۔ وقت، حالات اور خاندانی تقاضے بدل چکے ہیں، اس لیے خاندانی نظام کو بھی جدید عصری تقاضوں کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کرنا ہوگا۔

یہ بات یاد رکھیں کہ خاندان کی اہمیت نہ کسی دور میں کم ہوئی تھی، نہ ہوگی بلکہ خاندان کا کردار ہمیشہ، فردواحد اور معاشرے کے لیے نہایت اہم رہے گا۔ خاندان انسانی زندگی کا وہ خوب صورت احساس، جگہ اور تجربہ گاہ ہے جہاں بچہ سب سے پہلے دُنیا، محبت، احساس اور باہمی تعاون کا تجربہ کرتا ہے۔

خاندان ہی وہ پہلی لرننگ یونیورسٹی ہے جو انسان کو انفرادی ترقی سے اجتماعی فلاح اور بہتری تک کا تصور دیتی ہے۔ خاندان ہی وہ پہلا لرننگ انسٹی ٹیوٹ ہے جو انسان کے لیے کیئرنگ اور شیئرنگ کا عملی نمونہ پیش کرتا ہے۔

بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں بدلتے وقت کے ساتھ خاندانی نظام اور اقدار کو اپ ڈیٹ ہی نہیں کیا گیا بلکہ بوسید ہ روایتوں کو خاندانی وقار کا نام دے کر اس خوب صورت ادارے کا نظام تباہ کیا گیا ہے۔ میرے مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ جو انسان مضبوط اور خوش گوار خاندانی ماحول میں پرورش نہیں پاتا، وہ زندگی میں زیادہ ناکام ہوتا ہے اور ذہنی و نفسیاتی مسائل کا شکار رہتا ہے۔

خاندان تربیت کے بہترین ٹول ہوتے تھے جہاں انسان کی کردارسازی اور شخصیت کی تعمیر کی جاتی تھی، اس لیے فردواحد کے رویے اور کردار سے پورے خاندان کی تعریف اور تذلیل ہوتی تھی۔

آج کا انسان بالخصوص نوجوان ذہنی، نفسیاتی، معاشی، سماجی، مذہبی اور اخلاقی زوال کا شکار اس لیے ہے کیوںکہ ہمارا خاندان بہت کم زور اور غیرموثرDysfunctional ہوچکا ہے۔ ٹوٹے ہوئے فرد، خاندان اور معاشرے کو معافی، بحالی اور تجدید ہی دوبارہ جوڑ سکتی ہے۔

خاندان میں جب افراد صرف اپنی ڈیوٹی اور اپنی مرضی پوری کرتے ہیں، تو پھرگھر صرف چلتا ہی ہے، خاندان نہیں بنتا۔ ویسے بھی گھر بنانا آسان ہوتا ہے، مگر خاندان بننے کے لیے صدیاں درکار ہوتی ہیں۔

اب جب کبھی اکثر شہر سے گاؤں واپس جاتا ہوں تو احساس ہوتا ہے، واقعی جب لوگوں کے گھر کچے ہوتے تھے تو لوگ اور خاندان کتنے سچے ہوتے تھے، اب ہر طرف پتھروں کے پکے گھر بن چکے ہیں، اس لیے لوگ اور خاندان بھی پتھر بن چکے ہیں۔ ان میں احساس، قربت، مہمان نوازی، سادگی اور خلوص نام کے وٹامن ختم ہوچکے ہیں۔

مادی اور ظاہری نمودونمائش اور مصنوعی رویوں نے خاندان کے وجود کو غیرفعال بنادیا ہے۔ خاندان کے افراد ایک ساتھ رہتے تو ہیں، لیکن یہ دُکھ سکھ، مشکل وقت اور حالات میں ساتھ نہیں ہوتے ہیں۔ خاندان ایک جسم کی مانند ہوتا ہے جس کے تمام اعضاء کا متحرک اور متوازن ہونا لازم ہے تاکہ خاندان کا نظام بہتر انداز میں چلایا جاسکے۔

ہمارے خاندان اس وقت سب سے زیادہ ذہنی دباؤ، جذباتی گھٹن، نفسیاتی الجھنوں، مذہبی و سیاسی انتشار، معاشی بحران، خودغرضی اور منفی رویوں کا شکار ہیں۔ اس نظام میں نئی رُوح پھونکے کی اشد ضرورت ہے۔

سوشل میڈیا پر لوگوں کے رویوں اور برتاؤ سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ کس قدر اپنی خاندانی زندگی سے بے زار نظر آتے ہیں، جب کہ خاندان کے افراد اور گھر ایک ایسی محفوظ اور مضبوط جگہ ہے۔

جہاں انسان کو سب سے زیادہ پُرسکون اور پُرعزم محسوس کرنا چاہیے۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ اپنے الفاظ کا چناؤ سوچ سمجھ کے کریں، آپ کے الفاظ آپ کی اعلیٰ تربیت، خاندان اور آپ کے اچھے اخلاق کا پتا دیتے ہیں۔

کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ ’’پُرمسرت خاندان سے بڑی نعمت بھلا کیا ہوسکتی ہے۔‘‘ میں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے دوران مختلف ٹریننگز، سیمینار، انٹرویوز کے ذریعے اور لوگوں کی حکمت عملی، تجربات اور حقیقی واقعات سے انتہائی اہم سبق حاصل کیا ہے کہ ٹیم ورک اور ٹیم اسپرٹ صرف کارپوریٹ کلچر اور ٹریننگز انڈسٹری میں ہی نہیں سیکھی جاتی، اس کی ابتدا خاندان سے ہی شروع ہوتی ہے۔

معروف عالمی ادیب لیو ٹالسٹائی کے لازوال ناول ’’اینا کرانینا‘‘ کا ابتدائی جملہ یوں ہے،’’مسرور خاندان ایک جیسے ہوتے ہیں، ہر ناخوش خاندان کی ناخوشی کا انداز جدا ہوتا ہے۔‘‘ ایک مضبوط اور متحد خاندان کسی بھی فرد کی زندگی کو مثبت طور پر کیسے متاثر کرتا ہے اور اُس کی نجی اور پیشہ ورانہ زندگی میں کیسے ترقی کا سبب بن سکتا ہے؟ اس کے چند اہم پہلو مندرجہ ذیل ہیں، ان مثبت پہلوؤں پر خاندان عمل پیرا نہ ہوتو یہ روش فردواحد کی ناکامی اور تباہی کا سبب بن سکتی ہے:

1:خاندان ہماری شخصیت کی تعمیر اور مثبت رویوں کی تشکیل کرتا ہے

خاندان ہماری فطرت کی نشوونما میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ موروثی اور نفسیاتی اثرات کے علاوہ خاندان کا ماحول، سوچ و فکر اور طرززندگی ہماری شخصیت کی تعمیر اور مثبت رویوں کو تشکیل دینے میں اہم عنصر ہوتا ہے۔ خاندان کے ماحول اور اثر کو ہم ہرگز نظرانداز نہیں کرسکتے۔

2:خاندان زندگی کے حقیقی مقصد سے آگاہی میں ہماری معاونت کرتا ہے۔

البرٹ آئن اسٹائن کا کہنا ہے،’’زندگی کی خوب صورت زمین پر اپنے خاندان کے ساتھ خوشی منائیں۔‘‘ اکثر انسان اپنے مقصد کی تلاش اور حصول میں اس قدر دُور چلا جاتا ہے کہ وہ زندگی کے حقیقی مقصد سے ہٹ جاتا ہے۔ خاندان ہمیں اس مقصد سے آگاہ رکھتا ہے۔

2019 میں بننے والی بھارتی مزاحیہ فلم ’’پتی پتنی اور وہ ‘‘ کے اختتام کا ایک خوب صورت مکالمہ ہے،’’جب لوگ تمہاری مسکراہٹ کی تعریف کریں تو یہ یاد رکھو کہ یہ مسکراہٹ کن لوگوں کی وجہ سے ہے۔‘‘

3:خاندان ہمیں مشکلات حالات اور وقت میں تسلی اور سہارا دیتا ہے

ہر انسان کی زندگی میں مشکل وقت اور حالات آتے ہیں، جب اُسے تسلی اور سہارے کی ضرورت ہوتی ہے ایسے میں گھر اور خاندان وہ بہترین جگہ ہوتی ہے جس کے بارے میں شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

ہر گھر میں اک ایسا کونا ہوتا ہے

جس میں چھپ کے ہم کو رونا ہوتا ہے

مشکل وقت میں انسان کو مشورے اور تسلی کی ضرورت ہوتی ہے۔ بقراط نے کیا خوب صورت بات کہی ہے،’’بیماری کسی بھی قسم کی ہو اس کا پہلا علاج تسلی ہے۔‘‘ اکثر انسان کو علاج سے زیادہ توجہ، احساس اور پیار کی ضرورت ہوتی ہے جو خاندان کی بنیادی قدریں ہیں۔

مضبوط اور مستحکم خاندان مشکل وقت میں انسان کو ثابت قدمی اور مستقل مزاجی سکھاتے ہیں جو انسان کے کردار کو مزید نکھارتے ہیں۔

4:خاندان ہمیں جینے کی وجہ دیتا ہے

بعض اوقات ہم زندگی اور دُنیا کی مصنوعی اور عارضی خوشی اور ترقی کے لیے اپنے خاندان کو داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ معروف مصنف عرفان جاوید اپنی کتاب ’’عجائب خانہ‘‘ کے صفحہ نمبر 13 پر عنوان ’’زندگی کی گود سے‘‘ کے تحت تحریر میں ایک واقعہ بیان کرتے ہیں جب نام ور ادیب مستنصر حسین تارڑ بیماری سے دوچار ہوئے اور اُنہوں نے یہ نئی بات سیکھی،’’یہ حقیقت میں پہلے بھی جانتا تھا مگر اب میرے دل دماغ میں پوری طرح جذب ہوگئی ہے۔

یہ شہرت، مقبولیت، نام، مقام سب نظر کا دھوکا ہے۔ جو چیز حقیقی ہے وہ انسان کا خاندان اور دوچار اہم سچے دوست ہیں۔ پس باقی سب فریبِ نظر ہے۔‘‘

5:خاندان ہمیں معاشرے کا موثر رکن بناتا ہے

آج کے دور میں انسان صرف اپنی ذاتی اور انفرادی ترقی کا طلب گار ہوتا ہے جب کہ خاندان ہمیں یہ شعور دیتا ہے کہ ہم معاشرے کا حصہ ہیں، جہاں ہمیں دیرپا اور پائے دار ترقی کے لیے باہمی ترقی اور اجتماعی نشوونما پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہم اپنے معاشرے سے بیگانے اور لاعلم رہ کر ترقی نہیں کرسکتے ۔ خاندان ہمیں معاشرے کا موثر اور سرگرم عملی رکن بننے کی وجہ فراہم کرتا ہے۔

6:خاندان ناکامی اور مشکل میں ہمارا ساتھ دیتا ہے

مجھے یقین ہے کہ آپ پوری دُنیا سے لڑ سکتے ہیں، بلکہ ہر قسم کے مشکل حالات کا بڑی جواں مردی سے سامنا کر سکتے ہیں، اگر آپ کا خاندان آپ کا بھرپور ساتھ دینے کے لیے تیار ہو۔ خاندان ناکامی اور مشکل وقت میں سب سے مضبوط پناہ گاہ، بہترین موٹیویشن اور انسپائزیشن ہوتا ہے۔

خاندان مشکل حالات میں انسان کا بہترین قلعہ ہوتا ہے جہاں وہ ناکام ہوکر بھی محفوظ اور مضبوط ہوتا ہے۔ ٹوٹے اور بکھرے ہوئے خاندانوں کے افراد مشکل وقت اور حالات میں ٹوٹ اور بکھر جاتے ہیں جب کہ مضبوط اور متحد خاندان کے افراد نکھر جاتے ہیں۔

7:خاندان ہمیں اپنے رویے اور کردار کو بہتر بنانے کی تحریک دیتا ہے

معروف ماہرنفسیات اور مصنف ایڈم گرانٹ کا کہنا ہے کہ اکثر نوجوانوں کو خود غرض، بے حس اور منفی اثر سے جلد متاثر ہونے والے سمجھا جاتا ہے جب کہ ڈیٹا یہ بتاتا ہے کہ جو نوجوان نیکی کے کاموں میں مشغول ہوتے ہیں وہ اپنی صحت کو نقصان کے خطرات، ساتھیوں کے دباؤ اور اچھے رول ماڈل کی تلاش کی مشکل سے بھی دوچار ہوتے ہیں۔

اس لیے نوجوانی جہاں بڑھوتری کا وقت ہے وہیں کئی چیلینج بھی پیش کرتا ہے۔ ایسی صورت حال میں خاندان وہ بہترین جگہ اور ذریعہ ہے جو ہمیں اپنے رویے اور کردار کو بہتر بنانے کی مثبت تحریک دیتا ہے۔

یاد رکھیں آج کے دور میں خاندانی زندگی کوئی آسان کام نہیں یہ بہت مشکل چیلینج ہے۔ خاندان کو بنانے اور رشتوں کو بچانے کے لیے جھکاؤ کی نہیں اچھے برتاؤ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے وقت اور حالات میں جہاں انفرادی ترقی اور خوشی کا اولین ترجیح دی جاتی ہو وہاں خاندانی زندگی کے وقار، تقدس اور تحفظ کے لیے کون قربانیاں دینے کو تیار ہوتا ہے۔

خاندانی ذمے داریوں کو سمجھنے اور پورا کرنے کے لیے بہت زیادہ تربیت اور کتابیں پڑھنے کی نہیں بس انسان بننے کی ضرورت ہے۔ میرے دادا کہا کرتے تھے،’’بیٹا! رشتے نبھنانا آسان نہیں ہوتا، یہ ایک آرٹ ہوتا ہے، جو صرف انسانوں کو آتا ہے، رشتے انسان نبھاتے ہیں فرشتے نہیں، بس انسان بننے کی کوشش کرو …!‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔