مسئلہ کشمیر قدم بہ قدم

محفوظ النبی خان  اتوار 5 فروری 2023
کشمیریوں پر ظلم اور ان سے وعدہ خلافیوں کی داستان۔ فوٹو : فائل

کشمیریوں پر ظلم اور ان سے وعدہ خلافیوں کی داستان۔ فوٹو : فائل

20 جنوری 1947 ء کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے وادی جموں وکشمیر میں ہونے والی لڑائی کو روکنے کے لیے جنگ بندی کی قرارداد منظور کی۔

قبل ازیں 17 جنوری 1947 ء کو ہندوستان نے سیکیوریٹی کونسل کے صدر کے نام اس بابت مراسلہ ارسال کیا جس کا جواب پاکستان کی جانب سے اقوام متحدہ کے سیکریٹری کے نام ایک مکتوب میں دیا گیا۔

اقوام متحدہ کی 20 جنوری کی قرارداد میں جنگ بندی کو مؤثر بنانے کے لیے فوجی مبصرین کی تعیناتی اور ریاست جموں وکشمیر میں استصواب رائے کے لیے پاک ہند کمیشن قائم کرنے کا کہا گیا۔ کشمیر میں جنگ بندی پر بعض حلقوں میں تحفظات رہے ہیں جو اس وقت کے زمینی حقائق سے قطعاً مطابقت نہیں رکھتے۔

ایک جانب پاک فوج کے انگریز سپاہ سالار نے گورنرجنرل کی حیثیت سے قائداعظم کے احکامات پر عمل درآمد سے انکار کردیا اور جنگ میں فوج بھیجنے کی صورت میں برطانوی فوجی ماہر افسران کو واپس بلانے کا عندیہ دیا۔

دوسری طرف برصغیر میں پاکستان اور ہندوستان کی ریاستوں کی بنا پر برطانوی ہند کے مالی وعسکری اثاثہ جات کی تقسیم ابھی باقی تھی اور پاکستان کے پاس طویل جنگ کے لیے مطلوبہ فوجی سازوسامان میسر نہیں تھا بلکہ پاکستان کے حصہ میں آنے والی فوج کی افرادی قوت بھی ابھی پوری طرح دوسری جنگ عظیم کے محاذوں سے وطن واپس نہیں آئی تھی۔
پاکستان کی نئی ریاست کو پاک وہند میں تبادلہ آبادی کے مسائل، مرکزی دارالحکومت میں سول سیکریٹریٹ اور وزارتوں کی تشکیل میں وزارت دفاع وخارجہ دونوں شامل تھیں، جیسے مسائل کا سامنا تھا۔

اسی طرح ملک میں نقل وحمل کے لیے ریلوے کا نظام بھی ایندھن کم ہونے کے سبب مشکلات کا شکار تھا جب کہ بھارتی افواج بھی سری نگر کے فضائی مستقر پر اترچکی تھیں۔ اسی دوران 21 اپریل اور3 جون 1948 کو بھی سلامتی کونسل نے کمیشن کو استصواب رائے کی کارروائی تیز کرنے کی ہدایت کی۔ 13 اگست 1948 ء کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے زیراہتمام انڈیا کے کمیشن نے اپنا لائحہ عمل پیش کیا۔

اقوام متحدہ میں جنگ بندی کی قرارداد کے نتیجے میں استصواب رائے کے لیے ڈکسن کو کمیشن کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ یونائیٹڈنیشنز کی جانب سے جموں وکشمیر کے عوام کے حق خودارادیت کو تسلیم کیا گیا اور برصغیر کی آزادی کے نتیجے میں قائم ہونے والی پاکستان اور ہندوستان کی ڈومینیز میں کسی ایک سے الحاق کے لیے استصواب رائے کے حصول کے لیے کام کا آغاز ہوگیا ۔

یہ پیش رفت سفارتی سطح پر پاکستان کی بڑی کام یابی تھی۔ برصغیر جنوبی ایشیاء کی تقسیم کے ایجنڈا کے مطابق برصغیر میں واقع دیسی ریاستوں کے لیے دونوں میں سے کسی ایک ڈومینین سے الحاق کا فارمولہ طے کردیا گیا تھا۔

عالمی سطح پر پاکستان کی دوسری بڑی کام یابی 5 جنوری 1949 ء کو اس وقت ہوئی جب استصواب رائے کے لیے پاک بند کمیشن نے مذکورہ پیش رفت روبہ عمل لانے کے لیے اجلاس منعقد کیا اور اس عمل کو آگے بڑھانے کے لیے اقدامات کو مربوط بنایا۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ 13 اگست 1948 کو کمیشن نے اپنے لائحہ عمل میں وادی کشمیر کے عوام کے انسانی حقوق کے ساتھ ساتھ ان کے سیاسی حقوق کو بحال رکھنے کا بھی اعادہ کیا۔
مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کے طاقت ور ترین ادارہ سلامتی کونسل نے وادی میں استصواب رائے کے لیے پیش رفت کو جاری رکھا۔ یہاں تک کہ مارچ1951 میں سلامتی کونسل نے کمیشن کی کارروائیوں کا جائزہ لیتے ہوئے فریقین کو مشورہ دیا کہ وہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کی تشریح کے تناظر میں اختلاف رائے کی صورت میں عالمی عدالت انصاف سے بھی رجوع کرسکتے ہیں۔

اس موقع پر ہونے والی سلامتی کونسل کی کارروائی میں سوویت یونین اور ہندوستان نے حصہ نہیں لیا اور غیرحاضر رہے۔ اس سے قبل 20 جنوری 1948 کی جنگ بندی کی قرارداد پر بھی سوویت یونین اور یوکرین نے حصہ نہیں لیا تھا۔ مارچ 1951 میں منعقدہ سلامتی کونسل اجلاس میں استصواب رائے کمیشن کے سربراہ ڈکسن کا استعفیٰ سامنے آیا۔ بعدازآں فرینک گراہم نے ڈکسن کی جگہ کمیشن کی سربراہی سنبھالی اور استصواب رائے کے لیے مزید کاوشوں کا آغاز کیا گیا۔

سلامتی کونسل اور کمیشن کی کارکردگی کو پاکستان میں باقاعدہ وزارت عظمیٰ کی سطح پر مانیٹر کیا جاتا رہا۔ 30 مارچ 1951 کو سلامتی کونسل کے اجلاس کے بعد ستمبر میں وزیراعظم لیاقت علی خان کے قتل سے قبل سلامتی کونسل کے اجلاس کی تواریخ اور ایجنڈے کے مطابق 18 اکتوبر اور 10 نومبر1951 ء کو سلامتی کونسل کے اجلاس منعقد ہوئے جن میں استصواب رائے کمیشن کے اقدامات اور کارکردگی کا جائزہ لیا گیا۔

ابھی یہ پیش رفت جاری تھی کہ پاکستان میں “رجیم چینج” ہوگیا اور اصل اقتدار ملک غلام محمد، سکندر مرزا اور جنرل ایوب خان نے سنبھال لیا۔ وزیراعظم خواجہ ناظم الدین اور ان کی حکومت اس ٹرائیکا کے سامنے بے بس نظر آئے۔ چناںچہ ایک سال سے زائد عرصہ تک سلامتی کونسل یا کمیشن کا کوئی اجلاس دسمبر 1952 ء سے قبل منعقدہ نہیں ہوا۔

سوال یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل میں اس عالمی سرد مہری کے باوجود پاکستان نے کوئی علیحدہ موقف کیوں اختیار نہیں کیا؟ دراصل اگر ہم اس عمل کو من وعن تسلیم نہ کرتے تو عالمی طور پر ممالک کی جانب سے اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا تھا جس کا نوزائیدہ پاکستان متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔ اکتوبر 1951 ء میں حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی استصواب رائے کے تناظر میں مسئلہ کشمیر پر پیش رفت سست روی کا شکار ہوگئی اور پھر مسئلہ پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس چار سال کی تاخیر کے بعد1957 میں منعقد ہوا۔

اس وقت تک بہت سا پانی سر سے گزر چکا تھا۔ 6 سال کی تاخیر کے بعد 1964 میں سلامتی کونسل کے صدر نے اپنے خطاب میں مسئلہ کشمیر کے تناظر میں پاک ہند کمیشن کی کارکردگی کا جائزہ لیا لیکن اس کے بعد کمیشن کا کوئی کام سامنے نہیں آیا۔

یہاں پاکستان کے کہنہ مشق مرحوم سیاستدان نوابزادہ نصراللہ خان کا بیان قابل غور ہے کہ جس میں انہوں نے واضح کیا تھا کہ 1947 ء میں لیاقت علی خان سے لے کر 1958 ء میں ملک فیروز خان نون کے دوروزارت عظمیٰ میں پاکستان کا دیگر ممالک کے ساتھ رابطوں میں گرم جوشی مسئلہ کشمیر پر ان ممالک کی جانب سے پاکستان کے موقف کی تائید سے مشروط تھا۔

1965 ء میں مسئلہ کشمیر کے سلسلہ میں ہی پاکستان اور بھارت کی فوجیں ایک دوسرے کے مقابل آگئیں جس کے نتیجے میں دونوں ممالک 17 روز تک مکمل حالت جنگ میں رہے۔

ہندوستان کے وزیراعظم پنڈت جواہرلعل نہرو کی رحلت سے چند روز قبل مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی عوامی قیادت سے گفت وتنقید کے کے لیے بھارتی وزیراعظم کے اعادے پر جے پر کاش نارائن اور شیخ عبداللہ پر مشتمل ایک وفد پاکستان کا دورہ پر آیا تھا اور اس دوران مختلف سیاسی قائدین سے ملاقاتیں بھی ہوئی تھیں۔ ابھی یہ سلسلہ جاری ہی تھا کہ وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کے انتقال کی خبر آگئی اور یوں یہ جدوجہد بھی رائیگاں گئی۔

1968 میں صدر ایوب خان کے خلاف عوامی مزاحمتی تحریک شروع ہوئی جس کے نتیجے میں مارچ 1969 میں ایک اور فوجی ڈکٹیٹر جنرل یحییٰ خان نے اقتدار پر قبضہ کرلیا اور پاکستان میں نئی آئین سازی کا سیاسی عمل شروع ہوا۔ دسمبر 1970 ء میں آئین ساز اسمبلی منتخب ہوئی اور اگلے ہی سال 1971 ء میں ملک ایک بڑے آئینی اور سیاسی بحران کا شکار ہوگیا جس کے نتیجے میں 16دسمبر 1971 ء کو پاکستان دولخت ہوگیا اور مشرقی پاکستان میں موجود پاکستانی افواج اور سول انتظامیہ کے لوگوں کو بھارت میں جنگی قیدی بنالیا گیا۔

اب ترجیحات تبدیل ہوگئیں اور مسئلہ کشمیر کے بجائے جنگی قیدیوں کی رہائی بنیادی اہمیت اختیار کرگئی۔ پاکستانی جنگی قیدیوں کی رہائی اور ہندوستان کے قبضے میں پاکستان کے مغربی بازو کے بعض علاقوں کی بازیابی کے لیے شملہ معاہدہ ناگزیر ہوگیا۔

شملہ معاہدہ کے نتیجے میں کشمیر میں پاکستان اور بھارت کے مابین جنگ بندی لائن، لائن آف کنٹرول LOC قرار پائی۔ معاہدے میں پاک بھارت تنازعات کو دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر اتفاق کیاگیا۔ پاکستان اور بھارت کے مابین مسئلہ کشمیر کل بھی سب سے بڑا تنازعہ تھا اور آج بھی ہے لیکن اس کے حل میں اقوام متحدہ کے کردار کے لیے عالمی ادارے پر دستک مشکل ہوگئی ۔

دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر کا قابل عمل تلاش کرنے کے لیے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جنرل پرویزمشرف کے دورصدارت میں کوششیں کی گئیں جو اس وقت کے وزیرخارجہ خورشید محمود قصوری کے بقول تیزی سے آگے بڑھ رہی تھیں اور دونوں ممالک مسئلہ کشمیر حل کے قریب پہنچ چکے تھے کہ جنرل پرویزمشرف کے اقتدار کا خاتمہ ہوگیا اور یوں دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے حل کی کاوشیں بارآور ثابت نہ ہوسکیں۔

جنرل پرویزمشرف کے دور میں جب پاکستان دوسری مرتبہ افغانستان کے حوالے سے امریکا کا اتحاد ی بن کر نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف تھا تو امریکا کی جانب سے پاکستان اوربھارت دونوں کے درمیان مذاکرات کے لیے سہولت کاری کی گئی۔ ان دوطرفہ مذاکرات کے نتیجے میں دونوں ممالک مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے مابین عوامی سطح پر رابطے بحال کرنے میں کام یاب ہوئے۔

مونا بائو اور کھوکھراپار سرحد سے ریل کے ذریعے آمدورفت، سری نگر سے مظفرآباد تک بس سروس اور محدود پیمانے پر بھارتی سامان کی آمدورفت کا سلسلہ جاری ہوا، اس کے باوجود عملاً اعتماد بحال نہ ہوسکا اور یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا، بلکہ نریندر مودی کی حکومت نے 5 اگست2019 کو بھارتی آئین میں موجود مقبوضہ کشمیر کی علیحدہ حیثیت کو بھی ختم کردیا اور ریاست کو غیرقانونی طور پر بھارت میں ضم کرلیا۔

آج بھی صورت حال جو ں کی توں ہے اور ہم پاکستان میں اپنے ہی جھگڑوں میں مصروف ہیں۔ راقم الحروف پاکستان کے صاحبان اقتدار کو اس مسئلے کے تناظر میں عالمی عدالت انصاف سے رجوع کرنے کے مکتوب ارسال کرچکا ہے، جس میں خود سلامتی کونسل کی جانب سے عالمی عدالت سے رجو ع کا فریقین کو مشورے کا حوالہ دیا گیا ہے۔

پاکستان کی وزارت خارجہ کی ویب سائٹ پر مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی کارروائی کی تفصیل مکمل طور پر موجود نہیں ہے جس سے ہماری حکومتوں کی اس سلسلے میں دل چسپی کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ ارض جنت نظیر کے باسیوں کی مشکلات ومحرومیاں نہ صرف گذشتہ 75 سال سے جاری ہیں بلکہ اس سے قبل بھی وہ ڈوگرہ راج کے دوران مسلمانان کشمیر متعصب حکم رانوں کے مظالم کا شکار رہے۔ موجود ہ بین الاقوامی صورت حال میں بھی پاکستان سفارتی سطح پر کشمیر کاز کو اجاگر کرسکتا ہے۔

ایک زمانے میں شمالی کوریا اپنے جنوبی خطے سے دوبارہ اتحاد کے لیے دنیا بھر کے ممالک میں Reunification Confrences منعقد کرتا رہا ہے جن میں ان ممالک کے دانش ور کوریا کے ازسرنو اتحاد کی تائید میں قرارداد منظور کرکے کاز کو طمانیت بخشتے تھے۔

ان کانفرنسز کے اخراجات جاپان میں موجود کوریائی صنعت کار برداشت کرتے تھے خود پاکستان میں ایسی متعدد کانفرنسز کا انعقاد ہوچکا ہے۔

کشمیر کے تناظر میں بھی ان کی تقلید کی جاسکتی ہے۔ ہمیں آزاد کشمیر میں بھی مقامی سیاسی تنظیموں کو ہی آگے بڑھانا چاہیے نہ کہ پاکستانی سیاسی جماعتوں کو وسعت دے کر اپنی قیادت مسلط کی جائے۔ اس سے دنیا بھر میں موجود اور پاکستان میں مقیم کشمیری عوام کے نہ صرف اعتماد میں اضافہ ہوگا بلکہ ہندوستان میں غیرقانونی زیرقبضہ کشمیر کے لیے بھی ایک مثال قائم ہوگی۔

کشمیر کی اس جنگ میں پاک فوج کی قلیل تعداد کے سبب بعض قبائلی لشکر بھی جنگ میں شامل ہوگئے تھے۔ ان نان اسٹیک ایکٹرز میں نظم وضبط کا فقدان تھا۔

اس کی وجہ سے خود کشمیری مسلمان ان کی کارکردگی سے نالاں تھے۔ آزاد کشمیر کے مرحوم صدر کے ایچ خورشید کی شریک حیات محترمہ ثریا خورشید جو خود بھی آزاد کشمیر اسمبلی کی رکن رہی تھیں، نے “محترمہ فاطمہ جناح کے شب روز” کے نام سے مادر ملت کے احوال بیان کیے ہیں جس کے مطابق محترمہ فاطمہ جناح نے بھی کشمیر کی جنگ میں ان غیرمنظم جتھوں کی لشکرکشی کو ناپسند فرمایا تھا۔

جنوری 1948 ء میں اقوام متحدہ کی جا نب سے کشمیر میں پاک وہند جنگ بندی کی قرارداد اور ریاست سے الحاق، کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کے اظہار کے لیے نہ صرف استصواب رائے کا حکم دیا تھا بلکہ مقصد پر عمل درآمد کے لیے پاک ہند کمیشن تشکیل دے دیا گیا تھا جس کے تحت کشمیر میں جنگ بندی اور استصواب رائے کی قرارداد اپنے مخصوص پس منظر میں اولین قرارداد ہے۔

دوسری جنگ عظیم کا آغاز لیگ آف نیشنز کی ناکامی سے ہوا تھا۔ لیگ کا کام پہلی جنگ عظیم کے بعد دنیا میں امن ومان کی فضاء کو بحال رکھنا تھا۔ اس پس منظر میں جب دوسری جنگ عظیم کے بعد یونائیڈنیشنز آرگنائزیشن UNO کا قیام عمل میں آیا تو اقوام عالم کو توقع تھی کہ بین الاقوامی ادارہ کرۂ ارض پر امن وامان کے قیام اور امن شکنی کی صورت میں اس کے اسباب کے خاتمے کے لیے مؤثر اقدامات کرے گا۔

20 جنوری 1948 ء کو سلامتی کونسل میں کشمیر میں جنگ بندی کے ساتھ تنازعہ کے اسباب کو ختم کرنے کے لیے استصواب رائے کے حصول کا طریقۂ کار وضع کرکے پاک ہند کمیشن کے ذریعے ریاست جموں وکشمیر کے مستقبل کے فیصلے کے حصول کے اقدامات کا آغاز کردیا گیا تھا اور پاکستان سمیت تمام امن پسند ممالک کو یقین تھا کہ اقوام متحدہ کشمیر کے تناظر میں اپنی قراردادوں پر عمل درآمد میں کام یاب ہوجائے گی لیکن تاریخ کے ریکارڈ پر 1957 ء کے بعد تنازعہ کشمیر کے حل کے لیے کمیشن کی غیرفعالیت کے باعث سنجیدہ اقدامات نظر نہیں آئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔