جی ایم سید اور داستانِ محبت

ڈاکٹر توصیف احمد خان  ہفتہ 14 جنوری 2023
tauceeph@gmail.com

[email protected]

غلام مرتضیٰ سید عرف جی ایم سید اس خطہ کے واحد رہنما تھے جو علم سیاسیات کے علاوہ فلسفہ ، ادب اور سماجی علوم پر بھی مکمل دسترس رکھتے تھے۔ جی ایم سید نے 60 کے قریب کتابیں تحریرکیں۔

آپ 17 جنوری 1904کو ضلع دادو کے گاؤن سن میں پیدا ہوئے۔ جی ایم سید کو ان کے وسیع علم کی بناء پر ایک بڑے دانشور کی حیثیت حاصل ہوئی تھی۔

جی ایم سید نے ابتدائی تعلیم سن کے پرائمری اسکول میں حاصل کی۔ جی ایم سید کے والد کو خاندانی دشمنی کی بناء پر 1905 میں قتل کیا گیا۔

خاندان کی خواتین نے جی ایم سید کے تحفظ کی خاطر انھیں مزید تعلیم حاصل کرنے سے روکا مگر انھوں نے گھر پر اسلام ، فلسفہ، مذہب، سیاسیات اور ادب وغیرہ جیسے موضوعات پر کتابوں کا عرق ریزی سے مطالعہ کیا۔

جی ایم سید نے ایک معرکہ آرا کتاب ’’جی ایم سید اور داستان محبت ‘‘ سندھی میں تحریر کی۔ جی ایم سید کے پرستار خادم حسین سومرو نے اس کتاب کا اردو میں ترجمہ کیا۔ مشہور ادیب قاضی جاوید نے اس کتاب کے پشت پر تحریر کیا ہے کہ خادم حسین سومرو جیسے صاحبان کم دکھتے ہیں جو عقیدتوں کا حق ادا کرتے ہیں۔ سومرو کو سندھ سے عشق ہے۔

بقول قاضی جاوید ، خادم حسین سومرو ہمیں اور دوسروں کو بھی یہ موقع فراہم کررہے ہیں کہ سائیں جی ایم سید کو پرکھا اور سمجھا جائے اور برصغیر کے مسلم دانشوروں کی تاریخ میں سائیں کو ان کا جائز مقام دیا جائے۔

خادم حسین نے جی ایم سید کی کئی کتابیں انگریزی میں ترجمہ کروا کر شایع کیں۔ خادم حسین سومرو نے جی ایم سید اور داستان محبت کو آسان اور سادہ الفاظ میں اردو میں منتقل کیا ہے۔

یہ کتاب ڈیڑھ سو کے قریب صفحات پر مشتمل ہے۔ انھوں نے کتاب کا انتساب سائیں جی ایم سید کے ان پیروکاروں کے نام کیا ہے جنھوں نے وادئ سندھ کی فکری اساس، سندھ کے پیغامِ امن، رواداری اور پیار کی سوچ کو پروان چڑھانے کے لیے مسلسل جدوجہد کی ، تشدد اور جیل کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے جانیں قربان کیں۔

یہ کتاب تقریباً 150 صفحات پر مشتمل ہے۔ خادم حسین سومرو نے لکھاری کے نوٹ سے کتاب کا آغاز کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سائیں جی ایم سید نے تاریخ ، سیاست ، ثقافت، تصوف، سماجیات، شخصیات اور مذہب کے ارتقاء پر کئی کتابیں لکھیں۔

ایک کتاب انھوں نے پیار پر ’’ دریا دل اور داستان محبت ‘‘ لکھی ہے۔ یہ کتاب ان کی زندگی کے پیار کے متعلق مشاہدات اور تجربات پر مشتمل ہے۔ اس کتاب میں سیاست میں جو پیار کا عمل دخل ہے اس کا بھی بھرپور انداز میں ذکر کیا ہے اور زندگی کے دوسرے پہلو پر بھی پیار کے اثرات پر روشنی ڈالی ہے۔

خادم حسین سومرو نے مزید لکھا ہے’’ میں اس کتاب میں جی ایم سید اور محبت Love Story of G.M Syed میں ان کا تلاش حق اور محبت کے پہلو کے باعث ان کا زاویہ نظر ان کی زبانی پیش کررہا ہوں۔ یہ کتاب محبت کے عالمی فلسفہ پر سید کی عالمگیر سوچ کا ایک عکس جسے میں نے ایک قلمی کاوش کے طور پر منظر عام پر لانے کی کوشش کی ہے۔

اس کتاب میں موجود تمام فکری مواد سید کا ہے۔‘‘ وہ لکھتے ہیں کہ اس کتاب کے قاری کے لیے ضروری ہے کہ غیر جانبداری سے ایک عوام الناس اور درد مند رہنما کی تحریک کا مطالعہ کریں اور خود نتیجہ اخذ کریں کہ ایک صوفی انسان جو عوام کے حقوق کے لیے اپنی زندگی وقف کردے وہ عوام دشمن کیوں ہوسکتا ہے؟

کتاب کے پہلے باب کا عنوان تلاش ، حق اور پیار ہے۔ اس باب کا آغاز فارسی کے ایک شعر سے ہوتا ہے ، جب سے حافظ نے اپنی محبت کا قصہ لکھنا شروع کیا ہے ، جس سے ان کی ہر تحریر سے امرت نکلتا ہے۔

جی ایم سید نے اس باب میں جن زندہ بزرگوں کی محبت سے فیض پایا ، ان بزرگوں میں قاضی مخدوم بصیر الدین علیہ، سیوہانی مخدوم قبول ، محمد فاروق ، کلیچ بیگ، خواجہ حسن نظامی، مولانا حسین احمد مدنی، دادا جیٹھ مل وغیرہ شامل ہیں۔

سید لکھتے ہیں کہ مذہبی حلقوں میں رہ کر تجربات سے معلوم ہوا کہ انفرادی اور مجموعی طور پرکمال حاصل کرنے کے لیے مندرجہ ذیل تین باتیں مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔ 1۔ علم یا عقل 2۔ عمل با کرم 3۔ عشق یا محبت 4 ۔ علم یا عقل مختلف ادوار میں دنیا کے مختلف ممالک میں دانشوروں نے تجربات غور و فکر، سیر و سیاحت اور صالح حضرات کی صحبتوں سے معلومات حاصل کیں اور علوم کے خزانہ چھوڑتے ہیں تاکہ آیندہ نسلیں ان سے فیض حاصل کریں۔

وہ لکھتے ہیں کہ ماضی کے علوم کے مطالعہ سے ہزارہا برسوں کے تجربات و مشاہدات کا علم ہوتا ہے اور مذہبی ارتقاء میں مدد ملتی ہے۔ علم کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

1) علم ظاہری 2 ) علم باطنی۔ علم ظاہری کی جستجو میں نئی سائنس سامنے آئیں اور اس طرح سید فلسفہ علم ، اس کی چار اہم تشریحات میں فلسفہ وحدت الوجود ، وحدت الشعور، تثلث ، فلسفہ دہریت۔ انھوں نے ادب، علم، تاریخ، علم ساز و آزار، علم ، سیاست کی جامع تعریفیں تحریر کی تھیں۔ جی ایم سید نے کتاب میں قوم کی تشریح کی ہے۔ مختلف جغرافیائی خطوں میں ہزاروں برسوں کے ملاپ کے بعد ہی قومیں تشکیل پاتی ہیں ، جن کے افراد دراصل قبائل، نسل، زبان، روایات، تصورات اور دستور بنا کر قومی یکجہتی حاصل کرتے ہیں۔ وہ بتدریج ایک زباں، یکساں روایات، ثقافت اور دستور بنا کر قومی یکجہتی اور عصبیت حاصل کرتے ہیں جو اقوام کہلاتی ہیں۔

جی ایم سید نے لکھا ہے کہ دودو اور چنیسر دو بھائی تھے۔ چنیسر نے اپنے ملک سندھ سے بے وفائی کی۔ علاؤ الدین خلجی چنیسر کی مدد سے سندھ پر حملہ آور ہوا۔ دودو نے سندھ کی سرزمین کے مفاد کی خاطر ڈٹ کر مقابلہ کیا اور سندھ پر اپنی جان قربان کردی۔

وہ لکھتے ہیں کہ سندھیوں کی کچھ خامیاں ہیں۔ مثلا قبائلی زندگی مکمل طور پر ختم نہیں ہوتی، بد امنی، باہمی مفادات، جہالت اور بری رسومات کی بناء پر قومی شعور پیدا ہو کر قومی عصبیت اور یکسانیت پیدا نہ ہوسکی۔ اعلیٰ طبقہ کی خود غرضی اور باہمی اخلاقیات قومی کمزوری کا سبب ہوتے ہیں۔

احساس کمتری نے بزدل بنا دیا ہے ، توہم پرستی کی وجہ سے عوام پیر، فقیر، ملا اور وڈیروں کی چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اسی طرح جی ایم سید نے سندھیوں کی خوبیاں بھی بیان کی ہیں۔ ان خوبیوں میں سادہ مزاجی ، وفاداری، بے ضرر اور کم آزاد ریاستی حیا اور ادب مہمان نوازی ، محبت اور رواداری کا جذبہ شامل ہے۔

جی ایم سید نے مزید لکھا ہے کہ سندھی قوم کی مندرجہ ذیل خوبیوں نے مجھے متاثر کیا ہے: 1) وفاداری، 2) کم آزاری، 3) مہمان نوازی، 4) حیاء و ادب، 5) رواداری، 6) غیرت، 7) پیغام محبت و امن۔ سید نے اس کتاب میں تصوف، علم سیاسیات، علم اقتصادیات، علم نفسیات، عام معلومات کا علم ، باطنی اور روحانی علم کے بارے میں تفصیل سے تحریر کیا ہے۔

انھوں نے تصوف کے فلسفہ کے ساتھ روح اور انسان کے تعلق پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ جی ایم سید نے اس کتاب میں اپنے ایک نامکمل عشق کو بھی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ خادم حسین نے جی ایم سید کی سندھی کتاب کو اس خوبصورتی سے اردو میں منتقل کیا ہے کہ قاری کو محسوس ہی نہیں ہوتا کہ کتاب سندھی سے ترجمہ ہے۔

اس کتاب کے مطالعے سے جی ایم سید کے بارے میں بہت سی ایسی معلومات ملتی ہیں جس سے اردو زبان پڑھنے والے قارئین ناواقف تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔