جو کی فصل

ڈاکٹر محمد اعجاز تبسم  اتوار 29 جنوری 2023
ہمارے غذائی مشکلات اور صحت کے مسائل کا حل ۔ فوٹو : فائل

ہمارے غذائی مشکلات اور صحت کے مسائل کا حل ۔ فوٹو : فائل

فیصل آباد: “حیرت ہے ڈاکٹر صاحب کہ صرف جو (Barley) کا دلیہ کھانے سے میں کیسے ٹھیک ہوگئی! نہ میں نے دوائی کھائی، نہ ٹیکہ لگوایا، نہ کوئی آپریشن یا لیزر ٹیکنالوجی کی طرف جانا پڑا…! سمجھ میں نہیں آرہا کہ صرف جو کی غذا کھانے سے نہ صرف میرے پتے (Bile duct) میں موجود پتھری سے مجھے نجات مل گئی … بلکہ اب تو میں ہشاش بشاش بھی رہنے لگی ہوں…، اور پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ صرف جو کی غذا کھانے سے ہی پتے میں موجود پتھری سے مجھے افاقہ ہوگیا ہو…!”

قارئین.. یہ تھے وہ کلمات جو اپنے شوہر کے ساتھ میرے دفتر واقع ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ فیصل آباد آنے والی ایک خاتون میرے سامنے بیٹھی ادا کر رہی تھیں، جس پر میں گویا ہوا کہ بی بی! آپ کو تو شکر ادا کرنا چا ہیے کہ نبی کریمؐ کی پسندیدہ غذا کھانے سے آپ کی طبیعت بحال ہوگئی ہے، مگر الٹا آپ اس بارے مجھ سے شک کا اظہار کرر ہی ہیں کہ میں ٹھیک بھی ہو گئی ہوں کہ نہیں! کہنے لگیں کہ ڈاکٹر صاحب میرے پاس تو اب وقت نہیں ہے۔

کیوںکہ میں پرسوں امریکا جا رہی ہوں لیکن اگر پتے کی پتھری نے مجھے امریکا جا کر تنگ کیا تو؟ جس پر میں نے جواب دیا کہ ٹھیک ہے بی بی ..آپ امریکا ضرور جائیں مگر جو کی غذا کا استعمال کرتی رہیں، اور جب کبھی امریکا سے واپس فیصل آباد آئیں تو وہاں سے الٹراساؤنڈ رپورٹ ضرور لیتی آئیں۔

کوئی 4،6ماہ بعد وہ خاتون امریکہ سے واپس ہوئیں تو انہوں نے مجھے الٹرا ساؤنڈ رپورٹ دکھائی جس پر رقم تھا کہ آپ کے پتے میں تو کبھی اسٹون (پتھری) تھا ہی نہیں، لیکن وہ خاتون آج بھی اسی تذبذب میں ہیں کہ جو کی غذا میں آخر کیا چیز پنہاں ہے کہ جس کی وجہ سے مجھے افاقہ ہوا۔

قارئین! جو کی غذا میں موجود چیز کی اہمیت تو فقط اسی بات سے دوچند ہوجاتی ہے کہ پہلی وحی کے نزول کے دوران نبی کریمؐ کے ساتھ غار حرا میں جبریل علیہ السلام کی وقتاًفوقتاً آمد کے سوا اگر کوئی تیسری چیز تھی تو وہ ستو کی صورت جو کی غذا تھی۔

اب سوال یہ ہے کہ غار حرا میں نہ کوئی چاول تھے نہ گندم کی روٹی تھی اور نہ ہی کھانے پینے کی کوئی اور شے تھی مگر وہاں جو کی غذا ہی کیوں موجود تھی، بس ہم مسلمانوں کو ایک یہی بات جو کی غذا کی اہمیت سمجھانے کے لیے کافی ہے۔

ایک بار حضرت علی رضی اللہ عنہ شفایاب ہوئے اور وہ نبی کریمؐ کے ساتھ کھجوریں کھا رہے تھے، جب انہوں نے دو چار کھجوریں زائد کھا لیں تو نبی کریمؐ نے ان کو مزید کھجوریں کھانے سے روک دیا اور فرمایا کہ تم ابھی ابھی شفایاب ہوئے ہو، لہٰذا زیادہ کھجوریں مت کھاؤ، ، کچھ توقف کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ایک چقندر اور جو کا دلیہ دیا اور فرمایا کہ ان میں سے کھاؤ، یہ تمھارے لیے زیادہ فائدہ مند ہے۔

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو اسلامی تاریخ کے پہلے دل کے مریض کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ ایک بار انہوں نے نبی کریمؐ سے عرض کی کہ (حدیث کا مفہوم پیش خدمت ہے) یا رسولؐ اللہ .. میں اپنے دل پر کوئی بوجھ سا محسوس کررہا

ہوں جس سے سانس لینے میں بھی دشواری ہے، اور بہت پریشان ہوں۔ آپؐ نے ان کو جو کا دلیہ تناول کرنے کا فرمایا۔ جو کا دلیہ کھانے کے اگلے ہی دن وہ مکمل صحت یاب ہوگئے (یہاں پر میرا ایمان ہے کہ جو کے دلیے کی بجائے نبی کریمؐ اگر مٹی بھی کھانے کے لیے فرماتے تو آپ رضی اللہ عنہ کو ٹھیک ہوجانا تھا، مگر نبی کریمؐ نے جو کا دلیہ ہی تناول فرمانے کی سفارش کیوںکی، یہ سوچنے کی بات ہے)

طلوع اسلام سے قبل بھی اگر جو کی غذا کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جو کی غذا دراصل 8 ہزار سال سے متقی اور پرہیز گار لوگوں کا من پسند کھاجا رہی ہے کیوںکہ اس کی غذا میں قدرت کی طرف سے کچھ اس قسم کی راحت پنہاں رکھ دی ہے کہ جب وہ غذا پیٹ میں اترتی ہے تو جسم کے اندر موجود شریانوں اور وریدوں سے جڑی اندرونی کثافتیں، نجاستیں اور غلاظتیں فوری دور ہونے کے بعد بندے کو روحانی طور پر، سکون اور فرحت میسر آتی ہے۔

جس سے بندہ اپنے آپ کو نہ صرف ہلکا پھلکا محسوس کرتا ہے بلکہ اس کے غوروفکر کرنے کی صلاحیت کو بھی تقویت ملتی ہے۔ یوں یہ غذا طلبائ، حفاظ کرام، علمائے کرام، سائنس دانوں اور اساتذہ کے سوچ بچار کرنے اور نئے نئے تصورات جنم دلوانے میں اہم کردار کی حامل ہے۔

ترکیہ کے تاکردہ شہر میں واقع ترکیہ یونیورسٹی میں ایک سیمپوزیم میں شرکت کا موقع ملا جہاں عالمی اسکالروں اور سائنس دانوں سے جو کی فصل پر بھی بات ہوئی۔

مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک خصوصاً سعودی عرب، قطر، دوبئی، شارجہ دمام وغیرہ میں تو جو کی مصنوعات یعنی نوڈلز، کوویکر، روٹی، ستو، دلیہ ، آب جو، اور شب دیگ کے ساتھ ساتھ وہ اسے سوپ میں ڈال کر بھی نوش کرتے ہوئے جو کی غذا سے بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں مگر پاکستان میں جو کی غذا سے لاعلم لوگوں سے اکثر سننے کو ملتا ہے کہ اسے تو ڈھور ڈنگر بھی نہیں کھاتے..

جو کی غذا کے بارے میں من حیث القوم ایسا تبصرہ یا ایسا موقف وہی کر سکتے ہیں جو، جو کی غذا کی افادیت سے بے خبر ہوں، مگر جن لوگوں کو جو کے بارے میں علم ہو جاتا ہے، وہ اسے اپنی خوراک کا جزو لاینفک بنا لیتے ہیں۔

اللہ بخشے جنرل حمید گل سے کوئی 20 سال یاداللہ رہی۔ ان کو جو کی فصل کے بارے کے ادراک ملنے کے بعد سرگودھا میں موجود ان کی اپنی زرعی زمینوں پر گندم کے ساتھ جو کی فصل کی کاشت کو ہمیشہ ترجیح دیتے ، جنرل حمید گل سے اکثر بات ہوتی اور فرماتے کہ تبسم صاحب! آپ کی جو کی فصل کی تحقیق نے میرے شعور کو جو کی غذانے نہ صرف خاصا مستفید کروایا ہے بلکہ غذا نے میرے غورفکر کو بھی جلا بخشی ہے، جو کی غذا کھانے سے ایک تو میرے جسم میں چستی آگئی ہے اور جو کی فصل نے میری زمین کی زرخیزی میں بھی نمایاں اضافہ کیا ہے۔

ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ فیصل آباد کے سابق ڈائریکٹر جنرل (ریسرچ) اور پنجاب زرعی تحقیقاتی بورڈ (PARB) ، لاہور کے موجودہ چیف ایگزیکٹیو آفیسر ڈاکٹر عابد محمود نے کہا کہ میں جو کے آٹے کی روٹی بھی کھا رہا ہوں اور ستو بھی پی رہا ہوں۔

جو کی روٹی کھانے سے میری شوگر 150/160 رہتی تھی ، اب 100 سے کم ہوگئی ہے۔ یعنی 90/95۔ پہلے کی نسبت اب جو کی غذا کھانے سے میرے جسم کا نظام اب بہت اچھا چل رہا ہے، یعنی ستو، دلیہ اور روٹی کھا رہا ہوں، تو میں سمجھتا ہوں کہ جو کی غذا کھانے سے مجھے بہت فائدہ ہو رہا ہے۔

گذشتہ 30 برس سے پاکستان بھر کے جو کی فصل کے کھیت میرا اوڑھنا بچھونا رہے ہیں۔ ایک روز اپنے تحقیقاتی ادارے ادارۂ گندم، فیصل آباد میں جو کی فصل کا معائنہ کرنے کے لیے صبح سویرے کھیتوں میں چلا گیا۔

کیا دیکھتا ہوں کہ جو کی فصل کے درمیان کھڑا ایک شخص بار بار فصل کی طرف جھکتا تھا اور اٹھتا تھا، جب قریب گیا تو علم ہوا کہ وہ شخص جو کی فصل کے پتوں پر آنے والی شبنم ہاتھوں سے اکٹھی کرکے بوتل میں ڈال رہا تھا۔ یہ فروری کا مہینہ تھا اور دھند بھی بہت تھی۔

شبنم کے پانی سے جب بوتل بھرگئی تو میں نے اس کو بلایا اور ذرا ڈانٹتے ہوئے بولا کہ کیوں بھئی جو کی فصل کے اس سرکاری فیلڈ میں تجربے کے لیے لگی فصل کو کیوں خراب کر رہے ہو، دوسری طرف گندم کے کھیتوں میں چلے جاتے، جس پر وہ جھجھکتے ہوئے بولا صاحب جی! غلطی ہوگئی، دراصل مجھے میرے دادا ابو نے ادھر بھیجا ہے کہ میں جو کی فصل پر لگی شبنم کو ایک بوتل میں اکٹھی کرکے لاؤں۔

مجھے حیرت ہوئی یا شاید قدرت مجھے جو کی فصل کی اک نئی جہت سے روشناس کروانا چاہ رہی تھی۔ اس شخص کی عمر 40 سال تھی، اس کے باپ کی عمر 70 سال اور اس کا دادا یقیناً 100 برس سے اوپر کا ہوگا۔ یعنی 100 برس کا ایسا علم مجھ تک پہنچا تھا جو شاید ہی کسی کتاب میں رقم ہو۔ وہ شخص کہنے لگا کہ میرے دادا کے ایک دوست کی آنکھوں میں سفیدموتیا اتر آیا ہے اور میرے دادا نے مجھ سے کہا تھا کہ آج کل فروری کا مہینہ ہے اور جو کی فصل بھی کھیتوں میں لگی ہوگی۔

لہٰذا تم قریب کے کھیتوں میں جاؤ اور جو کی فصل پر گرنے والی شبنم کو ایک بوتل میں اکٹھی کر کے لاؤ۔ ان کا کہنا ہے کہ جو کی فصل پر آنے والی شبنم کے پانی میں اگر شریں کے پتے ڈال دیے جائیں اور اس سے بننے والے پانی کو نتھار کر آنکھوں میں ڈالیں تو وہ آنکھوں کے جملہ امراض بشمول کالے اور سفید موتیے کے لیے اکسیر ثابت ہوتا ہے۔

میں حیران تھا کہ صبح صبح گرنے والی شبنم کو جو کی فصل کے ساتھ ابھی صرف قربت ہی میسر آئی ہے، یعنی اس شبنم نے ابھی جو کی فصل کا صرف لمس ہی لیا ہے کہ اس نے شبنم کے پانی کو اتنا پر تاثیر بنا دیا کہ وہ کالے اور سفید موتیے کے لیے تریاق ہوگیا، تو اس فصل سے اخذ کردہ غذا کا عالم کیا ہوگا۔

مقام تفکر ہے کہ پاکستان میں یہ تاثرعام ہے کہ جو کی فصل کو تو ڈھور ڈنگر بھی نہیں کھاتے، کھیت میں کاشت کی جائے تو وہ جلد ہی گرجاتی ہے، کھیت خراب کر دیتی ہے، اس کو تیلہ بھی بہت لگتا ہے جس سے اس کی پیداوار بھی کم رہتی ہے، مگر قارئین! یہ تاثر کُلی طور پر درست نہیں ہے۔

اپنے کھیت میں ہر کسان کی اپنی ترجیح ہوتی ہے کہ وہ کیا کاشت کرے اور کیا کاشت نہ کرے۔ اگر کسی کو دولت کمانی ہے تو وہ گندم اور جو کی فصل کی کاشت کو چھوڑ کر سبزیاں لگا لے، تھوڑے ہی عرصے میں امیر ہو جائے گا، اور اگر کسان محنت سے عاری ہے اور سال بھر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہنے کو ترجیح دیتا ہے تو وہ گنا کاشت کرلے، 2 ہزار من فی ایکڑ لے کر راتوں رات امیر ہو سکتا ہے اور اگر کوئی یہ سوچ کر جو کی فصل کاشت کر لیتا ہے کہ اس سے حاصل ہونے والی نبی کریمؐ کی پسندیدہ غذا نہ صرف خود کھاؤں گا بلکہ اپنے اہل و عیال اور دوستوں کو بھی کھلاؤں گا تو اس سے بے شمار فوائد حاصل ہوں گے۔

یعنی پہلا کھانے کے معاملے میں وہ سنت نبوی سے منسلک ہوجائے گا، اور سنت کے ان گنت فوائد ہوں گے، اس کو عام کرنے میں پیش پیش رہے گا، صحت برقرار رہے گی، بیماریوں سے چھٹکارا ملتا رہے گا، جب کہ قویٰ مضمحل ہونے کے شکار بزرگوں کے لیے یہ غذا کسی نعمت سے کم نہیں، کیوںکہ اس میں کاپر اور سیلینیم کی وافر مقدار موجود ہے، جو گھٹنوں کے درد، سرطان اور کورونا کے مریضوں کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔

اس میں پروٹین کا ایک ایسا جزو (High lysine) پایا جاتا ہے جو بچوں کا قد بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، اور ویسے بھی ترقی یافتہ ممالک کی ایک تازہ ترین تحقیق کے مطابق شوگر، ٹینشن، بلڈپریشر اور کولیسٹرول کے مریض گندم کے آٹے سے بنی روٹی کھانا چھوڑ دیں تو آدھی بیماری ختم ہوجاتی ہے، تو پھر وہ گندم کے آٹے کی روٹی کی جگہ کیا کھائیں؟ یہاں پر انہوں نے 2 آٹوں سے بنی روٹی کھانے کی سفارش کی ہے، جن میں ایک مکئی کا آٹا ہے اور دوسرا جو کا آٹا، اور اگر کوئی مجھ سے پوچھے تو نبی کریمﷺ  سے نسبت ہونے کے ناتے میری زبان پر جو کے آٹے سے بنی روٹی کا ہی نام آئے گا۔

یہاں پر یہ تذکرہ کرنا بھی ضروری ہے کہ آج کل گندم کا آٹا 160روپے فی کلو سے اوپر کا ہو چکا ہے جب کہ جو کا آٹا ابھی صرف 80 روپے کلو ہے، مگر یاد رہے کہ گندم کی روٹی کھانے سے بندے کی جسم میں خمار آتا ہے جس سے سستی چھا جاتی ہے اور اس میں موجود کاربوہائیڈریٹس کی زیادہ مقدار کی وجہ سے جسم فربہ بھی ہوجاتا ہے۔

گندم کے آٹے میں glutin کی مقدار 9.30 فی صد ہوتی ہے جس سے معاشرے میں گلوٹن الرجی سرایت کر رہی ہے اور اسٹارچ کی مقدار 53% اور بیٹاگلوکان% 99 0 ہے اور توانائی کی مقدار 324 کلو کلوریز فی 100 گرام آٹا ہے، جب کہ جو کی روٹی میں گلوٹن سرے سے ہوتی ہی نہیں۔ اس لیے جو کی روٹی کھانے والے کو گلوٹن الرجی نہیں ہوتی، اسٹارچ کی مقدار گندم سے % 10 زائد یعنی% .63 ہوتی ہے اور بیٹا گلوکان جو دراصل پیکٹ آف انرجی ہے، کی مقدار گندم سے بہت زیادہ یعنی 1%.5 ہے اور اس میں پائی جانے والی توانائی بھی گندم کے آٹے سے زیادہ ہے۔

جو 353 کلو کلوریز فی 100 گرام آٹا ہے، یہی وجہ ہے کہ جو کی روٹی کھانے سے خمار نہیں ہوتا بلکہ جسم میں چستی آتی ہے۔ اس سے بیماریوں سے شفا بھی مل رہی ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ فائبر کی وافر مقدار ہونے کی وجہ سے جو کی غذا کھانے سے قبض جیسے موذی مرض سے افاقہ ہوتا ہے۔

اس سے جسم پر چڑھی چربی پگھل جاتی ہے اور موٹاپا کم ہوجاتا ہے۔ یہاں پر یہ بتانا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ صومالیہ، کینیا، یوگنڈا، بنگلادیش، گھانا، سینیگال، سوڈان، ایتھوپیا وغیرہ کے لوگ ہمیشہ دبلے پتلے اور چست نظر آتے ہیں، قبض جو بیماریوں کی ماں کہلاتا ہے، کا ان ممالک میں خاتمہ ہوچکا ہے، کیوںکہ ان کی خوراک میں فائبر شامل ہوتا ہے جو وہ جو کی غذا سے حاصل کرتے ہیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں جو کی فصل پر تحقیق سست روی کا شکار ہے اور یہ ایک نظرانداز کی جانے والی فصل ہے۔

اس پر کی جانے والی تحقیق اس انداز میں نہیں ہو رہی جو اس فصل کی افادیت کی متقاضی ہے اور نہ ہی اسے آ تک ایک بڑی فصل کے طور پر لیا گیا ہے۔ یہی وجہ کہ قیام پاکستان سے لے کر تادم تحریر اس کی فقط 8 اقسام ہی دریافت کی جا سکی ہیں جن میں جو-83، جو -87، حیدر-93، سلطان-17، جو -17، جو-21،پرل-21 اور تلبینہ-21 شامل ہیں۔

ہمارے ملک میں جو کی فصل کی آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے 6.79 ملین ہیکٹرپاکستان کے کل رقبہ کا جو قابل کاشت 10.22 ملین ہیکٹررقبہ ہے، اس میں سے صرف56 ہیکٹر رقبے پر جو کی فصل کاشت کی جاتی ہے، جو پاکستان کے کُل قابل کاشت رقبے سے نصف فی صد سے بھی خاصا کم یعنی 0.26% بنتا ہے۔ پاکستان میں جو کی فصل پر تحقیق اگرچہ ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ فیصل آباد کے شعبہ گندم میں محدود پیمانے پر جاری ہے، مگر جو کی فصل کی بے شمار جہتوں پر تحقیق ہونا ابھی وقت کی اور پاکستانیوں کی شدید ضرورت بھی ہے۔

مثلاً کیا واقعی جو کی فصل کاشت کرنے سے زمینوں کی زرخیزی بڑھ جاتی ہے! یہ کم مداخل (Inputs) میں بھی اچھی خاصی پیداوار دے جاتی ہے، ا گر ایسی بات ہے تو کم و بیش 40ملین ہیکٹر کا وہ رقبہ جو بیابان و بنجر اور نمکیات شدہ پڑا ہے وہاں جو کی فصل کاشت کرنے سے پاکستان کو نہ صرف سرسبز بنایا جا سکتا ہے، بلکہ غذائی قلت بھی دور کی جاسکتی ہے اور دوسرا اس کے غذائی پہلوؤں پر بے شمار تحقیق ابھی تشنگی کا شکار ہے۔

اس غذا کی شیلف لائف توجہ طلب ہے کہ یہ کتنی دیر تک کارآمد ہو سکتی ہے، یہ تمام پہلو جو کی فصل کے ایک خود مختار ادارے کی راہ تک رہے ہیں جس کی تکمیل کے لیے اس کی راہ میں سرخ فیتے کی نذر ہو جانے والی رکاوٹوں کو دور کرنا کسی عاشق رسولؐ کی توجہ کے بغیر ممکن نہیں، لہٰذا پاکستان میں اور خصوصاً پنجاب میں غریبوں کی غذا ہونے کے ناتے اور نبی کریمؐ کی پسندیدہ جو کی غذا کی ترویج کے لیےInstitute Research Barley کا قیام ناگزیر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔